کینگروز توقع سے زیادہ سخت جان ثابت ہوئے

عباس رضا  اتوار 14 اکتوبر 2018
دبئی ٹیسٹ پاکستان کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

دبئی ٹیسٹ پاکستان کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

ایشیا کپ پاکستان ٹیم کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا اور ہوم گراؤنڈ جیسی سازگار کنڈیشنز میں بھی گرین شرٹس بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹائٹل کی دوڑ سے باہر ہوئے۔

فارمیٹ کی تبدیلی کیساتھ نتائج بھی بدلنے کے عزم کیساتھ آسٹریلیا کیخلاف سیریز کی تیاریاں شروع ہوئیں تو شاداب خان کی عدم دستیابی ایک دھچکا ثابت ہوئی،ایشیا کپ میں گروئن انجری کا شکار ہونے والے لیگ سپنر کی فٹنس بحال نہ ہونے پر پاکستان کو بلال آصف کو ٹیسٹ کیپ دینا پڑی۔

دوسری طرف بال ٹمپرنگ کیس میں بدنامی کا داغ سجانے والے سٹیون سمتھ اور شریک جرم ڈیوڈ وارنر کے بغیر میدان میں اترنے والے کینگروز نے بھی ایرون فنچ،ٹریوس ہیڈ اور مارنس کو ڈیبیو کا موقع دیا، پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو خلاف توقع اوپنرز نے ڈبل سنچری شراکت سے بڑے سکور کی بنیاد رکھی۔

محمد حفیظ کی تھری فیگر اننگز کیساتھ امام الحق نے بھی ذمہ دارانہ 76رنز بنائے، اظہر علی اپنے تکنیکی مسائل پر قابو نہ پانے کی وجہ سے ایل بی ڈبلیو ہونے کے عادی بنتے جارہے ہیں، اس بار بھی پیٹرسڈل نے انہیں پویلین بھیجنے کے لیے اسی کمزوری سے فائدہ اٹھایا، دوسرے دن حارث سہیل کی سنچری اور اسد شفیق کے بروقت 80رنز نے پاکستان کو مضبوط پوزیشن میں لاکھڑا کیا۔

تاہم لمحہ فکریہ ہے کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستانی بیٹنگ کے اہم ستون بابر اعظم کی ٹیسٹ کرکٹ میں ناکامیوں کا سلسلہ دراز ہوگیا، سرفراز احمد کا بیٹ ون ڈے کے بعد طویل فارمیٹ میں بھی خاموش رہا،پرفارمنس نہ ہونے کا اضافی دباؤ لینے کے وجہ سے انہوں نے کیچ اور سٹمپ کے مواقع بھی چھوڑے۔

یواے ای کی سخت گرمی اور کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے کینگروز کی جانب سے زیادہ مزاحمت کی توقع نہیں کی جارہی تھی لیکن عثمان خواجہ اور ایرون فنچ نے طویل اوپننگ شراکت سے میزبان بولرز کی صلاحیتوں کا امتحان لیا، بلال آصف نے کیریئر کے اولین میچ میں ہی 6شکار کرتے ہوئے ایسا پانسہ پلٹا کہ آسٹریلوی بیٹنگ لائن 202پر ڈھیر ہوگئی، محمد عباس نے پیسرز کے لیے غیر موزوں کنڈیشنز میں بھی اپنی افادیت ثابت کرتے ہوئے 4شکار کئے۔

پاکستان نے کینگروز کو فالو آن نہ کرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے میچ میں پہلی بڑی غلطی کی،اس فیصلے کی وجہ کپتان سرفراز احمد نے بولرز کی تھکاوٹ بتائی ہے لیکن سپنرز کے لیے سازگار کنڈیشنز میں پیسرز کو تھوڑا آرام دیا جاسکتا تھا، بہر حال میزبان ٹیم نے دوسری اننگز کھیلنا شروع کی تو تیزی سے رنز بنانے کی ضرورت تھی،محمد حفیظ کارکردگی نہ دہراسکے، پہلی اننگز میں 80گیندیں کھیلنے کے باوجود دفاعی خول سے باہر آنے کے بجائے وکٹ گنوابیٹھنے والے اظہر علی بھی چلتے بنے۔

امام الحق، اسد شفیق اور حارث سہیل کی بدولت پاکستان معقول ہدف دینے میں کامیاب ہوا، چوتھے روز کا کھیل ختم ہونے سے قبل محمد عباس نے کینگروز کی 3وکٹیں بھی اڑادیں تو ہر مبصر توقع کررہا تھا کہ پاکستان شاید چائے کے وقفے سے قبل ہی فتح کا مشن مکمل کرلے گا لیکن کینگروز توقع سے زیادہ سخت جان ثابت ہوئے اور پاکستان کو یقینی فتح سے محروم رکھا، میزبان بولرز مزید 7شکار کرنے کا عزم لئے میدان میں اترے تو ابتدا میں ہی کپتان سرفراز احمد حریف پردباؤ بڑھانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

پہلی اور دوسری اننگز میں کینگروز کو پریشان کرنے والے پیسر محمد عباس کے بجائے وہاب ریاض سے بولنگ کروانے کو ترجیح دی گئی، صرف رفتار پر بھروسہ کرنے والے سینئر بولر نے لائن اور لینتھ سے عاری بولنگ کرنے کیساتھ فاضل رنز دیئے، ایک اینڈ سے باآسانی رنز بننے کی وجہ سے عثمان خواجہ اور ٹریوس ہیڈ پر بلال آصف اور یاسر شاہ بھی دباؤ برقرار نہ رکھ پائے۔

پہلی اننگز کے ہیرو نوجوان آف سپنر پانچویں روز کی پچ سے فائدہ اٹھانے کے لیے درکار مختلف تجربات نہیں کرسکے، مزید ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے سے ہی انہیں کنڈیشنز کو استعمال کرنے کا ہنر سیکھنے میں مدد ملے گی، محمد عباس نے عثمان خواجہ کو مسلسل 3گیندوں پر بیٹ کرنے کے بعد بھی خاصا پریشان کیا تو اندازہ ہوا کہ صبح کے وقت وہاب ریاض کے بجائے ان سے بولنگ کا آغاز کرایا جاتا تو شاید پاکستان جلد وکٹ حاصل کرنے کا مقصد پورا کرلیتا۔

ایک اور سنہری موقع میزبان ٹیم نے ٹریوس ہیڈ کیخلاف ریویو نہ لیکر ضائع کیا، گرچہ بعد ازاں محمد حفیظ پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے کینگروز بیٹسمین کو 72 پر ایل بی ڈبلیو کردیا لیکن اس سے قبل وہ 20اوورز مزید کھیل چکے تھے، ٹریوس ہیڈ پہلے میدان بدر ہوجاتے تو آنے والے بیٹسمینوں کی بھی میچ ڈرا کرنے کے لیے مہم کمزور پڑجاتی، یاسر شاہ نے مارنس کے بعد سنچری میکر عثمان خواجہ کو آؤٹ کرکے فتح کی امید جگائی۔

لیگ سپنر نے مچل سٹارک اور پیٹر سڈل کی رخصتی کے بعد پاکستان کو آخری 10اوورز میں صرف 2وکٹوں کی ضرورت تھی،یہاں پاکستان کی حکمت عملی ایک بار پھر کمزور نظر آئی، آسٹریلیا کے میچ جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا، میزبان ٹیم کو رنز روکنے کی نہیں وکٹیں لینے کی ضرورت تھی، جارحانہ فیلڈنگ سیٹ نہ کئے جانے کی وجہ سے ٹم پین اور ناتھن لیون آسانی سے تجربہ کار یاسر شاہ کے خطرناک وار جھیلتے رہے۔

محمد عباس کی یورس سوئنگ اور ان کٹرز بھی غیر موئثر ثابت ہوئے،یوں 4دن کی محنت پر میچ کے آخری روز پانی پھر گیا،میچ ڈرا ہونے کے بعد آسٹریلیا کو پہلی اننگز میں 202تک محدود رکھنے کے باوجود فالو آن نہ کرانے کے فیصلے کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ گزشتہ سال سری لنکا کیخلاف سیریز میں معمولی ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے بھی بازی ہار جانے کا خوف ابھی تک پاکستان ٹیم پر سوار تھا جس کی وجہ سے کینگروز کو بیٹنگ کرانے کے بجائے پاکستان نے خود ہی دوسری اننگز کھیلنے کا فیصلہ کیا،فالوآن نہ کرانے کی وجہ کپتان سرفراز احمد نے بولرز کی تھکاوٹ بتائی ہے لیکن پروفیشنل کرکٹ میں کھلاڑیوں کا ہر طرح کی صورتحال کے لیے تیار ہونا ضروری ہے۔

بہرحال پاکستان نے اپنی کئی غلطیوں کے سبب فتح سے محرومی کا صدمہ اٹھایا،دوسری جانب ناتجربہ کاری اور خدشات لئے میدان میں اترنے والے کینگروز نے دوسری اننگز میں مزاحمت کرتے ہوئے اپنے اعتماد میں بے پناہ اضافہ کرلیا ہے،سیریز کے دوسرے اور آخری ابوظبی ٹیسٹ میں پاکستان کو بہتر حکمت عملی کیساتھ میدان میں اترتے ہوئے زیادہ جان لڑانا پڑے گی،دبئی میں فیلڈنگ کرتے ہوئے زخمی ہونے والے امام الحق کی انگلی کا آپریشن ہوچکا اور وطن واپسی کے لیے تیار ہیں،ان کی جگہ فخرزمان کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

منیجمنٹ نے ایشیا کپ میں یکسر ناکام رہنے والے اوپنر کو میدان میں اتارنے کا حوصلہ نہ کیا یا بیٹنگ آرڈر تبدیل کردیا تو محمد حفیظ کیساتھ اظہر علی اننگز کا آغاز کریں گے،امام الحق کی وجہ سے دبئی ٹیسٹ میں انہیں تیسرے نمبر پر بھیجا گیا تھا،بیٹنگ آرڈر کی تبدیلی ہوئی تو بابر اعظم کو بھی اوپر بھیجا جاسکتا ہے، وہاب ریاض کی مایوس کن کارکردگی کے بعد میر حمزہ کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

ڈومیسٹک کرکٹ کے عمدہ پرفارمر محمد عباس نے ٹیسٹ میچز میں بھی سلیکٹرز کو مایوس نہیں کیا،میر حمزہ کو بھی سیر سپاٹے کروانے کے بجائے پلیئنگ الیون میں شمولیت کا موقع ملنا چاہیے۔پاکستان کو شاداب خان کی فٹنس کا جائزہ لیتے ہوئے واپسی یا بلال آصف کو برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی کرنا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔