جناح آبزوریٹری زیارت: پاکستان میں فلکیات کے فروغ کا منفرد مجوزہ منصوبہ

محمد نوید شریف  ہفتہ 20 اکتوبر 2018
زیارت روشنی کی آلودگی سے دور، مناسب بلندی، خشک موسم اور بے بادل آسمان کی بدولت فلکیاتی مشاہدے کےلیے موزوں مقام ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

زیارت روشنی کی آلودگی سے دور، مناسب بلندی، خشک موسم اور بے بادل آسمان کی بدولت فلکیاتی مشاہدے کےلیے موزوں مقام ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

پوری دنیا میں فلکیاتی رصدگاہیں اور تحقیقی مراکز ایسے مقامات پر قائم کیے جاتے ہیں جو شہری آبادی کی ضیائی آلودگی (لائٹ پولیوشن) سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ سطح سمندر سے مناسب طور پر بلند بھی ہوں؛ اور سب سے بڑھ کر وہاں سال کے غالب حصے میں بادلوں کے بغیر آسمان صاف رہتا ہو۔

اس ضمن میں شمالی بلوچستان کے کئی مقامات انتہائی مناسب ہیں۔ خاص کر زیارت کے نواح میں تین ایسی  پہاڑی چوٹیاں ہیں جو اس معیار پر پورا اترتی ہیں۔ میں نے اس ضمن میں خاصی تحقیق کی ہے اور منصوبے کےلیے متوقع جگہوں میں زیارت ریزیڈنسی سے پانچ کلومیٹر فاصلے  پر واقع ’’گوہر ٹاپ‘‘ کو ایک بہترین محلِ وقوع پایا ہے۔ یہ مقام سطح سمندر سے دس ہزار (10000) فٹ سے بھی زیادہ بلند ہے جو کوئٹہ سے 130 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔

یہ جگہ شہری روشنی کی آلودگی سے پاک ہے جس کی ڈارک اسکائی ریٹنگ 5 میں سے 4.5 ہے ۔اس کے علاوہ یہاں ہوا میں نمی کا اوسط سالانہ تناسب 40 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس سے  چار کلومیٹر فاصلے پر بجلی اور گیس بھی موجود ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس جگہ سال میں 300 دن تک آسمان صاف ملتا ہے اور فلکیاتی مشاہدات کےلیے مکمل افق (کمپلیٹ ہورائزن) بھی مہیا رہتا ہے۔

واضح رہے کہ فلکیاتی دوربینوں کی بہت سی اقسام ہیں جن میں بصری یعنی آپٹیکل (روشنی کے طیف سے دیکھنے والی) دوربینوں کے علاوہ ریڈیو، انفرا ریڈ، الٹرا وائیلٹ، ایکسرے اور دیگر اقسام کی دوربینیں مشہور ہیں۔ بلوچستان کا علاقہ آپٹیکل، انفراریڈ، اور سب ملی میٹر ریڈیو دوربینوں کےلیے بہت مناسب ہے۔ اگر یہ منصوبہ شرمندہ تعبیر ہوتا ہے تو بلوچستان یونیورسٹی فلکیاتی تحقیق میں ایشیا کے اہم مرکز کی حیثیت اختیار کرجائے گی۔

ایک اچھی بات یہ ہے کہ زیارت اور اس کے نواح میں پورے سال 255 راتیں ایسی ہیں جو بادلوں سے پاک ہوسکتی ہیں اور محکمہ موسمیات بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس طرح ہماری آنکھ اور تاروں بھرے آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہے گا۔ بصورتِ قیام، یہ مرکز بہت جلد عالمی سائنسدانوں کو بھی خوش آمدید کہے گا۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں جو خطِ استوا (ایکویٹر) کے اردگرد نئی اور جدید دوربینیں نصب کرنے کےلیے مناسب جگہوں کی تلاش میں ہیں۔

اس منصوبے کو مزید پرکشش بنانے کےلیے میں نے اسے اپنے عظیم رہنما، قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اس کےلیے ’جناح ایسٹرونومیکل آبزوریٹری زیارت‘ (JAOZ) کا نام تجویز کیا ہے۔ بلوچستان میں خطے کی واحد اور عالمی معیار و پیمانے کی فلکیاتی رصدگاہ دنیا میں خصوصاً بلوچستان کی پذیرائی اور شناخت بنے گی جس کی اس پسماندہ صوبے کو اشد ضرورت ہے ۔

اس رصدگاہ کو مقامی انجینئرنگ جامعہ، سپارکو اور دیگر اداروں کے تعاون سے قائم کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ زیارت جناح ریزیڈینسی، صنوبر کے جنگلات اور دیگر مقامات کی وجہ سے پہلے ہی جانے پہچانے تفریحی مقام کا درجہ رکھتی ہے۔ اس آبزرویٹری کے قیام سے زیارت اور بلوچستان عالمی نقشے پر نہایت شان سے ظاہر ہوں گے۔

بلوچستان کو بالعموم ایک غریب اور پسماندہ صوبے کی حیثیت سے جانا جاتا۔ تاہم واضح رہے کہ چِلی کے اٹاکاما صحرا اور مراکش کے ایسے ہی علاقوں میں ایسٹرونومیکل سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جو آج عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ اس مقام پر بڑے اپرچر کی بصری دوربینیں نصب کرکے ملک میں فلکیاتی تحقیق کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔ بالخصوص سائنس کی اس دلچسپ سرگرمی سے صوبے کے نوجوانوں اور طالب علموں کو سنجیدہ علوم کی جانب راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ سائنس ہمیں تحمل اور مختلف رائے برداشت کرنا سکھاتی ہے؛ اور ایک سائنسی ذہن عموماً شدت پسند نہیں ہوتا۔

بلوچستان اور فلکیات

اگر اس منصوبے پر سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے کام کیا جائے تو جے اے او زیڈ ایک بہت عمدہ منصوبہ ثابت ہوسکتا ہے جو بلوچستان کی نئی پہچان بن سکتا ہے اور عالمی منظرنامے پر فلکیاتی مرکز بھی اختیار کرجائے گا۔ رات کی تاریکی میں ٹمٹماتے لاکھوں کروڑوں ستارے، سیارے اور کہکشائیں کائنات کی وسعت اور بے پناہ حسن کو بیان کرتی ہیں۔ یہ مناظر اپنی بے پناہ خوبصورتی کی وجہ سے چھوٹے بچوں کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔

اگر ہم محنت کریں تو نہ صرف ملک میں سنجیدہ فلکیات شروع ہوجائے گی بلکہ کوئٹہ میں واقع بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز (بی یوآئی ٹی ای ایم ایس) ایسٹروفزکس کا ایک ایسا مرکزِ فضیلت (سینٹر آف ایکسی لینس) بن جائے گی جہاں سے پورے ملک کے ماہرین علمی طور پر فیضیاب ہوسکیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔