تبدیلی آگئی

شکیل فاروقی  منگل 16 اکتوبر 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

بالآخر وہی ہوا جس کی خبریں یا افواہیں گزشتہ کئی روز سے گردش کررہی تھیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ و باضابطہ طور پر درخواست کردی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان نے اپنے کنٹینر کے دور میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے اور کشکول لے کر دنیا سے بھیک مانگنے کی مجبوری پر خودکشی کرنے کو ترجیح دینے کا نعرہ لگایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بقول شاعر ’’مفلسی حس لطافت کو مٹادیتی ہے‘‘۔ حالات کا جبر بڑا ظالم ہوتا ہے جو انسان کو اپنی مرضی اور خواہش کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔

عمران خان کی حکومت کو یہ فیصلہ نہ چاہتے ہوئے کرنا پڑا، جس کا انھیں محض احساس نہیں بلکہ بڑا دکھ بھی ہورہا ہوگا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کا معاملہ انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں جاکر حل ہوا، جہاں پاکستان کے نئے وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ جمعرات کو گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کے ہمراہ آئی ایم ایف کی خاتون سربراہ کرسٹین لاگارڈ سے سائیڈ لائن میٹنگ میں بات چیت کی۔ بالی میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد عالمی مالیاتی وفد مستقبل قریب میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔

تاکہ بھنور میں پھنسی ہوئی پاکستانی معیشت کو باہر نکالا جاسکے۔ دریں اثنا امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ نے کہاہے کہ پاکستان کو چین کے قرض کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف کے پاس مزید قرضے لینے کے لیے جانا پڑا ہے، لیکن پاکستان نے امریکی ترجمان کے اس بیان کو مسترد کردیا ہے۔ پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ چین سے حاصل کیے گئے قرضوں کی واپسی کا عمل 2021 سے شروع ہوگا۔ پاکستان نے چین سے یہ قرضے سی پیک کے تحت حاصل کیے ہیں۔ جہاں تک پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کا سوال ہے تو یہ بوجھ موجودہ حکومت کو وطن عزیز کے ماضی کے حکمرانوں سے ورثے میں ملا ہے۔ یہ کوئی حادثاتی نوعیت کا معاملہ نہیں، بلکہ سالہا سال پرانی حکومتی شاہ خرچیوں کا خمیازہ ہے، جو نئی پی ٹی آئی حکومت کے گلے پڑ گیا ہے۔

عالمی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستانی معیشت کی جو منظرکشی کی ہے وہ قطعی حوصلہ افزا نہیں ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان کی معیشت ایک نازک دور سے گزررہی ہے اور یہ ملک جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جس کے راستے محدود اور اخراجات لامحدود ہیں۔ پاکستان چڑھتی اور گرتی ہوئی معیشت کے مدوجزر میں بری طرح پھنسا ہوا ہے، ایسی صورتحال آیندہ دو سال تک جاری رہنے کا خدشہ لاحق ہے۔ رپورٹ میں غربت اور کمزور معاشی ترقی کو معیشت کی خرابی کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کو ترقی کے لیے ملکی خسارے کو پائیدار بنیادوں پر کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔وطن عزیز کو شرح نمو میں اضافہ کرنے کے لیے سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہوگا۔

زیادہ سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار میں اضافے سے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے، جس کے نتیجے میں ملک کی معیشت پستی سے باہر نکل کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگی۔ اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان اور تاجکستان نے تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اتفاق رائے گزشتہ ہفتے دو شنبے میں ایس سی او کے سربراہوں کی کونسل کے 17 ویں اجلاس کے موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور تاجکستان کے وزیراعظم رسول زدہ کے درمیان ملاقات کے دوران پایا گیا۔ ملاقات کے دوران دو طرفہ معاملات اور علاقائی و بین الاقوامی باہمی دلچسپی کے امور زیر بحث آئے اور تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کو مزید بڑھانے اور مستحکم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

قرض ایسا خطرناک مرض ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا بڑا مشکل اور وقت طلب کام ہے۔ اس کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ مرض جتنا پرانا ہوگا اس کا علاج بھی اتنا ہی طویل المدت اور صبر آزما ہوگا۔ ہمارے بیرونی قرضوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ماضی کی حکومتیں اللے تللے کی شوقین رہیں اور ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے گلچھڑے اڑاتی رہیں۔ یہ اس کا نتیجہ ہے کہ آج قوم کے بچے بچے کا بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور حالت یہ ہے کہ ان قرضوں پر ادا کیے جانے والے سود کے لیے بھی مزید قرضے حاصل کرنے کی ضرورت درپیش ہے۔ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے حکومتی فیصلے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، جس کے بعد پاکستانی روپیہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں غیر مستحکم ہوکر بدترین گراوٹ کا شکار ہوگیا ہے۔ ڈالر مہنگا ہوتے ہی ایک روز میں پاکستان کے قرضوں کا بوجھ 900 ارب روپے تک بڑھ گیا۔

معیشت کی زبوں حالی نے افراط زر کے دباؤ کو شدید سے شدید تر کردیا ہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی کا خوفناک سونامی برق رفتار سے بڑھتا چلا آرہا ہے، جس نے غربت کے بھاری بوجھ تلے دبے عوام کی چیخیں نکلوادی ہیں، یہ گمبھیر صورتحال انتہائی خطرناک ہے جس نے نہ صرف پوری قوم کو کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے بلکہ پی ٹی آئی کی نئے پاکستان کی دعویدار نئی حکومت کی ساکھ کو داؤ پر لگادیا۔ گویا سر منڈواتے ہی اولے پڑگئے۔

حکمراں جماعت کا روز اول سے ہی موقف رہا ہے کہ وطن عزیز کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں مالی بددیانتی اور اس کے نتیجے میں لیے گئے قرضوں کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے، اس لیے پی ٹی آئی کرپشن اور قرضے لینے کی شدید مخالف رہی ہے، اس لیے پی ٹی آئی کی قیادت کا واضح بیانیہ یہی تھا کہ وہ حکومت میں آکر بین الاقوامی اداروں سے قرضے لینے کی پالیسی کو ترک کرکے ملک کو خود انحصاری کی راہ پر ڈال کر قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کردے گی۔ مگر پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس نہ تو الٰہ دین کا جادو کا چراغ ہے، نہ کوئی جادو کی چھڑی، نہ ہی اس کے پاس کوئی چھومنتر ہے کہ آنِ واحد میں حالات کو یکسر تبدیل کردے۔ ناموافق اور نامساعد موجودہ ابتر حالات کی ذمے داری نئی حکومت کے سر تھوپنا سراسر ناانصافی اور زیادتی ہوگی۔

ماضی کی حکومتوں میں شامل موجودہ حکومت کے ناقدین اور ان کے حواری نئی حکومت سے عوام کو بدظن کرنے کے لیے اس صورتحال کو Exploit کررہے ہیں تاکہ حکومت بدنام اور ناکام ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ابتر معاشی صورتحال کے بنیادی اور اصل ذمے دار وہ خود ہیں اور ابتر حالات کا یہ ناخوشگوار نقشہ اور منظرنامہ ان ہی کی برسوں پرانی بے حسی، نااہلی اور عاقبت نااندیشی سے ہی ترتیب پایا ہے ’’بندر کی بلا، طویلے کے سر‘‘ والی کہاوت کے مصداق وہ ماضی کے اپنے کیے دھرے کا ملبہ موجودہ نئی حکومت کے سر منڈھنا چاہ رہے ہیں، اس کو کہتے ہیں ’’الٹا چور کوتال کو ڈانٹے‘‘۔

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران قوم کو ملک کو آنے والے دنوں میں پیش آنے والے سخت اور صبر آزما حالات کی سنگینی سے آگاہ کردیا تھا۔ انھوں نے بلاجھجھک اور برملا اعتراف بھی کیا کہ حالات کی خرابی کا انھیں اقتدار میں آنے سے پہلے جو اندازہ تھا حالات اس سے کہیں زیادہ بدتر پائے گئے لیکن حالات محض چٹکی بجاکر تو درست نہیں کیے جاسکتے، اس کے لیے حکومت کو کچھ نہ کچھ مہلت تو ضرور درکار ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اپنے اعصاب قابو میں رکھے اور سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرے اور ’’پاکستانی بنو اور پاکستانی مصنوعات خریدو‘‘ کے اصول پر سختی سے عمل پیرا ہوکر قیمتی زرمبادلہ کی بچت میں حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرے۔

دوسری جانب حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر معاملے میں قوم کو اعتماد میں لے کر شفافیت کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے نظم و نسق پر گرفت مضبوط کرے اور انتظامی اور غیر پیداواری اخراجات میں ممکنہ حد تک کمی کرے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ بھی ہے کہ وہ ملک کو سلامتی اور یکجہتی کو درپیش چیلنجوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے بردباری، ضبط و تحمل اور برداشت کا عملی مظاہرہ کرے۔ نیز اپنے وزرائے کرام اور عہدیداروں کو بھی اس بات کی سختی سے ہدایت کرے کہ وہ اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہوئے ’’پہلے تولو، پھر بولو‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف غیر پارلیمانی زبان کے استعمال سے مکمل اجتناب کریں اور ایک ایسی خوشگوار اخلاقی اور سیاسی فضا قائم کریں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اس کی قیادت کے بدترین مخالفین بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ ’’تبدیلی آگئی ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔