’دماغی صحت کا عالمی دن‘ ذہنی امراض کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 15 اکتوبر 2018

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

 پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 10 اکتوبر کو ’’دماغی صحت کا عالمی‘‘ دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو ذہنی امراض اور دماغی صحت کے حوالے سے آگہی دینا ہے۔

اس حوالے سے دنیا بھر میں آگاہی واکس، سیمینارز و دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ماہرین صحت، سائیکاٹرسٹ، سماجی کارکن و دیگر اہم شخصیات کا کردار قابل ستائش ہے۔

ان تقریبات کی وجہ سے لوگوں میں ذہنی صحت کے حوالے سے کافی شعور بیدار ہوا ہے اور اب وہ اپنے علاج کیلئے بغیر شرم محسوس کیے سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرتے ہیں تاہم ابھی اس حوالے سے بے حد کام کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق لوگوں میں ذہنی امراض تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں جبکہ 2030ء تک ’’ڈپریشن‘‘ دنیا کا سب سے بڑا مرض ہوگا جو انتہائی تشویشناک ہے۔ ذہنی صحت کے عالمی دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض بھٹی (ماہر نفسیات )

دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا مقصد لوگوں کو ذہنی امراض اور دماغی صحت کے حوالے سے آگاہی دینا ہے۔ یہ دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے جس سے ہر سال عوامی آگہی میں بہتری آرہی ہے۔ معاشرتی روایات صدیوں پرانی ہیں جنہیں چھوڑنے کیلئے لوگ تیار نہیں ہیں اور نہ ہی تبدیلی کو جلد تسلیم کرتے ہیں۔ جب ذہنی امراض کے حوالے سے آگاہی کا کام شروع ہوا تو لوگ ہمیں سنجیدگی سے نہیں سنتے تھے مگر آج دہائیاں گزرنے کے بعد اس میں کافی بہتری نظر آرہی ہے۔

پاکستان سائیکاٹرسٹ سوسائٹی، سائیکاٹرسٹ ویلفیئر سوسائٹی و دیگر تنظیمیں پاکستان میں اس حوالے سے موثر کام کررہی ہیں، بین الاقوامی کانفرنسز بھی منعقد کروائی جارہی ہیں تاکہ لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ ماہرین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں چیلنجز زیادہ جبکہ ماہرین کی تعداد کم ہے۔ اس کیلئے ہم سائیکاٹرسٹ، سوشل سائنٹسٹ، دیگر شعبوں کے ماہرین اور جنرل پریکٹیشنر ز کو ساتھ ملا رہے ہیں تاکہ مسائل کا درست طریقے سے خاتمہ کیا جا سکے۔

ہم جنرل پریکٹیشنرز کی گرومنگ کے مختلف کورسز کروارہے ہیں تاکہ ذہنی امراض کی ابتدائی مراحل میں ہی تشخیص اور علاج ہوسکے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر چھٹے فرد کو کوئی نہ کوئی ذہنی مرض لاحق ہے اور ان افراد کی عمر 10 سے 20 برس ہے۔ اگر ذہنی امراض کی بروقت تشخیص ہوجائے تو پیچیدگی سے بچا جاسکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تمام بیماریوں میں ذہنی امراض کی شرح 16 فیصد ہے جو تشویشاک ہے۔ لوگوں میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2030ء میں ’’ڈپریشن‘‘ سب سے بڑا مرض ہوگا۔ 10 سے 15 فیصد افراد خودکشی کرتے ہیں جو ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ دماغی صحت پر کام کرنے سے انسانی جانوں کا ضیاع روکا جاسکتا ہے۔

نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کی بڑی وجہ ڈپریشن ہے جو نہ صرف قابل علاج ہے بلکہ اس سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر بھی موجود ہیں۔ گزشتہ 4 دہائیوں میں سائنس نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے جس کے باعث اب بے شمار ذہنی امراض بشمول ’’وہم‘‘ کا علاج بھی ممکن ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد دماغی امراض و دیگر پیچیدگیوں کا شکار ہے جس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے ان کے پاس آسان راستہ منشیات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا رجحان بڑھ رہا ہے، اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے نوٹس بھی لیا ہے لہٰذا حکومت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے سربراہان کو بھی کام کرنا چاہیے اور طلبہ کی کردار سازی پر توجہ دینی چاہیے۔

عموماََ لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی زندگی بے رونق ہوگئی ہے، زندگی کا لطف نہیں آرہا، انہیں بھوک نہیں لگتی، نیند کم ہوگئی ہے، یہ تمام علامتیں ڈپریشن کی ہیں مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی جسمانی بیماری ہے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ 50 فیصد ذہنی امراض کی درست تشخیص نہیں ہوتی کیونکہ جنرل فزیشن اس جانب توجہ نہیں دیتے بلکہ انہیں مختلف اقسام کی جسمانی بیماریوں کی ادویات دے دیتے ہیں جس کے باعث مرض بگڑ جاتا ہے اور پھر chronic disorder ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد بعض افراد خودکشی کر لیتے ہیں۔ میرے نزدیک ذہنی امراض کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینا بہت ضروری ہے لہٰذاذہنی امراض کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ موبائل فون کی وجہ سے نوجوان نسل تباہ ہوگئی ہے۔ اس سے ان کی ذہنی و جسمانی صحت بھی متاثر ہورہی ہے لہٰذا والدین اور اساتذہ کو بچوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

ڈاکٹر صداقت علی (ایڈکشن سائیکاٹرسٹ )

ذہنی صحت کو جتنا زیادہ خطرہ اب لاحق ہے ماضی میں نہیں تھا کیونکہ اب زندگی کی رفتار بہت تیز ہے۔ اب جو شخص خود کو تبدیل نہیں کرتا اس کے لیے زندگی انتہائی مشکل ہے۔ 20 ویں صدی کی سکلز والے افراد 21 ویں صدی میں نہیں چل سکتے لیکن اگر وہ پرانی تربیت کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے تو مشکلات پیدا ہوں گی۔ اب ’’ورچوئل دنیا‘‘ہے جس میں رابطے تیز ہیں اور اب بات ایک خاندان سے نکل کر پوری دنیا تک پہنچ چکی ہے لہٰذا خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ شرم کی وجہ سے لوگ اپنے مسائل چھپاتے ہیں اور دوستوں یا عزیزو اقارب سے شیئر نہیں کرتے حالانکہ یہ لوگ ان کی مشکلات کو کم کر سکتے ہیں۔

اس عمل کی وجہ سے مسائل سنگین ہو جاتے ہیں اور لوگوں کو ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پہلے یونیوسٹیوں میں منشیات کا استعمال نہیں ہوتا تھا مگر اب طلبہ اور پروفیشنلز، دونوں ہی منشیات کازیادہ استعمال کررہے ہیں۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ معاشرے نے منشیات کے عادی افراد کو ’’new normal‘‘ کے طور پر تسلیم کرنا شروع کردیا ہے، سوال یہ ہے کہ نشہ استعمال کرنے والا شخص نارمل کیسے ہوسکتا ہے؟لوگوں میں دماغی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی جسمانی سرگرمی کم ہے۔ وہ وزرش نہیں کرتے بلکہ سست زندگی گزار رہے ہیں۔ لوگوں میں سمارٹ فون اور کھانے پینے کا استعمال بڑھ گیا ہے جس سے ان کی جسمانی صحت خراب ہورہی ہے اورا س کا اثر دماغی صحت پر بھی پڑتا ہے لہٰذا لوگوں کو اپنی جسمانی صحت پر توجہ دینا ہوگی۔

میاں بیوی کے درمیان لڑائی زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے اور اس سے ذہنی صحت کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے لڑائی کے بعد ایک ہی جگہ رہنا ہوتا ہے اور صلح سے پہلے تک کے دورانیہ میں ایک دوسرے کو نظر انداز کرنا، خاموشی یا اس طرح کا کوئی اور عمل ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ آج کے دور میں بچوں کو زندگی گزارنے کیلئے ’’ایگزیکٹیو سکلز‘‘ دینے کی ضرورت ہے مگر والدین ان کا ہوم ورک اور دیگر کام خود کر کے انہیں سہل پسند بنا رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں مسائل بہت زیادہ ہیں جو ذہنی بیماریوں کی بڑی وجہ ہیں، اگر ہر شخص وقت سے پہلے ہی اپنی جسمانی اور ذہنی صحت پر توجہ دے تو بیماریوں سے بچا سکتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فرح ملک ( ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ایپلائڈ سائیکالوجی ،جامعہ پنجاب )

عالمی ادارہ صحت کے مطابق صحتمند وہ ہے جو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی تندرست ہو۔ ہمارے ہاں لوگوں کو جسمانی صحت کا خیال تو ہے مگر وہ دماغی صحت پر توجہ نہیں دیتے کیونکہ انہیں اس بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ دماغی بیماریوں کے علاج کے کیلئے سائیکاٹرسٹ موجود ہیں مگر نہ صرف ہمارے ملک بلکہ امریکا اوربرطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ ان کے پاس جانے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ صرف پاگل لوگ ہی سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرتے ہیں حالانکہ یہ باکل غلط ہے۔ جب ہم نے لوگوں کو دماغی صحت کے حوالے سے آگاہی دینا شروع کی تو ہماری بات کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا تھا مگر آج 3 سے 4 دہائیوں کے بعد کافی بہتری آچکی ہے۔

دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا مقصد لوگوں کو ذہنی بیماریوں کے بارے میں آگاہی دینا اور دماغی صحت کے حوالے سے شعور پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اپنا علاج بروقت کروا سکیں۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے لوگوں میں کافی حد تک شعور بیدار ہوا ہے۔ رواں سال اس عالمی دن کا موضوع ’’بدلتی دنیا میں نوجوان اور دماغی صحت‘‘ ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی اس دنیا میں نوجوانوں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے جن کی وجہ سے ان میں ذہنی دباؤ و دیگر دماغی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ عصر حاضر میں نوجوانوں کیلئے سوشل میڈیا بھی ایک بڑا چیلنج ہے جس پر انہیں دنیا کے برابر چلنا ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق انٹرنیٹ اور سیلفی ایڈیکشن بھی دماغی بیماریاں ہیں، جن کا علاج ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کے باعث نوجوانوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے، وہ ہر معاملے پر ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں جو مثبت بھی ہے اور منفی بھی، اس سے ان میں عدم برداشت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

ہم اپنے ادارے میں معاشرے کے مختلف رجحانات کا جائزہ لیتے ہیں، سیاست میں یوتھ کے کردار کے حوالے سے بھی تحقیق کی جس میں سامنے آیا کے یوتھ کا سیاست کی طرف رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے مگر اس سے ان کے رویوں میں تبدیلی بھی آرہی ہے لہٰذا ان کی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو مختلف اہم معاملات کے حوالے سے آگاہی دینے میں میڈیا کا کردار قابل تعریف اور انتہائی اہم ہے تاہم ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دماغی صحت کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں میں شعور بیدار کیا جاسکے۔ بچے اور بڑے سب ہی دماغی مسائل کا شکار ہیں جن کی نوعیت مختلف ہے۔ میرے نزدیک سکولوں اور کالجوں میں طلبہ کی کاؤنسلنگ کے لیے سائیکاٹرسٹ بھرتی کیے جائیں۔طلبہ میں منشیات کا رجحان بڑھ رہا ہے جو تشویشناک ہے۔

اس کی ایک وجہ دماغی بیماریاں ہیں لہٰذا تعلیمی اداروں میں بچوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ہمارا المیہ ہے کہ جب تک کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو توجہ نہیں دی جاتی ۔ میرے نزدیک ہمیںعلاج کے بجائے احتیاط کی جانب بڑھنا چاہیے اور کسی بھی ممکنہ چیلنج کے حوالے سے پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں۔ تعلیمی ادارے، معاشرہ اور حکومت تین اہم ستون ہیں جن کے آپس کے تعاون سے تمام مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔میرے نزدیک کمیونٹی سروسز کو تعلیمی اداروں میں لازمی قرار دیا جائے۔ طلبہ کو سماجی خدمت کے پراجیکٹس دیے جائیں اور ڈگری کو ان سے مشروط کیا جائے۔ جو طلبہ کمیونٹی سروسنگ نہ کریں، انہیں ڈگری جاری نہ کی جائے۔ ایسا کرنے سے ان میں احساس ذمہ داری اور خدمت کا جذبہ جبکہ معاشرے میں سدھار پیدا ہوجائے گا۔ دماغی صحت کے حوالے سے حکومتی سطح پر جامع پالیسی ترتیب دینی چاہیے اور اس میں ماہرین کی رائے کو شامل کیا جائے۔

 سید ذوالفقار حسین (کنسلٹنٹ انسداد منشیات مہم)

ذہنی صلاحیتوں کو برووے کار لانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی میں موثر طریقے سے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ آج بے شمار لوگوں کو ذہنی دباؤ کا سامنا ہے جس کی بہت ساری وجوہات ہیںجن میں بے روزگاری اور ٹیکنالوجی کا غلط استعمال قابل ذکر ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ روزگار کے مواقع کم ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے جو ٹینشن کا شکار ہیں۔

اس کے علاوہ انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگ ہر وقت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مصروف رہتے ہیں اور انہیں اب بے شمار دوستوں کو خوش رکھنا اور ان میں بہتر دکھنا مقصود ہوتا ہے جو ٹینشن کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جدید دنیا میں نوجوانوں کے لیے چیلنجز بڑھ گئے ہیں جس کے باعث ان کے ذہن میں منفی رجحانات پیدا ہورہے ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد خصوصاََ خواتین منشیات کی جانب راغب ہورہی ہیں جو تشویشناک ہے۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طلبہ ایک ساتھ بیٹھ کر نشہ کررہے ہیں۔ گزشتہ 3 سے 4 برسوں میں چرس کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

چرس استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق تعلیمی اداروں سے ہے جبکہ کال سینٹرز ودیگر کاروباری مراکز میں بھی اس کا استعمال ہورہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ملاوٹ زدہ چرس استعمال کرنے سے بیمار ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے جنہیں خطرناک بیماریاں لاحق ہوئی ہیں۔ انسداد منشیات کے حوالے سے تعلیمی اداروں میں سخت ایکشن لینا ہوگا۔ میں نے گزشتہ 3 برسوں میں 1 ہزار سے زائد تعلیمی اداروں میں لیکچرز دیے ہیں لیکن طلبہ کو براہ راست منشیات کے بارے میں نہیں بتایا بلکہ پہلے انہیں لائف سکلز کو بہتر کرنے کے بارے میں آگاہی دی۔ اگر طلبہ کے پاس زندگی گزارنے اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بہترین سکلز ہوں گی تو وہ منشیات کا سہارا نہیں لیں گے۔

ہم نے اساتذہ اور والدین کی ٹریننگ پر بھی خصوصی توجہ دی ہے کیونکہ انہوں نے بچوں کی تربیت کرنی ہے۔ اس پر مزید کام کرنے سے جسمانی و ذہنی بیماریوں کے تدارک کے ساتھ ساتھ منشیات کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک تعلیمی اداروں میں ’’زیرو پیریڈ‘‘ لازمی قرار دیا جائے جس میں اہم موضوعات پر خصوصی لیکچرز دیے جائیں، اس کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر والدین اور اساتذہ کیلئے تربیتی پروگرام بھی شروع کیے جائیں تاکہ ذہنی امراض اور انسداد منشیات کے حوالے سے مثبت کام ہوسکے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ حکومت کوئی بھی ہو جب تک سنجیدگی سے کام نہیں کرے گی تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں بچوں کی درست ذہنی نشونما نہ ہونے کی بات کی اور صحت کے مسائل پر بہت زیادہ فوکس کیا۔ میرا ان سے مطالبہ ہے کہ 100 روزہ پلان میں دماغی صحت کے حوالے سے جامعہ منصوبہ دیا جائے اور اس مسئلے کے حل کیلئے سنجیدگی کے ساتھ کام کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔