ذرا غور فرمائیے

مقتدا منصور  پير 15 اکتوبر 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بچپن سے محمد رفیع مرحوم اورسمن کلیان پور کی آواز میں ایک دوگانا سنتے آرہے ہیں، جس کے بول ہیں، ’’نہ نہ کرتے پیار تمہی سے کر بیٹھے، کرنا تھا انکار، مگر اقرار تمہی سے کر بیٹھے‘‘۔ جب بھی گیت بجتا ہے، اس کی شاعری، گائیکی اور موسیقی دل موہ لیتی ہے۔ مگر حال ہی میں اندازہ ہوا کہ اس گیت کی سیاسی تفہیم بھی ہے۔ یعنی جب ہمارے سیاسی رہنما اور اکابرین کوئی بہت ہی بلند آہنگ دعویٰ کرنے کے بعد U-turn لے لیں، تو یہ گیت ان پر صادق آتا ہے۔

صاحب اقتدار جماعت جس کے سربراہ سے چھوٹے بڑے رہنماؤں تک ہر ایک تسلسل کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ IMF سمیت کسی عالمی مالیاتی ادارے کے آگے جھولی پھیلانے کے بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دیں گے۔ مگر جب مختلف تاویلوں کے ساتھ یہ فیصلہ سامنے آیا کہ IMF کے پاس جانا پڑے گا، تو یہ گیت شدت سے یاد آنے لگا۔ گویا تمام دعوے یعنی ’’نہ نہ‘‘ دھری کی دھری رہ گئی۔

وطن عزیز میں حکمران اشرافیہ خواہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی ملک کو درپیش معاملات و مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لینے اور واضح حکمت عملی طے کرنے کے بجائے محض بیان بازیوں (Rhetoric) کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنانے پر تلی رہتی ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر جن کے بارے میں ان کے مخالفین کا بھی یہ خیال رہا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ معاملہ فہم اور مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ 2014ء میں دھرنے کے دوران ہی حکومت ملنے کی صورت میں انھیں وزیر خزانہ بنائے جانے کا اعلان بھی ہو گیا تھا۔ اس لیے امید یہ تھی کہ انھوں نے انھی دنوں سے اپنی پوری توجہ معاشی صورتحال کے عمیق مطالعہ پر مرتکز کرلی ہوگی۔ مگر ان کے حالیہ اقدامات اور بیانات نے ان کی شخصیت اور آگہی کے بارے میں قائم سحر کو زمیں بوس کردیا۔

یہ المیہ صرف اسد عمر یا تحریک انصاف ہی کا نہیں ہے، بلکہ وطن عزیز میں کسی بھی سیاسی جماعت نے اندرونی تھنک ٹینک اور شیڈو کیبنٹ قائم کرنے پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ عمل نہیں کیا۔ اس کی وجہ شاید 1977ء کے بعد سیاست میں پیدا ہونے والی غیریقینی صورتحال بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ کے کسی بھی دور میں سیاست میں مشاورت کا کوئی واضح تصور نظر نہیں آتا۔ بلکہ پارٹی سربراہ کے احکامات ہی کو حتمی تصور کیے جانے کا کلچر روز اول ہی سے موجود رہا ہے، جو سیاست اور انتظامی ڈھانچہ پر فیوڈل ذہنیت کی مضبوط گرفت کو ظاہر کرتا ہے۔

اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا، تو اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پہلے سے ٹھوس بنیادوں پر پلاننگ کی جانی چاہیے تھی، تاکہ جیسے ہی اقتدار ملے ان اہداف پر عمل درآمد ہوسکے جن کا قوم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ریاستی انتظامی ڈھانچہ کے مختلف اداروں اور شعبہ جات کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے پارٹی رہنماؤں اور ہم خیال غیر سیاسی ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک بناکر ان کی رپورٹس کی روشنی میں الیکشن سے بہت پہلے ہی منصوبہ بندی ہوجانی چاہیے تھی۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب تک سوائے ایڈہاک فیصلوں کے کوئی ایسا قدم سامنے نہیں آرہا، جسے مثبت عوام دوست تبدیلی کا نام دیا جاسکے۔ خاص طور پر معاشی معاملات جو بہت نازک موڑ پر آچکے ہیں، ان کے لیے کوئی بنیادی ہوم ورک سامنے نہیں آسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت جس تیزی کے ساتھ تباہی کی راہ پر گامزن ہوئی، وہ آنے والے دنوں کا انتہائی خطرناک منظرنامہ پیش کررہی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت، ادارہ یا کسی Organization کو چلانے کے لیے چار خصوصیات درکار ہوتی ہیں، یعنی قابلیت (Qualification)، اہلیت (Ability)، صلاحیت (Capability) اور استعداد (Capacity)۔ اگر کسی ادارے کے ذمے داروں اور اہلکاروں میں یہ چاروں خصوصیات موجود ہوں، تو وہ ادارہ قابل رشک ترقی کرتا ہے، جب کہ ان خصوصیات بالخصوص استعداد کا فقدان یا کمی ادارے یا حکومت کی تباہی کا باعث ہوتی ہے۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ تحریک انصاف اپنی کارکردگی میں ان تمام جماعتوں سے بہت پیچھے کھڑی نظر آرہی ہے، جن کی وہ بدترین ناقد رہی ہے۔

اس سلسلے میں ابتدائی دور کی پیپلزپارٹی کو نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ جس نے نومبر 1967ء میں اپنے قیام کے وقت جن اہداف کا وعدہ کیا تھا، ان کے حصول کے لیے پہلے روز ہی سے کمیٹیاں بناکر ان پر عمل درآمد کی حکمت عملیاں تیار کرنا شروع کردی تھیں۔ یہی سبب تھا کہ 20 دسمبر 1971ء کو اقتدار میں آنے کے فوراً بعد اس نے ان تمام اہداف کے حصول کا ٹائم ٹیبل تشکیل دے کرعمل شروع کردیا۔ مثال کے طور پر فروری 1972ء کے اوائل میں تعلیمی اداروں کو قومیانے کی پالیسی کا اعلان کیا اور یکم اکتوبر سے تعلیمی ادارے سرکاری تحویل میں لے لیے گئے۔ اسی طرح صنعتوں کا قومیایا جانا اور لیبر پالیسی سمیت دیگر پالیسیوں کا اعلان جنوری سے مارچ تک کردیا گیا اور دسمبر تک ان میں سے بیشتر پر عمل درآمد بھی شروع ہوگیا۔ کسی پالیسی کی کامیابی اور ناکامی اور عملدرآمد میں پائے جانے والے اسقام ایک الگ معاملہ ہوتے ہیں۔ ان کو جانچنے اور سمجھنے کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔

تحریک انصاف پر جو بنیادی اور جائز تنقید بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ اول تو اس نے کسی بھی ایشو کے حوالے سے کوئی ٹھوس پالیسی تیار نہیں کی، دوسرے جو پالیسی بیان دیا، اس پر عمل درآمد کی حکمت عملی اور نفاذ کے لیے میکنزم بنانے پر توجہ نہیں دی۔ نتیجتاً اس کے تمام بلند آہنگ دعوے زمیں بوس ہوتے نظر آرہے ہیں، جب کہ کچھ ہو بھی چکے ہیں۔ اسے اقتدار میں آئے 60 دن سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، لیکن کسی ایک سمت میں بھی کوئی واضح پیشرفت نظر نہیں آ رہی۔ بلکہ چہار سو کنفیوژن اور وہی اقدامات ہوتے نظر آرہے ہیں، جنھیں اس جماعت کی قیادت ماضی قریب میں شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔

ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ جب کوئی جماعت خود کو دیگر جماعتوں سے مختلف پیش کرتی ہے تو اسے ثابت بھی کرنا ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے مختلف ہے۔ مگر تحریک انصاف 2011ء سے انھی سیاستدانوں پر انحصار کیے ہوئے ہے، جو Status quo کی پیداوار ہونے کی وجہ سے تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

یہ بات تحریک انصاف کی قیادت کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ کسی قسم کی چھوٹی یا بڑی تبدیلی مراعات یافتہ طبقہ یا Electables کے ذریعہ ممکن نہیں ہوتی۔ دوئم، تبدیلی اور انقلاب کی دعویدار ہر جماعت کو سیاست کے میدان میں اترنے سے قبل پیپلز پارٹی کے عروج و زوال کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے، جس نے اپنے ابتدائی نظریات سے ہٹتے ہوئے جب Electables پر اعتماد شروع کیا تو اس کا ووٹ بینک سکڑ کر دیہی سندھ تک محدود رہ گیا۔

یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس جماعت کو جنرل ضیاالحق کی گیارہ سالہ سخت گیر اور پارٹی مخالف آمریت ختم نہ کرسکی، وہ صرف اس لیے گہنا گئی، کیونکہ اس نے اپنا سیاسی قبلہ غلط انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن یہ توقع کی جارہی ہے کہ پارٹی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لینے کے بعد خود کو دوبارہ اسی ٹریک پر واپس لے آئے گی جس کا تعین اس کے بانیان نے کیا تھا۔ مگر تحریک انصاف میں ہمیں ایسا کوئی فکری رجحان نظر نہیں آرہا۔ اس لیے اس سے قبل کہ ملک کسی نئی ابتلا میں مبتلا ہو، تحریک انصاف اپنی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔