ڈاکٹرعبدالمالک کی پہلی تقریر

زاہدہ حنا  منگل 11 جون 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ ایک نیک فال ہے کہ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بلامقابلہ بلوچستان اسمبلی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے۔ اسپیکر جان محمد جمالی سے لے کر ہر منتخب رکن صوبائی اسمبلی نے ان کی داد و تحسین کی اور ان سے امید وابستہ کی کہ وہ بلوچستان کے گمبھیر اور پریشان کن مسائل کو نرمی سے سلجھائیں گے اور اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکل سکا تو اپنی انگلیاں ٹیڑھی کر لیں گے۔مالک صاحب نے بلوچستان اور پاکستان کے لوگوں سے نہ شاندار وعدے کیے، نہ مستقبل قریب میں اچھے دنوں کی نوید سنائی۔ اس کے برعکس انھوں نے واضح الفاظ میں یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ بلوچستان مسائل کا ہمالہ پہاڑ ہے۔

سب ہی جانتے ہیں کہ ان کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے اور ان کا خاندان خوانین اور سرداروں کے کسی قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا۔ ان کی پشت پر میروں، نوابوں اور پیروں کی طاقت نہیں۔ بلوچستان کے غریب اور مسکین لوگوں نے اپنے ووٹ کی قوت سے انھیں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کاغذ کا ایک چھوٹا سا پرزہ جو ’’ووٹ‘‘ کہلاتا ہے وہ کیسے کیسے طاقت وروں کو چت کرسکتا ہے۔ یہی جمہوریت کی جیت ہے۔ بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ پیشے کے اعتبار سے ماہر امراض چشم ہیں اور شوق انھیں افسانہ نگاری کا ہے۔ افسانہ نگاری نے انھیں انسانوں کے گہرے مشاہدے کا ہنر سکھایا ہے اور لوگوں کی بیمار آنکھوں کا معائنہ کرتے کرتے ان پر زمینی حقیقتوں کے بہت سے گوشے وا ہوئے ہیں۔

انھوںنے اپنے صوبے کے مسائل کو ہمالہ پہاڑ سے تشبیہ غلط نہیں دی۔ جس خطے کے لوگوں نے گزرے ہوئے پینسٹھ برسوں کے دوران کبھی انصاف کے چشمے سے اپنی پیاس نہ بجھائی ہو اور جن کے وسائل کی بندر بانٹ تو ہوئی لیکن انھیں کبھی ان کا حق نہ ملا ،ایک ایسے علاقے کے لوگوں کی شکایتیں کس قدر زیادہ ہوں گی اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ ہمیں بلوچوں کے صبروشکر کی داد دینی چاہیے جن کے ساتھ ہر ظلم روا رکھا گیا اس کے باوجود انھوں نے ضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ جن کے بیٹے صبح و شام گھروں سے اٹھائے گئے، برسوں لاپتا رہے اور جب ان لاپتانوجوانوں کی بازیابی کے لیے دباؤ بڑھتا گیا تو ان گمشدہ لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی رہیں۔ یہ لاشیں جو اپنے آپ پر گزرنے والے تشدد کی داستان سناتی رہیں۔

بلوچستان وہ علاقہ ہے جس کی سرحدیں ایران سے متصل ہیں اور اساطیری دور کا شاندار رزمیہ ’’شاہنامہ‘‘ لکھنے والے فردوسی کے قلم نے مکران، سیستان اور دوسرے علاقوں کی کیسی بے مثال کہانیاں لکھی ہیں۔ عبدالمالک صاحب نے جب مسائل کے کوہ گراں کو ہمالہ پہاڑ سے تشبیہ دی تو بے اختیار فردوسی کے قلم سے نکلنے والے تاباں اور درخشاں کردار رستم کی یاد آئی۔ شاہنامے کا ایک کردار کیکاؤس، ماژندران میں قید ہوا اور اس زندانی کی خبر رستم تک پہنچی تو وہ اسے آزاد کرانے کے لیے بے قرار ہوگیا۔ وہ منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا سات دنوں اور سات راتوں میں ماژندران جا پہنچا اور کیکاؤس کو آزاد کرا لایا۔ اس سفر کو ہفت خوانِ رستم کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام ماژندران میں قید ہیں اور ڈاکٹر عبدالمالک نے اس بات کا بیڑا اٹھایا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو عذابوں سے رہائی دلانے کے لیے ہفت خوانِ رستم طے کریں گے۔

قدیم داستانوں میں کہا گیا ہے کہ گوشت اگر گندا ہو تو اس پر نمک چھڑکنا چاہیے کہ وہی اس کی تمام آلاشیں صاف کردیتا ہے۔ لیکن اگر نمک خود آلودہ ہوجائے تو اس کا کیا علاج؟ بلوچستان میں نمک آلودہ ہوگیا ہے اور اس کا بہ خوبی احساس ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ہے۔ ان کی یہ بات حقیقت پر مبنی تھی کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سب کی رہنمائی سے تبدیلی آسکتی ہے۔ انھوں نے لوگوں کو یاد دلایا کہ بلوچستان کے 29 اضلاع میں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں آگ لگی ہوئی ہے۔

بھائی بھائی کو قتل کررہا ہے۔ انھوں نے نواز شریف اور عسکری قیادت سے کہا کہ وہ بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت لاپتہ افراد کا معاملہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسلح تنظیمیں ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات کریں۔ بلوچستان کے تعلیمی ادارے تباہ ہوگئے ہیں۔ بلوچستان کے مسائل کا انبار ہمارے لیے کوہ ہمالیہ سے بھی اونچا ہے۔ لاپتا افراد کی مسخ شدہ لاشوں کا ملنا، انتہا پسندی اور اغواء برائے تاوان بہت بڑے مسائل ہیں۔ الیکشن کو انھوں نے ایک آزمائش قرار دیا اور کہا کہ وہ ایک دن ، یا پانچ دن، یا پانچ سال اقتدار میں رہے تب بھی ان کا رویہ لوگوں کے ساتھ ایک جیسا رہے گا۔ اگر 65 کا ایوان درست ہوگیا تو بلوچستان کے مسائل حل ہوں گے۔ دفاع، مواصلات، کرنسی سمیت 5 محکمے وفاق کے پاس ہیں۔

ان کے علاوہ تمام معاملات کو درست کرنے کی ذمے داری ہماری ہے۔ ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے اسلام آباد میں بلوچستان کے پارلیمینٹرین کی سبکی ہو۔ بلوچستان کا سیکرٹ فنڈ بند کرنے کا اعلان کرکے انھوں نے لوگوں کو حیران کردیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کب تک صرف خوبصورت باتیں کرتے رہیں گے۔ اب ہمیں عوام کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔ ہمیں خوابوں میں نہیں رہنا،21 ویں صدی بڑی ظالم صدی ہے اس صدی میں سیاست کرتے ہوئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لین دین کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے گھروں کو چلے جائیں۔

ہم عہدکرتے ہیں کوئی بھی افسر سیاسی اثرو رسوخ سے ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں لے گا۔ اس حکومت کی سب سے بڑی ذمے داری ہے کہ اقلیتوں کو تحفظ دیا جائے۔ گوادر میں زمینوں کے بٹوارے اور بندر بانٹ کو سب کے سامنے لایا جائے اور جس نے بھی گوادر کی زمین حاصل کی ہے اس کا نام ظاہر کیا جائے۔ کسی دوسری فورس پر انحصار کرنے کے بجائے پولیس اور لیویز فورس کو جدید بنیادوں پر منظم کریں گے۔ اپنے وسائل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور وفاق سے اپنا حصہ لے کر رہیں گے۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ بلو چستان کے عوام کی کچھ امیدیں تاحال ہم سے وابستہ ہیں اگر ہم ناکا م ہوئے تو بلو چستان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ فرقہ واریت کی خاتمے میں بھی وفاق کو کردار اداکر نا ہو گا اور اس کے لیے ہمیں ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات استوار کر نا ہو نگے۔ انھوں نے اس نازک مسئلے کی طرف بھی اشارہ کیا کہ سعودی عرب اور ایران ہمارے یہاں اپنے کارندوں کے ذریعے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ عبدالمالک نے درست نشان دہی کی کہ ہمارے اکابرین میر غوث بزنجو ،خان عبدالغفار خان،خان عبدالصمد خان،سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی اور جیلیں کاٹیں، لیکن اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔

اساتذہ اور ڈاکٹر اسپتالوں اور اسکولوں میں حاضریاں دیں ورنہ ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی ہمارے تعلیمی ادارے اور صحت کا شعبہ مکمل طو رپر تباہ ہو چکا ہے۔ بلو چستان میں ترقی کے لیے امن کی ضرورت ہے انھوں نے کہا کہ وہ ان تمام علما سے رابطے کریں گے جو لوگوں کو ایک دوسرے کو قریب کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بلو چستان میں سب سے بڑا مسئلہ امن وامان کا ہے اور جب تک امن وامان قائم نہیں ہوگا اس وقت تک ترقی ناممکن ہے۔ دبئی میں ترقی اس لیے ہو ئی کہ وہاں جرائم کی شرح صفر ہے۔ اپنی پہلی تقریر میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ بلو چستان کی قومی شاہراہوں کو محفوظ بنانا ہو گا تاکہ عوام باآسانی سفر کرسکیں۔ عوام صرف امن چاہتے ہیں، خیبر پختونخوامیں باچا خان کے پیر وکاروں نے امن لانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ امن نہ لاسکے اور شاید انھیں انتخابات میں شکست بھی امن وامان کی صورتحال بہتر نہ ہو نے کی بناء پر ہو ئی۔ انھوں یہ بات بھی تسلیم کی کہ بلو چستان میںکرپشن ایک ناسور بن چکا ہے اورہمیں کرپشن کو ہر قیمت پر ختم کرنا ہوگا۔ مادری زبان میں تعلیم اور یکساں نظام تعلیم پر بھی انھوںنے اصرار کیا۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے اپنے عہد ے کا حلف اٹھانے کے بعد بہت اچھی باتیں کیں لیکن ایسی باتیں تو سب ہی کرتے ہیں۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان سے توقعات بھی زیادہ ہیں اور یہ سمجھا جارہا ہے کہ وہ صرف وعدے نہیں کریں گے، کام بھی کریں گے۔ نوجوانی سے ہی وہ طلبا سیاست سے وابستہ رہے ہیں۔ جیل انھوں نے کاٹی اور یہ دیکھا کہ ان کے ارد گرد بسنے والوں پر کیا ستم توڑے جارہے ہیں، ایسے میں اگر ان سے یہ توقع کی جائے کہ وہ اپنے لوگوں کو ناقابل یقین مسائل سے نجات دلانے کے لیے رستم کے اساطیری کردار پر پورے اتریں گے اور ہفت خوانِ رستم طے کرکے رہیں گے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اس موقعے پر براہوی کے معروف شاعر افضل مراد کا ایک شعر ڈاکٹر عبدالمالک کی نذر ہے۔

جاننے کا وقت ہے، پہچاننے کا وقت ہے
سرزمینِ عشق کو سنبھالنے کا وقت ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔