قدرتی آفات نہیں انسانی آفات

سعد اللہ جان برق  اتوار 14 اکتوبر 2018
barq@email.com

[email protected]

بخدا ہمیں اس بات کا ہر گز پتہ نہیں تھا کہ آفات ارضی و سماوی میں حکومت کا بھی کچھ ہاتھ ہو سکتا ہے یا حکومت و سرکار کا کوئی ایسا ادارہ بھی ہے جو قومی آفات و بلیات کو مینج کرتا ہے۔

اگر چہ ہمیں اپنی انگریزی دانی کی ہچ مدانی کا اعتراف ہے لیکن نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کا یہی مطلب نکلتا ہے یہ بھی ہمیں نہیں معلوم کہ یہ ادارہ یا اتھارٹی اراضی و سماوی آفات و بلیات کا کیا کرتی ہے کیونکہ حکومت کے کسی بھی ادارے یا اتھارٹی یا کمیٹی یا کمیشن کے بارے میں آج تک کوئی نہیں جان پایا ہے کہ نوالوں کے لیے منہ پیدا کرنے کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا مطلب و مقصد بھی ہوتا ہے اور ہماری معلومات کے مطابق حکومت نے اس میں جو بھی ’’سعی‘‘ اب تک کی ہے وہ کامیاب رہی ہے اور یہ تمام ادارے، محکمے، کمیٹیاں، کمیشن اتھارٹیاں وغیرہ صرف وہی کام کرتی ہیں جس کے لیے بنائی گئی ہیں نوالوں کے لیے بنائے گئے منہ ہر نوالے کو سیدھا طے شدہ منزل پر پہنچاتے ہیں جسے غالباً سرکاری زبان میں کیفر کردار بھی کہتے ہیں۔

چنانچہ ہمیں اس ’’منہ‘‘ سوری اتھارٹی سے بھی کوئی جھگڑا تنازعہ نہیں بیشک دوسروں کی طرح لگے رہو منا بھائی ہے۔ لیکن تعلق یوں پیدا ہوا کہ اس ادارے یا اتھارٹی کے چیئر مین نے کہا ہے کہ پاکستان ایک آفات و بلیات زدہ ملک ہے اور ان آفات وبلیات سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے اب اس بات کے جو دو الگ الگ ٹکڑے ہیں ہمیں بھی ان کے بارے میں الگ الگ کچھ کہنا ہے چاہے کوئی سنے یا حسب معمول نہ سنے۔ اور یہ اس لیے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم یہی بات جو اس اتھارٹی نے اب کی ہے مدتوں سے کہتے آ رہے ہیں کہ پاکستان ایک آفات وبلیات زدہ ملک ہے۔ کرو خدا کے لیے کچھ کرو ورنہ

یونہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

لیکن کوئی سن کر ہی نہیں دے رہا ہے کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بات اور الفاظ کی بھی کوئی تاثیر کوئی معنی و مفہوم نہیں ہوتا بلکہ سارے معنی و مفاہیم اس منہ میں ہوتے ہیں جس سے وہ بات یا الفاظ نکلتے ہیں اس موضوع پر ہم نے مدت ہوئی ایک شعر بھی کہا تھا۔ کہ الفاظ بھی اس دور کے انسانوں جیسے ہو گئے ہیں کہ منہ بدلتے ہی اپنی تاثیر بدل ڈالتے ہیں مثلاً ایک با ت اگر عمران خان کہے تو الگ تاثیر ہو گی اور ہمارے گائوں کا عمرانے کہے تو تاثیر تو کیا سنائی بھی نہیں دے گی۔

بہر حال دیر آئد درست آئد کم از کم یہ بات تو مان لی گئی کہ پاکستان آفات کا شکار ملک ہے لیکن اس کے لیے اتھارٹی موصوف نے جو حل ’’تجویز ا‘‘ ہے اس سے ہمیں شدید اختلاف ہے بلکہ خطرہ ہے کہ اس طرح کہیں آفات میں ایک دو اور کا اضافہ نہ ہو جائے۔

موصوف نے ’’قانون سازی‘‘ کا جو نام لیا ہے ایسا لگا کہ

کلکتہ کا جو نام لیا تو نے ہم نشین

اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

جہاں تک ہماری معلومات، مشاہدات، تجربات اور دیدو شنید کا تعلق ہے کہ ’’قانون‘‘ اور اس کی اماں جان محترمہ ’’سازی‘‘ بجائے خود اتنی بڑی آفات ہیں کہ باقی کی تمام آفات ارضی و سماوی ان کے آگے ’’بونے‘‘ بھی نہیں ہیں کیونکہ تمام آفات ارضی و سماوی میں کم از کم اتنی ’’شرافت‘‘ تو ہوتی کہ آتی ہیں تو جاتی بھی ہیں لیکن یہ دونوں ماں بیٹا قانون اورمحترمہ ’’سازی‘‘ تو کمبل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ آفات سماوی کے بارے میں آپ نے ایک انوریؔ صاحب کا نام تو سنا ہوگا جس کا کہنا تھا

ہر بلائے کہ ز آسماں بود

خانہ انوریؔ تلاش کند

یعنی آسمان سے جب کوئی بلا اترتی ہے تووہ انوریؔ کا پتہ پوچھتی ہے اور گھر تلاش کرتی ہے۔ مطلب یہ کہ اجنبی نا اشنا اور نا واقف ہوتی ہے لیکن جب خاندان بلاگان کا ذکر ہم نے کیا ہے قانون اس کی ماں اور اس کے رنگ برنگے چیلے چانٹے کہ کبھی جاتے ہی نہیں تو پتہ پوچھنے کی ضرورت کیا پڑے بلکہ اس پتے پر تو یہ براجمان ہوتی ہے پکا پکا قبضہ کیے ہوئے بلکہ ذرا سا چھیڑیے تو اپنے خاندان کو بھی بلا لیتی ہے ۔

وہ ایک بلا نما مہمان کسی گھر میں نازل ہو کر پکا پکا جم گیا تو میزبان میاں بیوی نے تنگ آکر صلاح ٹھہرائی کہ اسے کسی طرح بال بچے یاد دلائے جائیں شاید بال بچوں کی یاد اسے جانے پر مجبور کردے لیکن جب یہ کہا گیا تو وہ بولا۔ ہاں مجھے بھی بال بچوں کی بہت یاد آرہی ہے آج ہی خط ڈال کر ان کو بھی یہاں بلائے لیتا ہوں اس حوالے سے پاکستان پر نازل ہونے بلکہ چمٹنے والی بلائوں میں بجلی اور لوڈ شیڈنگ کا سا معاملہ ہے کہ ایک آتی نہیں دوسری جاتی نہیں اور ہم امیرؔ مینائی بنے ہوئے ہیںزندگی میں

اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

ہم تو اگر کوئی مانے تو یہی کہیں گے کہ آفات وبلیات کو اسی طرح اپنے حال پر رہنے دیجیے اور ’’قانون سازی‘‘ کو اپنی جگہ سنبھال کر رکھ لیجیے کیونکہ اب تک جتنی قانون سازی ہمارے قانون سازوں اور قومی نمائندوں نے کی ہوئی ہے وہ بھی کم از کم ایک دو صدیوں کے لیے کافی ہوئی تو پھر مزید قانون سازی ہم پر نہ چھوڑیں تو عنایت ہوگی۔ رہی آفات وبلیات سماوی تووہ ان کا اور ہمارا صدیوں کا رشتہ ہے ۔

بلکہ ہم تو اس حالت میں ہیں کہ ایک شخص کے ہاں کسی عزیز نے اپنے چند بچے بھیج دیے کہ یہاں کوئی مرض پھیلا ہوا ہے اس لیے بچے دور رہیں گے تو محفوظ رہیں گے لیکن وہ بچے اتنے قانون ساز یا قانون نافذ کرنے والے ’’ادارے‘‘ تھے کہ دوہی دنوں میں اس گھر پر اتنا زیادہ قانون نافذ کر چکے کہ بچارے گھر والے نے اس کے والدین یا ’’سازی‘‘ کو تار دیا کہ خدا کے لیے اس’’مرض‘‘ کو یہاں بھیج دو اور اپنے ان ’’بچوں ‘‘ کو وہاں بلا لو۔

حالانکہ ہماری معلومات کے مطابق آفات وبلیات کے لیے اب بھی بہت زیادہ قانون سازی موجود ہے اور اس کی برکت سے گزشتہ زلزلے اور سیلاب زدگان تو ویسے ہی خدا کے حوالے ہیں اور باہر کے ممالک سے جو کچھ مال و متاع آچکا تھا وہ اپنے اپنے ٹھکانے پہنچ چکا ہے۔ یقین نہ ہو تو عائشہ گلالئی اور اس کے والد محترم سے جاکر پوچھ لیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔