موسیقی سے محبوبہ کی طرح عشق کرتا ہوں ، گلزار عالم

روخان یوسف زئی  منگل 16 اکتوبر 2018
پشتو کے مقبول گلوکار گل زار عالم کی شخصیت کے چند اوراق 

پشتو کے مقبول گلوکار گل زار عالم کی شخصیت کے چند اوراق 

وہ پشتو فن گائیکی سے باخبر اور انقلابی گلوکار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اپنے انقلابی اور ترقی پسند مزاج کی وجہ سے وہ ہمیشہ شعوری طور پر ایسے کلام کا انتخاب کرتے رہے ہیں جس میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور استعماری قوتوں کو ہدف تنقید بنایا گیا ہو اور جس میں مظلوم و محکوم طبقات کو اپنے حقوق حاصل کرنے کا پیغام موجود ہو۔ ترقی پسند اور قوم پرست نظریے کے ساتھ واضح تعلق اور وابستگی کی وجہ سے وہ سنجیدہ قوم پرست، ترقی پسند، لبرل اور سیکولر حلقوں میں یکساں مقبول اور پسند کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سُریلی آواز اور انقلابی نغمات کے ذریعے بے شمار لوگوں کو وطن پرستی اور قوم پرستی کی جانب راغب کیا۔

پاکستان اور افغانستان میں قوم پرست اور ترقی پسند نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کی جانب سے منعقدہ کوئی بھی محفل موسیقی کا پروگرام گل زار عالم کے بغیر ادھورا اور پھیکا سمجھا جاتا ہے۔ دیہاتوں کے حجروں، کھیتوں کھلیانوں سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ اوربڑے بڑے بیوروکریٹس، خواتین اور وزراء کے بنگلوں، ڈرائینگ رومز اور گاڑیوں میں گل زارعالم کی آواز بڑے شوق سے سنی جاتی ہے۔ بات بات پر مسکراہٹ ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ دوران گفتگو اپنے مخاطب کی پوری بات غور سے سننے کے بعد بڑے محتاط انداز میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔ وہ بحث مباحثے میں دلیل کے قائل ہیں۔ نرم خُو اور ہنس مُکھ گل زار عالم 15 اکتوبر 1959ء کو پشاور کے رام داس بازار کے محلہ’’ساربانان‘‘میں میر افسرخان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نے دو شادیاں کی تھیں۔ اپنے دس بہن بھائیوں (پانچ بہنیں، پانچ بھائی) میں گل زار عالم سب سے بڑے ہیں۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول یکہ توت سے، میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول کاکشال سے 1975ء میں کیا۔ ان کے والد ایک غریب ٹیلرماسٹر تھے اور کرائے کے مکان میں رہتے۔ وہ لوگوں کے لیے نئے کپڑے سیتے مگر خود ان کے بیٹے گل زار عالم کا صرف ایک جوڑا کپڑا تھا جسے وہ پورا ہفتہ استعمال کرتے۔ چھٹی کے دن اسے دھوکر دوبارہ پہنتے اور پورا ہفتہ اسی ایک جوڑے میں گزار دیتے۔

زمانہ طالب علمی میں ان کا شمار فٹ بال کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا اور وہ اپنے اسکول کی ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ اپنی خوب صورت آواز کی وجہ سے روزانہ سکول میں صبح کی اسمبلی میں تین سال تک تلاوت کلام پاک پیش کرتے رہے۔ انہوں نے بچپن میں قرآن پاک کے چار پارے حفظ بھی کیے۔ اگرچہ ان کا زیادہ رجحان موسیقی کی جانب تھا مگر اپنے گھر والوں اور اساتذہ کے ڈر سے اپنی اس خواہش کا اظہار نہیں کرسکتے تھے۔1971ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران جب ان کے گھر والے شہر چھوڑ کر اپنے گاؤں آئے تو گاؤں میں اپنے ایک قریبی رشتہ دار سے ریڈیو لے کر گل زار عالم گھر سے باہر کھیتوں میں چلے گئے، وہاں بیٹھ کر جب ریڈیو آن کیا تو مہدی حسن کی آواز میں یہ گیت

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا

زندہ ہیں کتنے لوگ محبت کیے بغیر

سن کر ان پر ایک عجیب قسم کی کیفیت طاری ہوگئی۔ انہیں یہ گیت اتنا پسند آیا کہ تنہائی میں یہی گیت گنگنانے لگے۔ ان کے گھر کا ماحول مذہبی تھا، ان کی دادی محلے کی خواتین اور بچیوں کو قرآن پاک پڑھاتیں اور رات کو اپنے پوتے پوتیوں کو قصے کہانیاں سنایا کرتیں۔ میٹرک کرنے کے بعد اگرچہ گل زار عالم کے گھر کے معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ مزید تعلیم حاصل کریں مگر قلم اور کتاب سے دلی لگاؤ رکھنے کی وجہ سے انہوں نے گورنمنٹ کالج پشاور میں داخلہ لے لیا، کئی مہینوں تک اپنے گھر رام داس سے کالج تک کا طویل فاصلہ پیدل طے کرتے رہے، بعد میں اپنے لیے قسطوں پر ایک پرانی سائیکل خریدی۔ گھر سے کالج کے لیے ملنے والے جیب خرچ سے روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے سائیکل کی قسط ادا کیا کرتے۔

کالج سے آتے ہی عصر کے وقت چوک شادی پیر میں ڈاکٹر علی اکبر کے ذاتی کلینک میں 300 روپے ماہ وار تن خواہ پر کام بھی کرتے۔ ساتھ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے دوپہرکو کھانے کے وقفے کے دوران گھنٹہ گھر پشاور میں اس وقت کے مشہور ہارمونیم نواز عنایت سلطانی کے پاس جاتے اور ان سے ہارمونیم کی تربیت لیتے، جس کی وجہ سے موسیقی اور فن گائیکی کی جانب ان کا شوق اور بھی بڑھتا گیا۔ بی اے تک کالج اور کلینک دونوں کو وقت دیا کرتے اور جس وقت بی اے کے امتحان میں انگریزی پرچے میں فیل ہوئے تو تعلیم سے دل برداشتہ ہوگئے مگر ڈاکٹر علی اکبر کے حوصلہ دینے پر فیل ہونے والے پرچے کا دوبارہ امتحان دیا اور اسے پاس کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بعد میں پشاور یونی ورسٹی میں فائن آرٹس میں داخلہ لیا۔ اس وقت یونی ورسٹی میں سردار علی ٹکر بھی ہوا کرتے تھے جو انجینئرنگ کالج میں پڑھتے تھے، دونوں شوقیہ طور پر گانے والے ساتھی اپنے یار دوستوں کی محفل اور کبھی کبھار کالج کے کسی پروگرام میں حصہ لے کر کتھارسس کیا کرتے اور جس طرح ان دونوں کو قدرت نے میٹھی اور جادو بھری آواز سے نوازا، اسی طرح انہیں خوب صورت قد و قامت بھی دی۔ 1982ء میں اس وقت پاکستان ٹیلی وژن کے سینئر پروڈیوسر صلاح الدین کو کسی نے بتایا کہ یونی ورسٹی میں دو نوجوان لڑکے گل زار عالم اور سردارعلی ٹکر بہت اچھا گاتے ہیں اور دونوں کی آواز میں زبردست سُر ہے، یہ سن کر صلاح الدین نے پہلے سردار علی ٹکر اور اس کے ایک ہفتہ بعد گل زار عالم کو ٹیلی وژن کی محفل موسیقی کے پروگرام میں گانے کی دعوت دی۔

پشاور یونی ورسٹی میں گل زارعالم کا صرف ایک سال مکمل ہونے کو تھا کہ اس دوران یونی ورسٹی میں طلباء تنظیموں کے درمیان تصادم ہوا جس میں میڈیکل کالج کے ایک طالب علم عطاء اللہ قتل ہوگئے جس کی وجہ سے یونی ورسٹی چھ ماہ تک بند رہی، اس دوران گل زار عالم نے ائر فورس میں سویلین ملازمت اختیار کرلی اور اسسٹنٹ کے طور پر چھ سال تک ایئرفورس میں رہے، بعد میں اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا اور فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ عام لوگوں میں ان کی شہرت اس وقت پھیلی جب1987ء میں ضلع دیر میں انہوں نے اپنے ایک دوست ڈاکٹر کمال کی شادی کی تقریب کے سلسلے میں منعقدہ محفل موسیقی کے پروگرام میںاپنے فن کا مظاہرہ کیا اور وہاںکسی نے ان کے گائے سارے گیت ریکارڈ کرکے آڈیو البم کی شکل میں شالیمار کیسٹ ہاوس سے ریلز کردیئے، اس البم میں شامل پشتو کے معروف انقلابی شاعر رحمت شاہ سائل کی لکھی اس نظم نے

را واخلئی بیا د انقلاب سرہ نشانونہ لیونو زلمو

دا خاورہ انقلاب غواڑی د آزادئی انقلاب

پورے صوبے میں اتنی دھوم مچائی کہ بیشتر سننے والے بغیر دیکھے گل زارعالم کے عاشق بن گئے اور اس طرح وہ پشتو کے تمام صاحبان ذوق، قوم پرستوں اور انقلاب پسندوں کے محبوب گلوکار بن گئے۔ اپنی پہلی آڈیو البم سے غیر معمولی شہرت پائی اور ہر طرف سے انہیں پروگراموں میں دعوتیں ملنا شروع ہوگئیں جنہیں ٹھکرانا اپنی’’پختون ولی‘‘ کے خلاف سمجھتے اور یوں وہ آہستہ آہستہ موسیقی کی دنیا کے ہو کر رہ گئے اور اپنی بے پناہ فنی مصروفیات اور فن گائیکی سے جنون کی حد تک لگاؤ کی وجہ سے انہیں اپنی ائرفورس کی ملازمت قربان کرنا پڑی۔ اس طرح گلوکاری ان کا ایک مستقل ذریعہ روزگار بن گیا۔

1987ء میں انہوں نے برصغیر کے نام ور گلوکار مہدی حسن کی شاگردی اختیار کرلی جس کے لیے وہ پشاور سے لاہور جاتے اور کئی کئی دنوں تک ان سے فن گائیکی اور فوک موسیقی کے رموز و اسباق سیکھتے۔ گل زار عالم نے پہلی شادی اپنے والدین کی مرضی سے1979ء میں کی جن سے ان کے تین لڑکے سلمان، شان اور خاطر پیدا ہوئے۔ 1992ء میں اپنی پسند کی دوسری شادی کوئٹہ میں رہنے والے پشاور کے ایک معزز اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی سے کی جسے حاصل کرنے کے لیے انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے۔ دوسری بیوی سے ان کے پانچ بچے ہیں جن میں تین لڑکے اور دولڑکیاں ہیں۔ صوبے کی تاریخ میں گل زار عالم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے1994ء میں آل پاکستان علاقائی میوزک فیسٹول کراچی میں پہلا ایوارڈ حاصل کیا، اس مقابلے کے منصف معروف شاعر، ادیب،کالم نویس اور دانش ور جمیل الدین عالی تھے۔ فیسٹول کی کمپئرنگ بہروز سبزواری اور مرینہ خان نے کی۔ اس کے علاوہ وہ خیبر بینک ایوارڈ، اباسین آرٹس کونسل ایوارڈ، دو دفعہ باچاخان امن ایوارڈز سمیت بے شمار ایوارڈزحاصل کرچکے ہیں۔ صدارتی ایوارڈ کے لیے ان کا نام چھ مرتبہ نامزد کیا گیا مگر وقت آنے پر نامعلوم وجوہات کی بنا پر کوئی خفیہ ہاتھ فہرست میں شامل ان کے نام پر ’’کراس‘‘ کا نشان لگا دیتا ہے۔ وہ اس وقت پشتو کے واحد گلوکار ہیں جن کی آواز میں اب تک ایک ہزار سے زائد کے قریب آڈیو اور ویڈیو البم ریلز ہو چکے ہیں۔

وہ جرمنی، بلجئیم، ہالینڈ، فرانس، انگلینڈ، ناروے، سویڈن، امریکا، افغانستان اور عرب امارات کے بیش تر ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ عرب امارات میں رہنے والے پختون انہیں اتنا چاہتے ہیں کہ گلزارعالم کے پاسپورٹ میں دو سال کا عرصہ باقی تھا مگر اس پر عرب امارات کے اتنے ویزے لگ چکے تھے کہ مجبوراً انہیں اپنے پاسپورٹ کے ساتھ مزید صفحات لگوانے پڑے۔ وہ دنیا کی مختلف ادبی اور سیاسی شخصیات کی خود نوشت پر مبنی کتابیں دل چسپی سے پڑھتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کی تمام کتابیں پڑھ چکے ہیں اور ان کی زبان دانی، جملہ بازی اور طرزنگارش سے بہت متاثر ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کا ’’شہاب نامہ‘‘ اور جوش ملیح آبادی کی کتاب’’یادوں کی بارات‘‘ کو اردو نثر کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں۔

انہیں لڑکپن سے اب تک ادبی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ فارغ وقت میں ان کا محبوب مشغلہ مطالعہ کرنا ہے۔ خوش حال خان خٹک، رحمان بابا، غالب، امیر حمزہ خان شنواری، فیض احمد فیض، قلندر مومند، غنی خان، احمد فراز اور رحمت شاہ سائل کی شاعری شوق سے پڑھتے ہیں۔ کلاسیکل گلوکاروں میں بڑے غلام علی خان، استاد امیرخان، سلامت علی خان، مہدی حسن اور فوک موسیقی میں خیال محمد اور عبداللہ ان کے پسندیدہ گائیک ہیں۔ پہلے ورزش کے لیے روزانہ صبح سویرے وزیر باغ جایا کرتے مگر چند سال قبل کار حادثے میں ان کی ٹانگیں متاثر ہوئیں، اب وہ بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہیں۔گزشتہ سال شدت پسندوں کی بار بار دھمکیوں سے تنگ آکر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور بال بچوں سمیت ہجرت کر کے افغانستان میں مقیم ہوگئے۔ اب وہاں مختلف ٹی وی چینلز اور تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں کیونکہ وہ وہاں بھی بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ تاہم کابل میں بغیر کسی حکومتی امداد یا متعلقہ اداروں کی مالی معاونت کے وہ اپنے بال بچوں سمیت آج کل سخت مالی مشکلات میں زندگی گزار رہے ہیں۔

خوراک میں بھنڈی اور مچھلی گلزارعالم کا من بھاتاکھاجا ہے۔ جب سے دوسری شادی کی ہے کبھی اپنے لیے یا گھر والوں کے لیے شاپنگ نہیں کی بلکہ یہ ذمہ داری ان کی دوسری بیگم نے لے رکھی ہے۔ چوں کہ ان کی بیگم ان کی پسند اور مزاج سے واقف ہیں اس لیے ان کے لیے کپڑے اور جوتے بھی وہ خود خریدتی ہیں۔ ملک کی سیاسی شخصیات میں مرحوم خان عبدالولی خان کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں اور اس بات کا افسوس کرتے ہیں کہ ولی خان کی سیاسی بصیرت اور صلاحیتوں سے کسی نے بھی فائدہ نہیں اٹھایا اور ان کی صلاحیتوں کو ضائع کردیا گیا۔ گل زار عالم گانے سے پہلے مختلف معروف شعراء کے کلام سے انتخاب اپنی مرضی اور چند دوستوں کے ساتھ صلاح و مشورہ کرنے کے بعد کرتے ہیں۔ اپنے بیڈ کے سرہانے رکھی ہوئی نوٹ بک میں اپنی پسند کی غزلیں اور نظمیں درج کرتے ہیں۔ سیاحت کے بڑے شوقین ہیں، سورج نکلنے اور ڈوبنے کے علاوہ پہاڑوں سے نکلتے چشموں کے پانی کے منظر سے خوب لطف لیتے ہیں۔ انہیں سردی کا موسم بہت اچھا لگتا ہے اور گرمی کے موسم میں گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ سہہ روزہ گزارنے سے پہلے ہر وقت گھر میں بات بات پر جھگڑتے، خاندان کے افراد ان کی اس عادت سے سخت نالاں تھے مگر جب سے وہ تبلیغ سے آئے ہیں، اپنی تمام خراب عادتیں چھوڑ رکھی ہیں، اب وہ خاندان کے ہرچھوٹے بڑے سے احترام، شفقت اورپیار و محبت سے پیش آتے ہیں۔ پہلے ہر وقت ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے رات کو کئی قسم کی نیند کی دوائیں استعمال کرتے مگر اب بغیر کسی دوا کے پرسکون نیند سوجاتے ہیں۔

گل زارعالم کے خیال میں برصغیر میں اسلام کو پھیلانے میں ان صوفیاء اور اولیاء کرام کا بہت بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے اپنے انداز میں تبلیغ کرکے اسلام کا پیغام عام کیا، درباروں میں محفل سماع کا اہتمام کرنا بھی تبلیغ کا ایک حصہ ہے۔ ان کی نظر میں موسیقی میں اپنے طور پر کوئی برائی اور فحاشی نہیں تاہم اس کا غلط استعمال لوگوں پر برا اثر ڈالتا ہے۔گل زار عالم اپنی پختون قوم سے اس بات کے سخت شاکی ہیں کہ پختون معاشرے میں فن کار اور ہنرمند کو لوگ نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، فن سے پیار کرتے ہیں مگر اپنے معاشرے میں فن کار اور ہنر مند کو اپنا مقام اور مرتبہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جسے وہ اپنی قوم کے اجتماعی ثقافتی مزاج کا تضاد قرار دیتے ہیں۔ انہیں اس بات پر بہت دکھ ہے کہ پختون معاشرے میں منشیات فروش اور بدمعاش قسم کے افراد اور ان کی اولاد کی تو قدر کی جاتی جب کہ فن کار کی اولاد کو لوگ دھتکارتے ہیں اور انہیں’میراثی‘ اور’ڈوم‘ کی اولاد کہتے ہیں۔ گل زارعالم کہتے ہیں کہ کسی کو نقصان پہنچانے سے بہتر ہے کہ اس کے ساتھ تھوڑی سی بھلائی کرلی جائے، چاہے وہ کسی بھی رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو ۔ وہ فن موسیقی کو اپنی محبوبہ سمجھتے ہیں اور اسے چھوڑنے کے بجائے ان بد اعمالیوں، بداخلاقیوں اور برے کاموں سے توبہ کرنے پرزور دیتے ہیں جس نے آج پورے ملک اور معاشرے کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔