- پاکستان کے حملے جوابی کارروائی تھی، طالبان اپنی سرزمین سے حملے روکیں، امریکا
- اسلام آباد یونائیٹڈ تیسری بار پی ایس ایل چیمپئن بن گئی
- پی اسی ایل 9 فائنل؛ امریکی قونصل جنرل کی گاڑی کو نیشنل اسٹیڈیم کے دروازے پر حادثہ
- کچلاک میں سڑک کنارے نصب بم دھماکے سے پھٹ گیا
- بھارت سے چیمپئنز ٹرافی پر مثبت تاثر سامنے آیا ہے، چیئرمین پی سی بی
- آئی ایم ایف کو سیاست کےلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے، فیصل واوڈا
- چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو کیلیے ’انٹرنیشنل وومن آف کریج‘ ایوارڈ
- پاکستان اور آئی ایم ایف میں کچھ چیزوں پر اتفاق نہ ہوسکا، مذاکرات میں ایک دن توسیع
- پاور سیکٹر کا گردشی قرض تین ہزار ارب سے تجاوز کرگیا
- موٹر سائیکل چوری میں ملوث 12 سے 17 سالہ چار لڑکے گرفتار
- جوگنگ کے سبب لوگوں کا مزاج مزید غصیلا ہوسکتا ہے، تحقیق
- متنازع بیان دینے پر شیر افضل مروت کی کور کمیٹی سے معذرت
- امریکی سفیر کی صدر مملکت اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقاتیں
- پی ٹی آئی نے اسلام آباد انتظامیہ سے جلسے کی اجازت مانگ لی
- کراچی میں منگل کو موسم گرم، بدھ کو صاف و جزوی ابر آلود رہنے کی پیشگوئی
- انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ تگڑا
- دنیا کے انتہائی سرد ترین خطے میں انوکھی ملازمت کی پیشکش
- سورج گرہن کے دوران جانوروں کا طرزِ عمل مختلف کیوں ہوتا ہے؟
- پاکستان کی افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی، دفتر خارجہ
- رمضان المبارک میں عمرے کی ادائیگی؛ سعودی حکومت نے نئی ہدایات جاری کردیں
خان صاحب، تعمیر نہیں مرمت کیجیے
ہمیں ماننا ہوگا کہ گزشتہ پندرہ برس اسلامی جمہوریہ پاکستان کےلیے تعمیری حوالے سے اہم رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے وزیر ڈاکٹر عطاء الرحمن کی علم دوست کوششیں ہوں یا چوہدری پرویز الہی صاحب کا پڑھا لکھا پنجاب، یا پھرشہباز شریف کے ترقیاتی منصوبے، ہر ایک نے اپنے طور پر وطن عزیز کی محبت میں بظاہرعلم دوستی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں ادارے تو وجود میں آئے مگر ان سے جو فوائد مطلوب تھے، وہ حاصل نہ ہوسکے۔
آپ بھیرہ کی مثال لے لیجیے، یہ پاکستان کا ایک تاریخی شہر ہے۔ آپ موٹروے پر اسلام آباد سے لاہور کی طرف سفر کریں تو وسط میں بھیرہ آتا ہے۔ آج سے پندرہ برس پہلے بھیرہ میں ڈگری کالج برائےمرد/ خواتین نہیں تھا، اچھے اور ذہین طالب علم حصول علم کےلیے ستر کلومیٹر دور سرگودھا جانے پر مجبور تھے۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی تھیں، پاور ہاؤس کا وجود نہیں تھا، میونسپلٹی کی عمارت پرانی اور بوسیدہ تھی۔ آج کا بھیرہ بدل چکا ہے، چھوٹے بڑے دیہات کی اکثریت سڑک کے ذریعے شہر سے جڑ چکی ہے، مرد/ خواتین کا ڈگری کالج بن چکا ہے لیکن ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ کل تک کالج نہ ہونے کی وجہ سے طالب علم سرگودھا اور لاہور کا رخ کرتے تھے تو آج ان کالجوں میں استاد نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔
آج میونسپلٹی ایک پرشکوہ عمارت میں منتقل ہو چکی ہے، مگر اکثر کلرک حضرات کے رویّے سے آج بھی دور جاہلیت کی یاد آجاتی ہے۔ کل تک اسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ علاج نہیں ہوتا تھا، آج سہولیات تو ہیں مگر معروف صحافی جاوید پرنس بغیر کسی طبی امداد کے اس لیے دم توڑ جاتا ہے کہ ڈاکٹرز موجود نہیں ہوتے؛ اور ستم بالائے ستم کہ جب ایم ایس صاحب کو بلایا جاتا ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ میری تو ڈیوٹی ہے ہی نہیں! یعنی ایک انسانی جان دم توڑ رہی ہے اور مسیحا یہ فرما رہا ہے کہ میری ڈیوٹی ختم ہوچکی ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ جب ریاست کے پانچویں ستون کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو عام آدمی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا؟ اور میاں صاحب دعوی کرتے ہیں کہ ترقی دیکھنی ہے تو لاہور تشریف لائیے، دیہات کو سڑکوں کے ذریعے شہر سے جوڑ دیا گیا ہے مگر اکثر و بیشر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یہ صرف ایک شہر کی روداد نہیں، یہاں پر ہر دوسرے شہر کا یہی حال ہے۔ ایک خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ تعمیرات کمیشن کے حصول کےلیے کی گئیں، مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔
پنجاب کے موجودہ اسپیکر چوہدری پرویز الہی صاحب شہاز شریف کے پہلے دور میں یہ شکوہ کرتے تھے کہ حکومت ہمارے بنائے گئے تعلیمی اداروں کو اسٹاف نہیں مہیا کررہی، قدرت نے اب انہیں موقع دے دیا ہے اور اب وہ خود اقتدار میں ہیں۔ امید ہے کہ وہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
میری خان صاحب سے استدعا ہے کہ آپ ضرور وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں بدلیے مگر ایک ٹاسک فورس، ایک اعلی اختیاراتی کونسل یا کم از کم ایک کمیشن ایسا ضرور تشکیل دے دیجیے جو تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں عملے کی کمی کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پورا کرے۔ قبرستان اسکولوں کی معیاری عمارتوں میں منتقلی ہو، گزشتہ دور میں ہونے والی تعمیرات کا آزادانہ اور غیر جانبدارانہ آڈٹ ہو اور ذمہ داروں کو نشان عبرت بنا دیں تو یہ قوم کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
اگر آپ نے بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں اراکین اسمبلی کو ترقیاتی بجٹ کے نام پر خوش کرنا شروع کردیا تو پھر سڑکیں، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور اسپتال تو ضرور تعمیر ہوں گے مگر عوام الناس کی حالت زار وہی رہے گی اور بقول جالب:
دن بدلے ہیں وزیروں کے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔