میں یونہی تو حضرت کا عقیدت مند نہیں

وسعت اللہ خان  منگل 11 جون 2013

حضرت کا خیال تھا کہ مشرف جمہوریت جیسی کیسی بھی ہو مکمل آمریت سے پھر بھی بہتر ہے اور ایک نا ایک دن اسی درخت سے مکمل جمہوریت کی شاخ بھی پھوٹے گی۔چنانچہ انھوں نے مستقبل کی خاطر کڑوی گولی نگلتے ہوئے پرویز مشرف کی سترویں آئینی ترمیم کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا۔حاسدوں نے بعد ازاں یہ تک الزام لگایا کہ حضرت اینڈ برادرز کے نام پر دو ہزار چھ میں ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکڑوں ایکڑ سرکاری زمین الاٹ کرکے مشرف حکومت نے حضرت کے سخت اصولی موقف میں نرمی پیدا کی۔تاہم ہمارے نزدیک یہ الزام بھی اتنا ہی لغو ہے جتنا کہ وہ الزام کہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں کروڑوں روپے مالیت کے ایندھنی پرمٹ حضرت کے قدموں میں ڈال دیے گئے۔

تاہم ایسی گھٹیا الزام تراشی بھی حضرت کے پایہ استقلال کو نہیں ہلا سکی۔مگر دو ہزار سات ایک ایسا سال تھا جب چیف جسٹس کی برطرفی کے بعد مشرف حکومت کی اخلاقی حیثیت سوالیہ نشان بن چکی تھی اور لال مسجد کا خونی واقعہ بھی ہوچکا تھا۔پھر بھی حضرت نے محض اور محض مکمل جمہوریت کی منزل حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات بالائے طاق رکھ کے پرویز مشرف کو ایک بار پھر پانچ برس کے لیے صدر منتخب کرانے کی خاطر ایم ایم اے کی اکثریت والی سرحد اسمبلی کو اس لمحے تک نہیں تڑایا جب تک اسمبلی نے مشرف کی صدارت کے لیے ووٹ ڈالنے کی کارروائی مکمل نا کرلی۔یہی نہیں بلکہ بعد ازاں حضرت نے دیگر حلیف جماعتوں کو بھی وقت کی نزاکت سمجھانے کی کوشش کی کہ مشرف کے تحت ہونے والے دو ہزار آٹھ کے انتخابات کا بائیکاٹ نفاذ شریعت کی تحریک کو آگے بڑھانے کے بجائے اور پیچھے لے جائے گا۔تاہم جماعتِ اسلامی جیسی حلیف اتنی زیرک ثابت نا ہوئی اور اس نے ایم ایم اے کو ہی خیرباد کہہ ڈالا۔

حضرت کے لیے ایک بار پھر بڑی آزمائش تھی کہ اپنے مشن کو آگے بڑھائیں کہ اپنی ساتھی جماعتوں کے نخرے برداشت کریں چنانچہ انھوں نے بدستور ایم ایم اے کے نام کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا اور تمام تر رکاوٹوں اور حوصلہ شکنی کے باوجود اپنی جماعت کو چھ سیٹیں جتوانے میں کامیاب ہوگئے۔بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ مولانا کا تجزیہ درست تھا۔کیونکہ پرویز مشرف کو بلاخر با حسرت جانا پڑا اور آصف علی زرداری کی شکل میں جمہوریت بہترین انتقام ہے والا دور شروع ہوا۔حضرت تو نئی حکومت میں شامل ہوئے بغیر ہی حمایت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔لیکن جب زرداری صاحب نے بہت ہی ضد کی تو حضرت نے خود فیصلہ کرنے کے بجائے حکومت میں شمولیت کا فیصلہ جمعیت کی مجلسِ شوریٰ پر چھوڑ دیا۔اور جب شوریٰ نے شمولیت کے حق میں فیصلہ دے دیا تو جمعیت کے امیر ہونے کے ناتے انھیں اس فیصلے کا پابند ہونا پڑا۔پھر بھی زرداری صاحب نے انھیں محض قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ پر ہی ٹرخانے کی کوشش کی اور اپنے تئیں چیئرمین کا عہدہ وفاقی وزیر کے مساوی کرکے گویا حاتم طائی کی قبر پر لات ماردی۔جب کہ حضرت کی محض یہ خواہش تھی کہ ملک کا قبلہ درست کرنے کے لیے انھیں نا سہی تو ان کے کسی ساتھی کو ہی وزارتِ مذہبی امور مل جائے۔لیکن زرداری صاحب نے اس کا مطلب شاید یہ لیا کہ حضرت مزید عہدے چاہتے ہیں۔چنانچہ ان کے ایک معتمد مولانا محمد خان شیرانی کو بے اختیار اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی اور حضرت کے برادرِ خورد مولانا عطا الرحمان کو وزارتِ سیاحت جیسی ناکارہ چیز تھما دی گئی۔چنانچہ کچھ عرصے بعد ہی حضرت کا پیمانہِ صبر لبریز ہوگیا اور وہ حکومت سے باہر نکل آئے۔البتہ اسلامی نظریاتی کونسل چونکہ آئینی ادارہ ہے لہذا مولانا شیرانی کی حیثیت اور مدتِ عہدہ برقرار رہی اور قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی چونکہ حکومت نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے دی تھی لہذا حکومت سے باہر نکلنے کے فیصلے کا اس پر بھی اطلاق نہیں ہو سکتا تھا۔

وقتی طور پر حضرت اگرچہ ایک بار پھر اقتداری عمل سے بیزار سے ہوگئے مگر اس بیزاری کا ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا کہ جمعیت کی تنظیم کو حضرت کی پوری توجہ میسر آ گئی اور انھوں نے ملک کے طول و عرض میں ایک بار پھر نفاذ شریعت کے پروگرام میں جان ڈالنے اور دھشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا اصل چہرہ دکھانے اور ڈرون گردی پر نفرین بھیجنے کے لیے اپنی خداداد خطابی صلاحیتوں کا جادو جگایا اور اونگھتی ہوئی قوم کو بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

حضرت کی پرخلوص محنت رنگ لائی اور لوگوں نے جس والہانہ انداز میں حضرت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اس سے حوصلہ پا کر انھوں نے انتخابات سے لگ بھگ ایک ماہ قبل ہی یعنی اپریل کے وسط میں لاہور میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے پیش گوئی کی کہ ضروری نہیں کہ اگلی حکومت میں بناؤں مگر میرے بغیر حکومت بن نہیں سکتی۔اور اگر بن بھی گئی تو جمعیت کی حمایت کے بغیر چلے گی نہیں۔آنے والے دنوں میں حضرت نے نئے نئے جوشیلے عمران خان کی ڈرون دشمنی کا پردہ چاک کرتے ہوئے یہ بھانڈا بھی پھوڑ دیا کہ عمران خان کو مالی طور پر دراصل یہودی لابی سپورٹ کررہی ہے۔عمران خان کو چاہیے تھا کہ اگر انھیں حضرت کی یہ بات بری لگی بھی تو کم ازکم اسی محاورے کو یاد کرلیتے کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔لیکن انھوں نے الٹا حضرت پر جھوٹا اور منافق ہونے کا الزام دھر دیا۔

ہمارا خیال ہے کہ میڈیا نے بھی اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان کے بارے میں حضرت کے انکشاف کو دبا دیا۔ بصورتِ دیگر خیبر پختون خواہ کے نوجوانوں کو اگر اس کی بروقت خبر ہو جاتی تو تحریکِ انصاف کی وہاں ضمانتیں ضبط ہوجاتیں۔پھر بھی حضرت کو قومی اسمبلی کی پندرہ اور خیبر پختون خواہ اسمبلی کی تیرہ اور بلوچستان اسمبلی کی چھ نشستوں کی شکل میں زبردست فتح ملی۔اگر مسلم لیگ نواز حضرت کی تجویز پر بروقت کان دھر لیتی تو آج خیبر پختون خواہ میں ایم ایم اے حکومت کی طرح فیوض و برکات کا نیا دور شروع ہوسکتا تھا۔مسلم لیگ نواز کی عدم دلچسپی کے باوجود حضرت نے جمہوری اتمامِ حجت کے لیے برادرِ خورد مولانا لطف الرحمان کو خیبر پختون خواہ کی وزارتِ اعلی کے امیدوار کے طور پر کھڑا کردیا۔

اس کے باوجود حضرت کو کوئی کیسے نظر انداز کرسکتا ہے۔مسلم لیگ نواز بھلے وفاق کی سب سے بڑی جماعت ہو لیکن طالبان سے اگر امن مذاکرات کا قفل کھولنا ہے تو حضرت کی چابی استعمال تو کرنا ہی پڑے گی۔ جو لوگ حضرت پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انھیں اپنی ذات سے آگے کچھ نہیں سوجھتا،اب وہ کیا کہیں گے جب حضرت نے صرف اور صرف ملک اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد اور نفاذِ شریعت کی آس میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے اسپیکر کے انتخاب اور وزارتِ عظمیٰ کے لیے نواز شریف کی نا صرف غیر مشروط حمایت کی بلکہ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر خود کو حزبِ اختلاف کی بنچوں سے اٹھا کر یکطرفہ طور پر حزبِ اقتدار کی بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا۔

محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ

اب اور کیا ثبوت چاہیے حضرت کی بے لوث جمہوریت نوازی اور قلندری کا۔۔۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )
(کالم کادوسرا اور آخری حصہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔