پنجاب کی 21رکنی کابینہ اور صوبے کو درپیش چیلنجز

خالد قیوم  منگل 11 جون 2013
رانا ثناء اللہ خان نے جنرل مشرف کے بدترین مارشل لاء کا سامنا کرتے ہوئے آمریت کے تازیانے اپنے جسم پر برداشت کئے ہیں فوٹو : فائل

رانا ثناء اللہ خان نے جنرل مشرف کے بدترین مارشل لاء کا سامنا کرتے ہوئے آمریت کے تازیانے اپنے جسم پر برداشت کئے ہیں فوٹو : فائل

لاہور: پنجاب میں 21 رکنی صوبائی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے، یوں صوبے میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔

اس بار تعلیم اور صحت جیسی اہم وزارتوں پر بھی تقرری کی گئی ہے۔ بظاہر نئے وزراء کو ان کی اہلیت کے مطابق محکمے دئیے گئے ہیں اورمشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دینے والے ارکان اسمبلی کو اچھی وزارتیں دی گئی ہیں۔ جن علاقوں کو وفاق میں نمائندگی نہیں دی جاسکی، وہاں سے بھی صوبائی وزراء لئے گئے ہیں ۔ رانا ثناء اللہ کابینہ میں سب سے طاقتور وزیر ہوں گے، ان کے پاس بلدیات ، قانون اور پارلیمانی امور کے محکمے ہوں گے۔ پچھلے پانچ سال کے دوران پنجاب اسمبلی میں ریکارڈ قانون سازی میں بطور وزیرقانون رانا ثناء اللہ کا بہت اہم کردار رہا اور 134 بل منظور کئے گئے۔

رانا ثناء اللہ خان نے جنرل مشرف کے بدترین مارشل لاء کا سامنا کرتے ہوئے آمریت کے تازیانے اپنے جسم پر برداشت کئے ہیں، پاکستان میں جب بھی جمہوری جدوجہد کی تاریخ رقم کی جائے گی، رانا صاحب کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ جنرل مشرف کے دور میں انہیں بھرے بازار میں ڈرامائی انداز میں اٹھایا گیا اور ان پر بے پناہ تشددکیا گیا، میاں نواز شریف کا ساتھ نہ چھوڑنے کی پاداش میں نہ صرف قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ریاستی اداروں کے غیض و غضب کا بھی شکار ہونا پڑا۔

شریف فیملی ان کی سیاسی جدوجہد ، قربانیوں اور وفاداریوں کے باعث انہیں خصوصی مقام دیتی ہے اور سیاسی فیصلوں میں ان کی رائے کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ وہ سخت سے سخت اور تلخ سے تلخ بات بھی حوصلے سے برداشت کرتے ہیں۔ انہیں دلائل کے ساتھ مخالف کے موقف کو رد کرنے کا ہنر بھی آتا ہے اور حالات ان سے جس قسم کے رویے کے متقاضی ہوں وہ ویسا ہی رویہ اپنا نے کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف رانا ثناء اﷲ کو سپیکر پنجاب اسمبلی بنانا چاہتے تھے جبکہ شہباز شریف کو صوبے کے معاملات چلانے کے لئے رانا ثناء اﷲ جیسے تجربہ کار اور سیاسی معاملات کا ادراک رکھنے والے پارلیمنٹیرین کی ضرورت تھی، شہباز شریف نے نواز شریف کو قائل کیا کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات اور صوبائی حکومت کے دیگر امور میں انہیں رانا ثناء اﷲ کی ضرورت ہے۔

راجہ اشفاق سرور کو محنت ، افرادی قوت اور ہیومن ریسوریس کی وزارت دی گئی ہے۔ وہ 88 ء میں نواز شریف کابینہ کے وزیر محنت تھے ۔ ان کا تعلق مری سے ہے اور وہ اس وقت مسلم لیگ(ن) کے صوبائی جنرل سیکرٹری ہیں۔ راجہ اشفاق سرور 90ء میں وزیر جنگلات، وائڈ لائف، فشریز ، 97ء میں وزیر صحت اور 2008ء میں وزیر اعلیٰ کے مشیر رہے۔ راجہ اشفاق سرور کے والد راجہ غلام سرور مرحوم ایوب دور میں ایم پی اے رہے ، راجہ صاحب جب تک زندہ رہے، وہ مرحوم ایوب خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہر سال ان کی برسی کا اہتمام کرتے تھے۔

میاں عطاء مانیکا صوبائی کابینہ میں سینئر ترین سیاسی شخصیت ہیں۔ انہیں صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر اور بیت المال بنایا گیا ہے۔ وہ 93ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(جونیجوگروپ) کے دور حکومت میں وزیر تعلیم پنجاب تھے ۔ ان کا تعلق پاکپتن سے ہے اور وہ ماضی میں سابق وفاقی وزیر یٰسین خان وٹو اور منظور احمد وٹو کے روائتی سیاسی حریف رہے ہیں ۔ میاں عطاء مانیکا 88ء کے ضمنی الیکشن میں میاں محمد یٰسین خان وٹو کے مقابلے بھاری اکثریت سے الیکشن جیت گئے تھے۔ میاں عطاء مانیکا نے میاں منظور وٹو کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیاتھا۔

وہ بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوارتھے مگر بے نظیر بھٹو نے ان کے نام پر اتفاق نہیں کیا تھا۔ سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کے دور میں انہیں نظر انداز کیا گیا اور وہ 2008ء کی اسمبلی میں فارورڈ بلاک کے لیڈر بن گئے ۔ پاکپتن سے ہی ڈاکٹر فرخ جاوید کو زراعت کی اہم وزارت دی گئی ہے ۔ صوبائی وزیر آبپاشی میاں یاور زمان اوکاڑہ کی ’’برج جیوے خان فیملی‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ 2002ء میں بھی ایم پی اے رہے ہیں، ان کے والد میاں محمد زمان 85ء میں اوکاڑہ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور وہ بطور وزیر مملکت نیشنل لینڈ کمیشن کے چیئرمین تھے۔ میاں زمان نے میجر جنرل (ر) راؤفرمان علی خان کو شکست دی تھی۔ میاں زمان 90ء اور 97ء میں بھی رکن قومی اسمبلی کامیاب ہوئے تھے۔

اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی خلیل طاہر سندھو کو انسانی حقوق، اقلیتی امور اور صحت کی وزارتیں دی گئی ہیں۔ وہ دوسری بار رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، وہ 2008ء میں پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون، انسانی حقوق اور اقلیتی امور رہ چکے ہیںاور ایوان کی کارروائی میں بھرپور کردارا دا کرتے رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اقلیتی نشستوں کے لئے مسلم لیگ(ن) کی ترجیحی لسٹ میں بھی انہیں پہلا نمبر الاٹ کیا گیا تھا ۔ وہ نو منتخب اقلیتی ارکان صوبائی اسمبلی میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔

خلیل طاہر سندھو اپنی محنت اور پارٹی کے ساتھ کمٹمنٹ کے باعث آگے آئے ہیں۔ سابق مشرف دور میں بھی انہوں نے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اس وقت صوبہ پنجاب خسرے کے وبائی مرض کی لپیٹ میں ہے اور یہ نئے صوبائی وزیر صحت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ وہ نوجوان اور متحرک وزیر ہیں ۔ وہ گزشتہ روز اپنی وزارت کا چارج سنبھالتے ہی چلڈرن ہسپتال پہنچ گئے، مریضوں کی عیادت کی اور خسرہ سے متاثرہ بچوں کے بہتر علاج کے لئے احکامات جاری کئے۔ وفاق میں بھی اقلیتی سینیٹر کامران مائیکل کو پورٹ اینڈ شپنگ کی اہم وزارت دی گئی ہے۔

کامران مائیکل کو سابق صوبائی کابینہ میں وزیر خزانہ بنایا گیا تھا، اس سے اقلیتوں کو قومی دھارے میںلانے کے لئے عملی اقدامات کئے گئے ہیں اور قومی و بین الاقوامی سطح پر اچھا پیغام گیا ہے۔ چودھری محمد شفیق کو وزیر صنعت ، تجارت اور سرمایہ کاری بنایا گیا ہے۔ وہ 2002ء اور 2008ء میں رحیم یار خاں سے ن لیگ کے واحد رکن اسمبلی تھے۔ سابق دور میں بھی انہیں دوسرے فیز میں صوبائی وزیر بنایا جانا تھا مگر صوبائی کابینہ میں توسیع کی نوبت ہی نہ آسکی۔ چودھری شفیق نے بلدیات سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور 1998-99ء میں چیئرمین میونسپل کمیٹی صادق آباد بھی رہے۔ ان کا صنعتی اور کاروباری شعبے سے بھی گہرا تعلق ہے اور وہ بہاولپور چیمبر آف کامرس کے عہدیدار بھی رہے ہیں ۔ توقع ہے کہ وہ اچھے طریقے سے وزارت چلائیں گے۔

وزیر توانائی شیر علی خان کا تعلق اٹک کے معروف سیاسی گھرانے سے ہے، ان کے دادا نواب آف کالا باغ ملک امیرمحمدخان نے مغربی پاکستان میں6سال تک گورنرکی خدمات بھی سرانجام دیں۔ چھ نئے وزراء سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت کا بھی حصہ رہے ہیں، ان میں ہارون سلطان بخاری اور کرنل(ر) شجاع خانزادہ وزیر رہے جبکہ آصف علی ملک، حمیدہ وحید الدین ، ملک تنویر اسلم پارلیمانی سیکرٹری اور آصف سعید منہیس پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ سابق ڈپٹی سپیکر رانا مشہود احمد کو سکول ایجوکیشن کا وزیر بنایاگیا ہے جبکہ ہائیر ایجوکیشن ، یوتھ افیئرز، سپورٹس، آرکیالوجی اور سیاحت کے اضافی چارج دیئے گئے ہیں۔ لاہور سے زعیم قادری اور ملتان سے حسام الدین قریشی کو کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ ملتان سے عبدالوحید چودھری کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ۔

ساہیوال سے ملک ندیم کامران اور بہاولپور سے ملک اقبال چنٹر دوبارہ وزیر بنائے گئے ہیں ۔ لاہور سے میاں مجتبٰی شجاع الرحمن اور بلال یٰسین کو وزیر بنایا گیا ہے، بلال یٰسین بیگم کلثوم نواز کے بھانجھے ہیں۔ اس حکومت نے شوبز کو بھی کافی اہمیت دی ہے، اداکارہ کنول کو مخصوص نشست پر ایم پی اے اور اداکار عزم الحق کو مشیر بنایا گیا ہے۔ رانا مقبول کو مشیر بناکر بعض حلقوں کو اچھا پیغام نہیں دیا گیا۔ بعض سیاسی جماعتوں کے بھی ان کے بارے میں تحفظات رہے ہیں۔ شہباز شریف کے پچھلے دور حکومت میں وزراء کو خاص اہمیت نہیں دی گئی جس کے باعث چند ایک وزراء کے سوا کوئی وزیر بہتر رزلٹ نہیں دے سکا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنے وزراء کو مکمل بااختیار بنائیں گے یا پھر وہ بیوروکریسی کے ذریعے ہی حکومت چلائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔