سینما مالکان بولی وڈ فلموں کو ترجیح دینے لگے

قیصر افتخار  اتوار 14 اکتوبر 2018
پاکستانی فلم سازوں کی طرف سے بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کا مطالبہ۔ فوٹو: فائل

پاکستانی فلم سازوں کی طرف سے بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کا مطالبہ۔ فوٹو: فائل

پاکستان اوربھارت کے تعلقات میں دن بدن کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے جس کی بڑی وجہ بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اورپاکستان میں دہشت گردی کیلئے خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیاں ہیں۔

اس سب کے باوجود پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے بڑے ہی مثبت انداز سے خطے میں امن ، دوستی اوربھائی چارے کی فضاء کوقائم کرنے کیلئے ڈائیلاگ کا جوپیغام دیا گیا ، اس کوبھارتی حکومت اورفوج نے کوئی اہمیت نہ دی اور بھارتی حکومت کے ساتھ بھارتی فلم انڈسٹری کے وہ تمام حلقے جو پاکستانی فنکاروں اور گلوکاروں کی صلاحیتوں سے خوفزدہ ہیں ، نے بھی کھل کراس کی مخالفت کی ہے۔

اس صورت حال پر صرف افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ مگر افسوسناک پہلو دوسرا ہے کہ ایک طرف بھارت کی جانب سے انتہائی اقدام کئے جارہے ہیں۔ پاکستانی فنکاروں کوبالی وڈ میں کام کرنے سے روکا جارہا ہے۔ تشدد کے ساتھ ساتھ بدزبانی کا سلسلہ بھی چل رہا ہے اوریہ سب کچھ کوئی الزام نہیں بلکہ سوشل میڈیا اوراخبارات کے ذریعے سب کے سامنے آچکا ہے۔

ان سب منفی ہتھکنڈوں کوآزمانے کے بعد اب ایک نئی مہم جوبھارت میں چلائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے نجی چینلز پرجوبھارتی ڈرامے اورتفریحی پروگرام پیش کئے جا رہے ہیں، ان پربھی پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ بھارت میں بیٹھے کچھ منفی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ بھارتی ڈرامے اورپروگرام پاکستانی چینلز کوبہترین بزنس فراہم کررہے ہیں، اگرایسا نہ کیا جائے توپاکستان کی ٹی وی انڈسٹری کوبھی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔

یہ وہ سوچ ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کی حکومت ، فوج اورحالات کوکشیدہ کرنے والے گروہ کیا چاہتے ہیں۔ حالانکہ آج بھی ماضی کے مقبول ترین پاکستانی ڈرامے بھارت کی ایکٹنگ اکیڈمیوں اور سکولوں میں پڑھائے اوردکھائے جارہے ہیں ۔ یہ تووہ حقیقت ہے جس سے کوئی آنکھ نہیں چرا سکتا۔ مگر خوفناک صورتحال کچھ اورہی ہے جس کی بدولت آج پاکستان کی شوبز انڈسٹری دودھڑوں میں تقسیم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

بھارت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات پرشاید ہی کوئی ایسا ہوگا جویہ کہہ کہ وہ ٹھیک کررہے ہیں اورجواقدام ان کی جانب سے کیے گئے ہیں ، اس پرفوری بھارتی پراڈکٹس اورچینلز کے ساتھ ساتھ سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلموں کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ پابندی لگائی جائے۔ لیکن کچھ حلقے آج بھی یہ چاہتے ہیں کہ فلموں کی نمائش پرپابندی عائد نہ کی جائے، کیونکہ پاکستانی سینما گھروں کی بقاء کیلئے امپورٹ قوانین کے تحت لائی جانے والی بھارتی فلموں کا کردار’’مثالی ‘‘ ہے اورانہی کی وجہ سے آج سینما گھروں میں رونقیں لگی ہوئی ہیں۔

اس صورتحال میں وطن عزیزمیں امپورٹ قوانین کے تحت بھارتی فلموں کی نمائش پرپاکستان فلم انڈسٹری دوحصوں میں تقسیم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پہلے تولاہوراورکراچی کے درمیان سردجنگ جاری تھی لیکن اب معاملہ کسی دوسری سمت چل نکلا ہے۔

کچھ کا خیال ہے کہ پاکستان میں امپورٹ قوانین کے تحت نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلموں کی نمائش غیرقانونی ہے اوریہ سب سابقہ حکومتوں کی ملی بھگت سے کیا جا رہا تھا ، لیکن نئی حکومت کے اقتدارمیں آنے کے بعد اس پرسخت ایکشن لینا چاہئے، کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کا حکومت میں آنے سے پہلے سب سے بڑا نعرہ تبدیلی اورکرپشن کے خاتمہ کا تھا۔

اب جہاں مختلف شعبوں میں کرپشن کے حوالے سے تحقیقات اور مقدمات بنائے جارہے ہیںِ ، وہیں اس حوالے سے بھی ایکشن لینے کی ضرورت ہے، تاکہ محض کاغذی کارروائی کی بدولت جواقدامات کئے گئے ہیں ان کودرست انداز سے چلایا جائے اورایک واضح پالیسی سامنے آئے، مگر دوسری جانب جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ سینما گھروں کے مالکان بھارتی فنکاروں کی امپورٹ قوانین کے تحت لائی جانے والی فلموں کی نمائش کوجاری رکھنے کیلئے ’’ متحد‘‘ نظرآتے ہیں۔

اس سلسلہ میں لاہور، کراچی اوراسلام آباد میں خفیہ ملاقاتیں اورمیٹنگز بھی ہورہی ہیں لیکن تاحال کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ سینما سے وابستہ حلقوں کا توایک ہی بیان ہے کہ پاکستان میں بننے والی فلموں کی تعداد انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے سینما گھروں کے کاروبار بحران میں جانے کے امکانات ہیں ۔ اس لئے امپورٹڈ فلموں کی نمائش کوجاری رکھا جائے۔

اس حوالے سے معروف فلمساز سہیل خان کی جانب کی شخصیت اورکرداربہت نمایاں ہے۔ جہاں پاکستان میں طویل عرصہ کے بعد انہوں نے بھارتی فلموں کی نمائش کا آغاز کیا تھا، وہیں آج وہ بھارتی فلموں کی نمائش پرپابندی لگوانے کی غرض سے عدالت میں جا پہنچے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان میں بالی وڈ سٹارزکی فلموں کی نمائش بالکل غیرقانونی ہے۔ ان فلموں کی وجہ سے سینما مالکان پاکستان میں بننے والی فلموں کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں، جس کولفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

ویسے بھی حکومت پاکستان کے قوانین کے مطابق ان فلموں کوپاک سرزمین پرنمائش کیلئے پیش نہیں کیا جاسکتا ، جن کی شوٹنگ بھارت میں ہوئی ہو۔ اگردیکھا جائے توآج پاکستان میں نمائش کیلئے پیش کی جانے والی 95فیصد سے زائد فلموں کی عکسبندی بھارتی سرزمین پرہوئی ہے، جو کہ قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

البتہ پاکستانی حکومت کواگر یہ بات قبول ہے کہ ہمارے ملک میں اس ملک کی فلمیں ضرورنمائش کیلئے پیش کی جائیں جوہمیں دنیا بھرمیں ہمیں دہشتگرد ثابت کرنے میں لگا ہے توپھراس کیلئے باقاعدہ قوانین میں ترمیم کی جائے ، تاکہ پاکستانی فلم میکرزاپنے ملک میں فلمیں بنانے کی بجائے سستے داموں بھارتی فلموں کوامپورٹ کریں اور’’ منافع بخش ‘‘ کاروبار کرسکیں۔

اس سلسلہ میں پاکستان فلم انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک دورتھا جب پاکستانی سینما اورفلم کی سپورٹ کیلئے امپورٹ قوانین کے تحت لائی جانے والی فلموں نے اہم کردارادا کیا لیکن اب ہمارے اپنے ملک میں بہت ہی معیاری فلمیں پروڈیوس کی جارہی ہیں، مگرانہیں نمائش کیلئے بہتروقت نہیں دیا جاتا، جوکہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں فلمسازی کے شعبے سے وابستہ لوگ شدید مالی مشکلات سے دوچارہیں۔ جس کی وجہ سینما گھروں کی اپنی فلموں میں عدم دلچسپی بتائی جاتی ہے۔

سینما مالکان کی بڑی تعداد بھارتی فلموں کے ذریعے زیادہ منافع بخش کاروبار کرنے کوترجیح دیتی ہیں لیکن دوسری جانب دیکھا جائے تو عیدالفطراور عیدالاضحی کے علاوہ سال بھرمیں پاکستانی فلموں کی نمائش کی تعداد بہت کم رہ جاتی ہے۔ ایسے میں سینما گھروںکو چلانا اوران کے اخراجات پورے کرنا منتظمین کے بس سے باہرہوجاتا ہے۔

یہ وہ لمحہ فکریہ ہے جس میں پاکستان فلم اورسینما انڈسٹری کومل کرفیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بھارت کی جانب سے پاکستان کونیچا دکھانے اورمختلف حوالوں سے پابندیوں کے بعد ان کی فلموں کی نمائش نہیں ہونی چاہئے لیکن موجودہ صورتحال میں سینما گھروں کی سپورٹ کیلئے  سوچ سمجھ کرباہمی رضامندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ سینما گھربھی آباد رہیں اورپاکستانی فلموں کو بھی سپورٹ مل سکے۔ اگرایسا نہ کیا گیا تو بحران سے نکل کرترقی کے سفرپربڑھنے والی پاکستانی فلم انڈسٹری ایک مرتبہ پھر اندھیروں میں کھوجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔