ایک جیالے کا مکتوب

لطیف چوہدری  منگل 11 جون 2013
latifch910@yahoo.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ سر سلامت ہوں تو ٹوپیاں ہزار مل جاتی ہیں‘ جس ملک میں ہمارے جیسے بحران‘ سیاستدان اور ادارے ہوں‘ وہاں کچھ لکھنے لکھانے کے لیے موضوعات کی کمی نہیں ہوتی۔ میں بھی کسی پھڑکتے اور جلتے ہوئے موضوع کی تلاش میں تھا کہ ایک جیالا آن دھمکا۔ یہ فضل الرحمٰن بٹ ہے‘ این سی اے کا پڑھا ہوا اور پیپلز پارٹی لاہور کا نائب صدر۔ اس نے ایک مضمون نما مکتوب میری جانب بڑھایا۔ میں نے پڑھا اور پھر اسے ہی کالم کا موضوع بنا دیا۔ اس میں ایک جیالے کا دکھ اور مایوسی بھی جھلکتی اور عزم بھی۔ چلیے آپ بھی پڑھیے۔بٹ صاحب کہتے ہیں۔

’’پیپلز پارٹی نے تو مفاہمتی پالیسی اختیار کر کے جیالوں کو کھڈے لائن لگا دیا ہے، وہ جیالے جو ذوالفقار علی بھٹو شہید‘ بینظیر بھٹو شہید کو اپنا رہنما مانتے ہیں ۔ ان کے سیاسی ویژن کو تعبیر دینے کے لیے جیلوں میں گئے‘ کوڑے کھائے‘ شہادتیں پیش کیں، بیروز گاری‘ تنگدستی سہی لیکن کبھی شکوہ نہیں کیا۔گزشتہ 5 سال کے عرصے میں ’’ق لیگ‘‘ ایم کیو ایم‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام ( ف) نے جس طرح ہماری قیادت پر مفاہمت کا جادو کیا ہو‘ پی پی پی کارکنوں کے لیے حیران کن تھا۔پیپلز پارٹی کے مفاہمتی اتحادیوں نے جو وزارتیں حاصل کیں‘ ان سے جیالوں کو چن چن کر نوکریوں سے نکال گیا اور وہاں اپنے کارکنوں کو ایڈجسٹ کرایا۔

ریلوے میں غلام احمد بلور نے‘ اسٹیل ملز‘ شپنگ اینڈ پورٹس میں ایم کیو ایم‘ پرویز الٰہی نے این ایف سی‘ یوٹیلٹی اسٹورز‘ سمیڈا وغیرہ میں اور مولانا فضل الرحمٰن نے بلوچستان اور ڈی جی خان میں اپنے حامیوں کو بھرتی کرایا۔ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے اتنا کچھ حاصل کیا لیکن اس کے باوجود ان کا جو حشر ہوا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ وہی مفاہمتی جماعتیں جنہوں نے پیپلز پارٹی کا بیڑا غرق کیا، وہ آج ’’ن لیگ‘‘ کے ساتھ میل ملاقات کے لیے بے تاب ہورہی ہیں۔ ادھر حالت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت پر دن رات تبرا کرنے والے مسلم لیگ ن کے وفاقی وزرا اپنے سامنے مسائل کا انبار دیکھ کر بھیگی بلی کی مانند دبکے بیٹھے ہیں۔ بجلی کا مسئلہ ہو‘ ریلوے کی زبوں حالی ہو یا ڈوبتی ہوئی معیشت‘ سب کہتے تھے‘ یہ مسائل دنوں میں حل ہو سکتے ہیں‘ پھر بات ہفتوں اور مہینوں سے ہوتی ہوئی اب برسوں تک جا پہنچی ہے۔

خواجہ آصف صاحب کہتے ہیں: بجلی کئی سالوں کے بعد آئے گی‘ جلدی کا کوئی حل نہیں ہے۔ مزا آ گیا خواجہ آصف صاحب کی سچ بیانی کا۔ سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کیس آپ نے کیا‘ ہماری تو کوئی سنتا نہیں تھا۔ اب آپ بجلی کی لوڈشیڈنگ کم یا ختم کرنے کے لیے کوئی تو وعدہ کریں۔ کیا اقتدار ہی لینا تھا۔ پاکستان کے عوام اب مزید زیادتی برداشت نہیں کر سکتے۔

شاہد خاقان عباسی فرماتے ہیں: اگر بجلی لینی ہے تو سی این جی چھوڑ دیں۔ واہ کیا حل ہے۔ اگر اناج نہیں ہے تو گھاس کھا لو۔

خواجہ سعد رفیق جو خود کو پھنے خان سیاستدان سمجھتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ریلوے کے مسئلے کو حل کرنا آسان نہیں ہے۔ ریلوے کو ٹھیک کرنا کئی سالوں کا کام ہے۔ عرض ہے کہ ریلوے کی تباہی کے ذمے داروں کی تلاش کریں تو غلام احمد بلور ہی نہیں‘ ان کی پارٹی کے لوگ بھی سامنے سکتے ہیں۔ سردار ایاز صادق تو اسپیکر قومی اسمبلی بن گئے اور خواجہ سعد رفیق کو آگ میں پھینکا گیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ خواجہ سعد رفیق کو کامیاب کرے لیکن کام بڑا مشکل ہے۔

اسحاق ڈار کی سنیے: مہنگائی کو کنٹرول کرنا کئی سالوں کا کام ہے۔ بھائی لاہور میں مارکیٹ کمیٹیوں کے آدھے چیئرمین تو گوالمنڈی کے ہیں۔ گھی اور برائلر گوشت کے ریٹ یہی لوگ نکالتے ہیں۔ اب مہنگائی کون ختم کرے گا؟

نئے حکمران کہتے ہیں‘ہمیں پروٹوکول نہیں چاہیے۔ میری جان ابھی کل پرسوں کی بات ہے‘ وزیراعلیٰ پنجاب نے گورنر ہاؤس میں حلف اٹھانا تھا۔ مال روڈ 4گھنٹے بند رہی۔ وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کی وجہ سے اسلام آباد میں ایوان صدر کو جانے والی سڑکیں بند رہیں۔باتیں کرنی آسان ہیں لیکن عمل کرنا بہت مشکل۔ جیالوں کو تو مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے سزا مل گئی‘ وہ تو پنجاب میں کمی بن گئے ہیں۔ یہ پیپلز پارٹی کی مفاہمتی پالیسی کا اعجاز تھا کہ ہمارے وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے ن لیگ کے ایم این ایز کو بھی فنڈ دیے۔

لاہور کے ایک ایم این اے کو بھی فنڈزملے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے جیالوں کو تو نہیں پوچھا لیکن جن سے مفاہمت کی پینگیں بڑھائیں‘ وہ بھی انھیں نہیں پوچھ رہے۔میں تو کہتا ہوں کہ کوئی غریب کی خدمت نہیں کرتا۔ کسی کو جمہوریت سے پیار نہیں ہے۔ سب اپنی اولاد،اپنے اقتدار سے پیار کرتے ہیں۔ آصف زرداری اور ان کی پارٹی کی حکومت کو ناکام کرنے میں قریبی لوگوں کا اہم کردار ہے۔ رخسانہ بنگش ہوں یا فوزیہ حبیب کسی نے جیالوں کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا۔

المیہ یہ ہے کہ قوم پہلے 5 سال پیپلز پارٹی اور اس کے مفاہمتی اتحادیوں کو گالی دیتی رہی ۔ اب وہی مفاہمتی چہرے جو پی پی پی کے ساتھ تھے، اب ن لیگ کے ساتھ ہوں گے‘ اب گالی کھانے کی باری ن لیگ کی ہے۔ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔پھر الیکشن ہوں گے، ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف اقتدار میں آ جائے گی لیکن اسے بھی چند دنوں میں پتہ چل گیا کہ ڈرون حملے بند کرانے انتہائی مشکل ہیں۔ اگر ڈرون بند کرانے ہیں تو حکومت بھی چھوڑنی پڑے گی۔ حکومت کی قربانی دینا ہو گی جو نا ممکن ہے۔آج پی پی پی‘ مسلم لیگ ن‘ تحریک انصاف نے ایک دوسرے کی مخالفت چھوڑ دی ہے کیونکہ تینوں حالات کے سامنے بے بس ہیں۔ زخمی ہیں۔ ان کے پاس مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ قوم کی بدقسمتی ہے کہ انصاف بھی موجود نہیں ہے۔ پاکستانی عوام کے نصیب میں صرف دھکے ہیں۔

آج جو تھوڑی بہت بجلی مل رہی ہے تو وہ صرف شہید بینظیر بھٹو کی وجہ سے مل رہی ہے۔ وہ میری لیڈر ہی نہیں میری ماں بھی تھیں ،گو مجھ سے 2 سال چھوٹی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو میرا لیڈر تھا، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا، وہ میرے باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ میرا بچپن‘ جوانی‘ بڑھاپا پی پی پی کے ساتھ ہے۔ لیکن دکھ یہ ہے کہ جس پارٹی کو جرنیل ختم نہیں کر سکے، اپنوں نے ختم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن میرا ایمان ہے شہیدوں کی پارٹی کبھی ختم نہیں ہو گی۔ جیالوں نے تو ہر دور میں قربانی دی ہے اور قربانی دیتے رہیں گے‘‘۔

ایک جیالے کے یہ جذبات بڑے عجیب ہیں۔وہ ناراض بھی ہے، دکھی بھی ہے لیکن اندر کا جیالا ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔سیاست بھی کیا بے رحم چیز ہے۔ قیادت کچھ اور سوچتی ہے ، ورکر کچھ اور چاہتا ہے۔ بہرحال یہ ایک جیالے کے خیالات ہیں،اب وہ جانے اور اس کی پارٹی جانے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔