استنبول میں کیا ہو رہا ہے؟

صابر کربلائی  منگل 11 جون 2013

31 مئی کو کچھ لوگوں کا ہجوم ترکی کے شہر استنبول میں موجود ’’Gezi Park‘‘ میں جمع ہوا، یہ تمام کے تمام وہ لوگ تھے کہ جن کا کسی تنظیم یا ادارے کسی قسم کا تعلق نہیں تھا، انھی لوگوں کے ہجوم میں کئی طالب علم بھی شامل تھے، ان کے جمع ہونے کا مقصد بہت ہی سیدھا اور آسان تھا، یعنی ان کا مقصد یہ تھا کہ آنے والے چند دنوں میں اس پارک کی جگہ پر حکومت کی جانب سے تعمیر کیے جانے والی بڑی عمارات کو روکنا اور اس پارک کا تحفظ کرنا۔

حالانکہ استنبول میں کئی ایک مشہور شاپنگ سینٹر اور پلازہ موجود ہیں لیکن حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس پارک کو ختم کر کے اس کی جگہ پر ایک بڑا شاپنگ پلازہ تعمیر کیا جائے اور یہی وہ وجہ ہے کہ جس کو روکنے کے لیے لوگوں کا ہجوم اس پارک کو بچانے اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف جمع ہو گیا اور حکومت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب حکومتی مشینری نے پارک میں موجود درختوں کو کاٹنا شروع کیا۔ یہ ماجرا دیکھتے ہی لوگوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنے بچوں اور گھریلو ضروری سامان اور کتابوں کے ساتھ پارک کی طرف نکل کھڑے ہوئے اور درختوں کے نیچے عارضی خیمے لگا کر بیٹھ گئے تا کہ درختوں کو کاٹے جانے سے بچایا جا سکے اور پارک کو ختم کرنے کے حکومتی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بنا جائے۔ شہریوں نے اپنے خیمے درختوں کے نیچے لگا کر رات یہاں بسر کی۔

اگلی صبح حکومت کے بلڈوزر آئے اور انھوں نے سیکڑوں سال پرانے درختوں کو کاٹنے اور گرانے کی کوشش کی تو انھی شہریوں نے اٹھ کر حکومتی مشینری کے آپریشن میں مزاحمت کی اور درختوں کی کٹائی کو روک دیا۔ ان احتجاجی شہریوں نے صرف اور صرف یہ کیا کہ وہ سب حکومتی مشینری کے سامنے کھڑے ہو گئے اور اعلان کیا کہ اگر درختوں کو کاٹنا چاہتے ہو تو پھر پہلے ہمارے جسموں کو روندنا ہو گا۔ حیرت کی بات تھی کہ اس موقعے پر کوئی اخباری نمایندہ، کوئی ٹی وی رپورٹر موجود نہ تھا جو ان تمام حالات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرتا۔ اس موقعے پر میڈیا کی طرف سے مکمل بلیک آئوٹ کیا گیا تھا۔ لیکن پولیس اس مقام پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے ساتھ پہنچ گئی اور پارک کی حفاظت کے لیے موجود شہریوں پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے گولوں کا استعمال کیا گیا تا کہ تمام احتجاجی مظاہرین پارک سے باہر نکل جائیں۔

پولیس کی جانب سے ہونے والے تشدد کے نتیجے میں شام کو مظاہرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی تاہم استنبول کی لوکل حکومت نے پارک کی جانب آنے والے تمام راستوں کو بھاری رکاوٹوں کی مدد سے بند کرنا شروع کر دیا، شہر میں چلنے والی میٹرو کو بند کر دیا گیا، فیری کو بھی بند کر دیا گیا جب کہ تمام سڑکوں کو بلاک کر دیا گیا۔ لیکن حکومتی تمام کوششوں کے باوجود لوگوں کے جھنڈ کے جھنڈ پیدل مارچ کرتے ہوئے Gezi Park کے قریب تقسیم اسکوائر پر پہنچنا شروع ہو گئے۔ وہ سب لوگ پورے استنبول میں سے پارک کی طرف پہنچ رہے تھے۔ پارک پہنچنے والے لوگوں میں ہر طرح کے نظریات، مذاہب اور ہر مختلف قسم کے بیک گرائونڈ رکھنے والے لوگ تھے۔

وہ سب اس لیے جمع ہوئے تھے کہ پارک کو ختم کرنے کے منصوبے کے خلاف مزاحمت کریں اور ترک حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاج کریں۔ پولیس نے ان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا اور آنسو گیس سمیت ربڑ کی گولیوں کا استعمال بھی کیا جس کے نتیجے میں متعدد شہری زخمی ہوئے۔ اسی دوران پولیس کے تشدد کے نتیجے میں دو نوجوان شہید بھی ہوئے جب کہ ایک نوجوان لڑکی کے سر میں پولیس کی جانب سے پھینکا جانے والا آنسو گیس کا شیل لگا جس کے باعث وہ شدید زخمی ہو گئی۔ پولیس ہجوم پر سیدھے فائر کر رہی تھی، پولیس کے شیل لگنے سے شدید زخمی ہونے والی نوجوان لڑکی تین گھنٹوں تک ایمرجنسی وارڈ میں رہنے کے بعد انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دی گئی۔

اس مظاہرے میں شریک لوگوں کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں تھا۔ پورا ترکی حکومت کی جانب سے کارپوریشن کو فروخت کیا جا چکا ہے، صرف اس لیے کہ یہاں شاپنگ مال تعمیر کیے جائیں، عیش و عشرت کدہ بنائے جائیں اور اسی طرح کے کئی ایک ایسے منصوبے جو عوام کی خواہشوں کے برخلاف ہیں۔ اسی طرح ترکی حکومت نے اپنے ملک کی عوام کی امنگوں اور خواہشات کے بر خلاف شام پر حملے اور وہاں دہشت گردوں کی حمایت اور مدد کی جس کے باعث ترکی عوام میں شدید بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر تو یہ ہے کہ حکومت لوگوں کی ذاتی زندگیوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ اس حکومت نے کئی ایک ایسے قوانین بنائے ہیں جو عوام پسند نہیں کرتے، مثال کے طور پر شراب کی کھلی خرید و فروخت، اسقاط حمل، Cesarean birth اور اسی طرح کے کئی ایک غیر اخلاقی قوانین منظور کیے جا چکے ہیں۔

عوام جو Gamy Park کی طرف مارچ کر  رہے ہیں اور احتجاجی مظاہروں میں شامل ہیں، ان کے مطالبات میں آزادانہ زندگی جس میں کسی بھی شہری کی ذاتی زندگی میں حکومتی عمل دخل نہ ہو، انصاف کی فراہمی، ناموس کا تحفظ شامل ہیں۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جس شہر میں وہ رہتے ہیں وہاں پر ہونے والے فیصلوں میں ان کی رائے بھی شامل کی جائے نہ کہ حکومت اپنی من مانی کرتی پھرے۔ البتہ ان مطالبات کے بدلے میں ان کو حکومت کی جانب سے گولیاں اور آنسو گیس کے شیل ملے ہیں، جس کے نتیجے میں اب تک تین افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

مگر وہ اب بھی مارچ اور احتجاج کر رہے ہیں، سیکڑوں بلکہ ہزاروں افراد ان کے احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں، کئی کوسوں میل کا سفر پیدل طے کر کے ہزاروں لوگ تقسیم اسکوائر پر پہنچ رہے ہیں تا کہ یہاں پر احتجاج کرنے والے اور جائز مطالبات کی منظوری کے لیے جدوجہد کرنے والے پر امن مظاہرین کی مدد کریں۔ یہاں ترکی کا مقامی کوئی اخباری نمایندہ نہیں پہنچا ہے اور نہ ہی کوئی ٹی وی چینل پہنچا ہے کیونکہ وہ سب تو ’’مس ترکی‘‘ کی کوریج کر رہے ہیں یا پھر اپنے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ’’کیٹ واک‘‘ کی خبروں سے دل بہلانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف پولیس ان پرامن احتجاجی مظاہرین پر کالی مرچوں کا اسپرے کر رہی ہے اور زہریلی گیس کا استعمال کرکے ان کو بھگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تقسیم اسکوائر کے گرد و اطراف میں موجود اسکولوں، فائیو اسٹار ہوٹلوں اور اسپتالوں کے دروازے زخمی مظاہرین کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر ہوٹل کے کمروں اور اسکول کے کلاس رومز میں زخمی ہونے والے مظاہرین کو ابتدائی طبی امداد دینے میں مصروف عمل ہیں، کچھ پولیس افسران ایسے بھی ہیں کہ جنھوں نے معصوم اور نہتے پرامن احتجاجی مظاہرین پر اسپرے اور آنسو گیس کے گولے پھینکنے سے انکار کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں ان کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے۔ تقسیم اسکوائر کے گرد و نواح میں جامرز لگا دیے گئے ہیں تا کہ موبائل سروس سمیت انٹرنیٹ سہولت بھی کام نہ کرے۔ علاقے میں موجود رہائشی آبادی اور تاجروں نے مظاہرین کو فری وائرلیس سروس فراہم کر رکھی ہے۔ دوسری جانب ہوٹلوں سے مظاہرین کے لیے مفت غذا کی فراہمی کی جا رہی ہے۔ ترکی کے دارالحکومت انقرہ اور ازمیر میں بھی احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ افسوس کہ ترکی کا میڈیا بلیک آئوٹ ہے اور مس ترکی اور کیٹ واک کی خبریں شایع کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔