اسٹیل مل... خوشحالی سے تباہی تک

سمیرا احمد  بدھ 17 اکتوبر 2018
اسٹیل مل کے بند ہونے سے کسی ایک یا دو کا نہیں، بلکہ ہزاروں گھرانوں کے چولہے بجھ جائیں گے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اسٹیل مل کے بند ہونے سے کسی ایک یا دو کا نہیں، بلکہ ہزاروں گھرانوں کے چولہے بجھ جائیں گے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

دنیا بھر میں سیزنل سیلز لگتی ہیں، کہیں بلیک فرائی ڈے کے نام سے تو کہیں کرسمس کے نام پر۔ لیکن پاکستان کا شمار ان نایاب ممالک میں ہوتا ہے جہاں قومی اداروں کی سیل لگائی جاتی ہے۔ مسلسل نقصان میں چلنے والی پی آئی اے ہو یا پاکستان اسٹیل ملز، ملکی معیشت پر بوجھ بنتے ہی ان قومی اداروں کو واپس کھڑاکرنے سے کہیں زیادہ آسان انہیں بیچ دینا سمجھا جاتا ہے۔

30 دسمبر 1973 کو اُس وقت کے وزیراعظم پیپلز پارٹی کے بانی و قائد ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں روس کے تعاون سے جس اسٹیل مل کا سنگِ بنیاد رکھا گیا تھا، اس کی تباہی کا باقاعدہ آغاز بھی پیپلز پارٹی کے دور میں ہی ہوا۔ یعنی 2008 میں مشرف دور کے بعد جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو وہ مل جو سال 2007-2008 میں سالانہ 9.54 ارب روپے کا منافع دے رہی تھی، اچانک مالی بحران کا شکار ہونے لگی۔ جس کی ایک وجہ پیپلز پارٹی کے دور میں ملازمین کی اندھا دھند بھرتیاں بھی ہے۔ وہ اسٹیل مل جسے چلانے کے لیے صرف 9 ہزار ملازمین درکار تھے، وہاں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ملازمین کی تعداد 17 ہزار پر پہنچ گئی۔ 1.1 ملین ٹن اسٹیل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی اسٹیل مل آج مکمل طور پر بند ہونے کے ساتھ ساتھ 200 ارب روپے سے زائد کی مقروض بھی ہے۔

حکومتی نا اہلی کہیں یا ادارے کے سربراہان میں موجود کرپشن کے اژدھوں کی کارستانی، وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو، 2008 سے  2015 تک 8 سالوں میں 2 حکومتیں بدلیں لیکن کسی کو بند ہوتا قومی ادارہ نظر نہ آیا۔ 2006 میں ملازمین کے شدید احتجاج پر اسٹیل مل کی نجکاری کا معاملہ تو ختم ہوا لیکن ساتھ ہی مل بند ہونے کے راستے بھی کھلتے گئے۔ اسٹیل ملز کی مصنوعات کی لازمی فروخت اور فولاد کی مصنوعات کی خرید کے لیے اسٹیل ملز سے اجازت کا قانون ختم کرتے ہوئے منڈی کو سرمایہ دارانہ مقابلے کے لیے کھول دیا گیا۔ اور یوں جس ادارے کے ملازمین وقت پر تنخواہ اور سال میں دو بونس لیتے تھے، انہیں 2010 میں پہلی بار تنخواہوں میں تعطلی کا سامنا کرنا پڑا، اور اس کے بعد بدستور حالات بگڑتے چلے گئے۔ دھیرے دھیرے پیداوار کم ہوئی اور پھر ختم۔

اب حالات کچھ ایسے ہیں کہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے باعث پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کبھی نیشنل ہائی وے بلاک کرتے ہیں تو کبھی ریلوے ٹریک پر احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔ یوں ہر دو چار ماہ بعد احتجاج کر کے یہ ملازمین ایک دو ماہ کی تنخواہ حاصل کر پاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ملنے والے بیل آؤٹ پیکجز ہی اب ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ دوسری طرف 2000 سے زائد ریٹائرڈ ملازمین گریجویٹی ملنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں جبکہ بیواوں کے واجبات کے کیسز الگ مسائل کا شکار ہیں۔

اسٹیل مل کی رہائشی کالونی اسٹیل ٹاؤن میں موجود راشن کی دکانوں پر قرضداروں کی لمبی لمبی فہرستیں چسپاں ہیں جو اس بات کی غماز ہیں کہ لوگ قرضے تلے دبتے جا رہے ہیں۔ بچوں کی ٹیوشن فیس سے لے کر دودھ کے بل تک، سب ادھار پر چلتا ہے۔ عزتِ نفس مجروح ہوتے دیکھ نہ جانے کتنے لوگ دل کے عارضے میں مبتلا ہو چکے ہیں کئی ایک خودکشی کے کیسز بھی سامنے آئے۔ لیکن حکومت نے نہ ایکشن لینا تھا، اور نہ لیا۔

اسٹیل مل کی اس بدترین حالت کو دیکھتے ہوئے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے اُس وقت کے چئیرمین اسد عمر نے 18 دسمبر 2017 کو چئیرمین نیب کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے پاکستان اسٹیل مل کے بند ہونے کی وجوہات جاننے کےلیے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، جس پر نیب کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کی بربادی کی وجوہات جاننے کے لیے انکوائری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ذمہ داران کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے کیا ان ملازمین کے گھروں کے چولہے جل جائیں گے؟ کیا اسٹیل مل کی بند پڑی بھٹیاں پھر سے فولادی مصنوعات کی پیداوار شروع کر دیں گی؟

نہیں… کبھی نہیں… ان تحقیقات کے ساتھ ساتھ اسٹیل مل کو دوبارہ چلانے پر بھی غور کرنا ہوگا۔ کیوں کہ اسٹیل مل کے بند ہونے سے کسی ایک یا دو کا نہیں، بلکہ ہزاروں گھرانوں کے چولہے بجھ جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

سمیرا احمد

سمیرا احمد

سمیرا احمد نے کیریئر کا آغاز 2017 میں بی ایس ڈگری مکمل ہونے کے بعد ایکسپریس میڈیا گروپ میں کری ایٹیو ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے کیا تھا۔ آج کل سماء ٹی وی کے کری ایٹیو ڈیپارٹمنٹ میں کاپی رائٹر کی حیثیت سے کام کر رہی ہوں۔ ان کا فیس بک آئی ڈی sony.ahmed.58 پر بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔