ایک اور بڑی گرفتاری

ظہیر اختر بیدری  پير 15 اکتوبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

71 سال تک بغیر کسی روک ٹوک کے ملک میں لوٹ مار کا جو بازار گرم کر رکھا، تو وہ ہمارے سیاستدانوں نے خاص طور پر 2008ء کے بعد سے قومی دولت کی جو لوٹ مار جاری رکھی اس کا منطقی نتیجہ یہ تھا کسی نہ کسی کو تو اس لوٹ مار کے خلاف قدم اٹھانا تھا، سو ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اس حوالے سے کارروائی شروع کی اور نیب نے بھی اس حوالے سے اقدامات شروع کیے، اس حوالے سے تازہ گرفتاری پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی ہے، شہباز شریف کو صاف پانی اسکینڈل کی تحقیق کے حوالے سے نیب آفس طلب کیا گیا تھا، لیکن ان کی گرفتاری آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کے حوالے سے ہوئی۔

ابھی کچھ دن پہلے مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے یہ کہہ کر پورے ملک میں ہلچل مچا دی تھی کہ (ن) لیگ کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر ہو گئے ہیں اور آیندہ دو ماہ میں پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت برسر اقتدار آجائے گی۔

اس انکشاف نے نہ صرف سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے اس انکشاف کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس بیان کو لغو اور من گھڑت قرار دیا گیا۔ خود مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس جھوٹ کی تردید اور مذمت کی گئی۔ شہباز شریف کو نواز شریف کی گرفتاری اور سزا کے بعد مسلم لیگ (ن) کا صدر اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا سربراہ بھی بنا دیا گیا تھا، جس کے بعد شہباز شریف کا لہجہ بڑا سخت ہو گیا تھا اور حکومت پر بمباری جاری تھی۔

لٹیری اشرافیہ نے یہ طے کر رکھا تھا کہ اپنے مخصوص ٹولے کے علاوہ کسی کو اقتدار کے قریب نہ آنے دیا جائے اور عوام کو غلام بنا کر رکھ دیا تھا، پچھلے دس سال سے باری باری کی سیاست کو اس طرح مستحکم کیا گیا تھا کہ کسی مڈل کلاس کی پارٹی انتخابات جیت ہی نہیں سکتی تھی، قوم کے لوٹے ہوئے اربوں روپے انتخابات جیتنے میں لگا دیے جاتے تھے، اس اشرافیائی گٹھ جوڑ سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آیندہ 71 سال بھی عوام کو اشرافیہ کی غلامی ہی میں گزارنے پڑیں گے۔ اپنی اپنی پارٹیوں کے سینئر ترین لوگوں کو سیاست کی الف ب سے ناواقف شہزادوں اور شہزادیوں کا غلام بناکر رکھ دیا گیا تھا، اقتدار پر ان جمہوری بادشاہوں کی گرفت اس قدر مضبوط تھی اور یہ جمہوری بادشاہ اربوں کے مالک تھے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ پارٹی کے سینئر لوگ شہزادوں اور شہزادیوں کے غلام بنے ہوئے تھے۔

اس مایوس کن صورتحال میں ایک سر پھرا شخص عمران خان ان شاہوں کے خلاف آواز اٹھاتا رہا۔ ملک کے 21 کروڑ عوام اس شاہی جمہوریت اور اس کے مظالم سے اس قدر تنگ تھے کہ جب عمران خان نے عوامی رابطہ مہم چلائی تو عمران خان کے جلسوں میں لاکھوں لوگ امڈ آئے، عمران خان ملک کے بے آسرا عوام کا آسرا بن گیا، خاص طور پر ملک کا نوجوان طبقہ عمران خان کا دست و بازو بن گیا۔

سیاسی مخالفین خواہ کتنے ہی زبان دراز ہوں، ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں قانون کے دائرے کے اندر ہونی چاہئیں، حکومت یا کسی حکومتی ادارے کی جانب سے کی جانے والی کسی کارروائی سے انتقام کا شائبہ نہ ہو اور کسی اپوزیشن رہنما کی گرفتاری کے لیے معقول جواز موجود ہونا چاہیے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو احتسابی عدالت سے 10 سال قید کی سزا دی گئی، سابق حکومت چونکہ کرپشن کے حوالے سے بہت بدنام ہو گئی تھی سو عوام نے نواز شریف کی سزا کو منصفانہ سمجھتے ہوئے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا لیکن عوام اس وقت حیران ہو گئے جب ہائیکورٹ نے نواز شریف کی سزا کو کالعدم قرار دے کر انھیں بری کر دیا اور نواز شریف رہا ہو کر جاتی عمرہ واپس پہنچ گئے۔

عدلیہ کے نظام میں بڑی عدالتیں چھوٹی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتی ہیں، یہ طریقہ کار عام ہے لیکن کسی معروف سیاستدان جو ملک کا وزیراعظم بھی رہا ہے اس کے کیس کو خوب چھان بین کے بعد انجام کو پہنچایا جانا چاہیے تاکہ بڑی عدالت میں بھی چھوٹی عدالت کا فیصلہ برقرار رہ سکے، بصورت دیگر مخالفین کو عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈے کا موقع مل جاتا ہے۔

ماضی کی حکومت کی کرپشن کی داستانیں اس قدر عام ہو گئی تھیں کہ عوام حکومت سے سخت بدظن ہو گئے تھے اور 10 سال کی سزا کو جائز سمجھنے لگے تھے، لیکن جب بڑی عدالت نے اس سزا کو کالعدم قرار دے کر نواز شریف کو بری کر دیا تو عوام حیران رہ گئے۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی سیاسی اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ حکومت کرنا اس کا حق ہے اور اس حق کو وہ اپنی آل اولاد تک پہنچانا چاہتی ہے، پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیاسی ولی عہدی کا نظام مستحکم ہو رہا ہے، اس نظام میں یہ ذہنیت مستحکم ہو جاتی ہے کہ حکومت کا حق صرف اشرافیہ کو حاصل ہے اور چاروں طرف ایسا جال بُنا جاتا ہے کہ محنت کش طبقات کو چھوڑیے مڈل کلاس کو بھی یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ اقتدار میں آئے۔

عمران خان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور اس جرم میں عمران خان کو یہ حق نہیں دیا جا رہا تھا کہ وہ اقتدار میں آئے۔ لیکن جمہوریت میں اقتدار میں لانے کا حق عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور عوام نے یہ حق عمران خان کی جماعت کو دیا۔ اور عمران خان وزیراعظم بن گئے۔

ہماری سیاسی اشرافیہ اور اس کے حواری عمران خان کی حکومت سے اس لیے بھی الرجک تھے کہ اگر عمران خان عوام کے مسئلے حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اشرافیہ کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے، اسی خوف کی وجہ سے سیاسی اشرافیہ اور اس کے حواری یہ پروپیگنڈا مہم چلا رہے تھے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور اس کی تحقیق کے لیے کمیشن بھی بن گیا تھا۔

شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ نیب کے پاس شہباز شریف کے خلاف ثبوت موجود ہوں گے، اگر شہباز شریف کے خلاف ٹھوس ثبوت ہوں تو شہباز شریف کو عدلیہ سے سزا ملنا یقینی ہے اور فیصلے میں وہ حقائق بتائے جانے چاہئیں تا کہ فیصلے کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔