ڈاکٹر مالک بلوچ کی طرف سے مسائل کی درست نشاندہی

رضاء الرحمان  منگل 11 جون 2013
بلوچستان اسمبلی میں وہ نیشنل پارٹی، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور(ن) لیگ کے مشترکہ امیدوار تھے۔  فوٹو : فائل

بلوچستان اسمبلی میں وہ نیشنل پارٹی، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور(ن) لیگ کے مشترکہ امیدوار تھے۔ فوٹو : فائل

کوئٹہ: ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بلوچستان کے بلامقابلہ وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں وہ نیشنل پارٹی، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور(ن) لیگ کے مشترکہ امیدوار تھے۔ تاہم اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام نے بھی ان کی مخالفت نہیں کی، اس طرح سے بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طورپرانہیں وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب کرلیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے گورنر ہاؤس میں ایک پروقارتقریب میں اپنے عہدے کا حلف لیا۔گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ان سے وزارت اعلیٰ کے عہدہ کا حلف لیا۔ نواب ذوالفقار علی مگسی بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں اورصدر پاکستان آصف علی زرداری نے ان کا استعفیٰ منظورکرلیا ہے۔

بلوچستان کے نومنتخب وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران سیکرٹ فنڈ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری، یہی فنڈ کرپشن کی جڑ ہے، ہم نے کوشش کرنی ہے پہلے خودکو سنبھالیں جس کے لئے سب سے پہلے وی آئی پی کلچر کو چھوڑنا ہوگا۔ عوامی نمائندے نہیں اب ہمارے عوام وی آئی پی ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کی بازیابی، مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بند، ٹارگٹ کلنگ بند،مذہبی تعصبات کا خاتمہ، اغوا برائے تاوان اور اقلیتوں کی نقل مکانی کو روکنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان جل رہا ہے ،بلوچستان میں آگ لگی ہوئی ہے، ترقی کے لئے امن وامان کا قیام ضروری ہے، ہم لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لائیں گے اور لوگوں کو جوڑیں گے ،کوئٹہ اور بلوچستان میں وہ امن لائیں گے جو کبھی یہاں کا حصہ تھا۔ انہوں نے تمام مسلح تنظیموں کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز مذاکرات کی میز پر آئیں جب سیاسی وعسکری قیادتیں مل بیٹھ کر بات کریں گی تو کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا، اگر مجھے سمجھوتے کرنے پڑیں گے تو اس سے بہتر ہوگا کہ میں اپنے گھرچلاجاؤں، میں ایک دن رہوں یا پانچ سال عزت کے ساتھ رہوں گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ہمیں ہر چیز کو میرٹ پر دیکھناہوگا۔ احتساب کا شفاف نظام ہر قسم کی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر اپنائیں گے ۔

انہوں نے کہاکہ بہت سی چیزوں کا ازسرنوجائزہ لیناہوگا۔ جب تک ایوان میںموجود ہم65 ارکان خود نہیں بدلیں گے تب تک بلوچستان میں کچھ نہیں بدلے گا۔ ہمیں یہ عہد کرناہوگا کہ ہم کسی ڈاکٹر یا ٹیچر کی سفارش نہیں کریں گے۔ سرکاری افسران یہ عہد کریں کہ وہ مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر سول سیکرٹریٹ کے چکر نہیں لگائیں گے۔کوئی کمشنر،ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او پوسٹنگ کے لئے سیاسی دباؤ استعمال نہیں کرے گا۔ ہم نے یہ کلچربدلنا ہے، ان کا کہناتھا کہ گوادر میں زمینوں کا بٹوارہ کیاگیا، ہم ایک ایک انچ کا دفاع کریں گے اوربٹوارہ کرنے والوں کو عوام کے سامنے بے نقاب کریں گے ، جس جس نے وہاں پر زمین لی ان کو عوام کا سامناپڑے گا، ہم کسی کو بندربانٹ کی اجازت نہیں دیں گے۔

نومنتخب وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنا پہلا حکم یہ جاری کیا ہے کہ بلوچستان میں ٹرانسفر پوسٹنگ کے لئے کوئی سیاسی دباؤ برداشت نہیں کیاجائے گا اورجو افسر یا سرکاری ملازم ٹرانسفر پوسٹنگ کے لئے سیاسی دباؤ ڈالے گا اس کے خلاف حکومتی قواعدوضوابط کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ سیاسی حلقوں نے نومنتخب وزیراعلیٰ کی بلوچستان اسمبلی میں اس تقریر کو اور ان کے پہلے حکم کو خوش آئند قراردیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ اب بلوچستان میں کوئی تبدیلی آتی نظرآرہی ہے۔

دوسری جانب گورنر بلوچستان ذوالفقار علی مگسی کے استعفیٰ کی منظوری کے بعد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے محمودخان اچکزئی کے بھائی محمد خان اچکزئی کوگورنر بلوچستان کے لئے نامزد کر دیا ہے ۔ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کے بعد دوسرا اہم مسئلہ تین جماعتی اتحاد میں وزارتوں کی تقسیم کا ہے جس پر اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوپایا ہے۔ مسلم لیگ(ن) جوکہ صوبے کی سب سے اکثریتی جماعت ہے اور وزارت اعلیٰ کے لئے اس نے قربانی بھی دی ہے اس وقت14رکنی کابینہ میں9وزارتوں کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسے9وزارتیں اور5 میں3 مشیر دیئے جائیں۔

جبکہ نیشنل پارٹی اورپشتونخوا کو5وزارتیں اور2مشیردینے کی پیشکش کی ہے جبکہ نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی7وزارتوں اور2مشیروں کا مطالبہ کررہی ہے، وزارتوں کی تقسیم کا یہ معاملہ ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، توقع یہی کی جارہی ہے کہ اس حوالے سے بھی(ن) لیگ کی مرکزی قیادت کواس معاملے کوسلجھانے کیلئے مداخلت کرنا پڑے گی۔ جمعیت علماء اسلام(ف) کے مولانا عبدالواسع کو بلوچستان اسمبلی میں بطوراپوزیشن لیڈرمنتخب کرتے ہوئے ان کا نوٹیفکیشن جاری کردیاگیا ہے جبکہ اے این پی کے ایک رکن نے بھی اپوزیشن بنچ پر بیٹھنے کافیصلہ کیا ہے۔

مسلم لیگ(ن)کے پارلیمانی لیڈر نواب ثناء اللہ زہری جنہیں وزیراعظم کامعاون خصوصی مقرر کیاگیا، تاہم انہیںابھی تک محکمہ نہیں دیاگیا، وہ اس بات پر مشاورت کررہے ہیں کہ آیاوہ مرکزی عہدہ لیں یا صوبائی وزارت لیں۔ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کوئٹہ دورے کے دوران سرداراخترمینگل،جے ڈبلیو پی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبربگٹی اورن لیگ کے رہنما حاجی لشکری رئیسانی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔

لیاقت بلوچ نے اپنے اس دورے اورملاقات کے دوران بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کرنے اور مسئلہ بلوچستان کے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ مسائل کا حل بندوق یا فوجی آپریشن نہیں بلوچستان کے مسئلہ کے حل کیلئے بگٹی مہاجرین کی آبادی کاری کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ بلوچستان کا صوبائی بجٹ20جون کے بعد پیش کیاجانے کا امکان ہے جس کی تیاری زور وشور سے جاری ہے تاہم حکومتی اتحادی جماعتوں میں وزارتوں کی تقسیم کا فارمولہ طے ہونے کے بعد یہ وزارت خزانہ کس کے حصے میں آتی ہے اور صوبائی بجٹ کون پیش کرے گا اس بات کا فیصلہ بھی آئندہ چند روز میں کردیاجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔