میڈیا کا سرپٹ گھوڑا

ندیم اکرم جسپال  بدھ 17 اکتوبر 2018
میڈیا ہماری انفرادی و اجتماعی زندگیوں اور تشخص کو جس طرح بگاڑ رہا ہے، اسے روکنا ہوگا ورنہ یہ قوموں کی قومیں نگل جائے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میڈیا ہماری انفرادی و اجتماعی زندگیوں اور تشخص کو جس طرح بگاڑ رہا ہے، اسے روکنا ہوگا ورنہ یہ قوموں کی قومیں نگل جائے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پچھلی صدی کی شاید سب سے اہم ایجادات میڈیا اور سماجی رابطے کا میڈیا ہیں، مگر جو کردار آج میڈیا ادا کر رہا ہے یہ شاید اس کے موجد کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ذہن سازی، کردار سازی، نظریات کا تحفظ یا نظریات سے ارتداد اور انحراف، بلکہ یہاں تک کہ حکومت بنانے اور گرانے میں آج جو کردار میڈیا ادا کر رہا ہے، ماضی میں کسی کی چشمِ تصور میں بھی نہیں تھا۔ محرم کو مجرم، اور مجرم کو محرم بنانے کا کھیل بھی میڈیا بڑی آزادی سے کھیل رہا ہے۔

سوویت یونین کے خلاف جنگ کو ’’جہاد‘‘ اور امریکا کے خلاف ”جہاد“ کو ’’قتال‘‘ بنانے والا بھی میڈیا ہی ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے کہ جس نے یہودی کی داڑھی اور سکھ کی ”پگ“ کو عین مہذب بنا کر پیش کیا جبکہ مسلمان کی داڑھی اور عمامہ کو بنیاد پرستی اور دہشت کی علامت بنا دیا۔ پاکستان میں بھی میڈیا اپنی حیثیت کے مطابق حق اور باطل کو مکدر کرنے کی بھرپور سعی کر رہا ہے۔

جمہوریت اور ’’تھری جی‘‘ (3G) کے آنے سے میڈیا کو وہ آزادی نصیب ہوئی جو کبھی دیوانے کا خواب تھی، جمہوریت نے سوال پوچھنے کا حق دیا اور میڈیا نے آزادیِ رائے کے نام پر بہت کچھ لکھنا، چھاپنا اور دکھانا شروع کردیا۔ مگر ہم جمہوریت اور میڈیا کے لوازمات اور اخلاقیات سے یکسر عاری ہیں۔ بریکنگ نیوز کے نام پر غیر تصدیق شدہ اور جھوٹی خبریں معمول ہیں۔ پچھلے چند ماہ کی خبروں کا تجزیہ کیا جائے تو میڈیا اور سوشل میڈیا کی غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدگی عیاں ہو جاتی ہے۔

کیسے کسی عام شخص کی ویڈیو کو عثمان بذدار بناکر پیش کیا گیا اور قوم کے نوجوانوں نے ثواب کا کام سمجھ کر اسے خوب شیئر کیا۔ پھر ڈیم میں ایک ارب ڈالر دینے کی خبر پھیلائی گئی، جو محض سوشل میڈیا نہیں بلکہ بعض اخبارات نے بھی حکومتی سینیٹر کے نام سے چھاپ دی۔ حال ہی میں قطر سے آئے وفد کی چوری کے بعد ایسا ہنگامہ کھڑا ہوا کہ خدا کی پناہ، کسی شریف آدمی کی تصویر لگا کر اسے ”چور“ بنا کر پیش کیا جاتا رہا، اسی طرح محض نام کی مماثلت کی وجہ سے ملائکہ بخاری کو زلفی بخاری کی بہن بنا کر پیش کیا گیا۔

سوشل میڈیا تو ایسا بے لگام گھوڑا ہے کہ جو لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے اور عزتیں روندتے سرپٹ دوڑ رہا ہے؛ کتنے ہی لوگوں کی جانیں لے چکا، کتنے عزت داروں کو ذلتوں کی دلدل میں دھکیل چکا۔ سوشل میڈیا تو جیسے بندر کے ہاتھ استرا ہے، مگر اس طرح کی خبروں سے بڑے بڑے ناموں کی قلعی کھل گئی ہے۔ میڈیا کی غیر ذمہ داری اور غیر پیشہ ورانہ چہرہ صاف عیاں ہوگئے ہیں۔

میڈیا اور صحافی کا کام خبر دینا اور اس پر غیر جانبدارانہ تبصرہ کرنا ہے، مگر یہاں عجب معاملہ ہے۔ صحافی ہی مدعی ہے، صحافی ہی وکیل ہےاور خود ہی منصف بھی۔ بعض تو ایسے عقلِ کل کہ مذہب کے بارے میں بھی گویا ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا، خارجہ امور پر ان کی دسترس دفترِخارجہ سے بہتر ہے، اور معیشت تو ان کے گھر کی لونڈی ہے۔

سوشل میڈیا کا انفرادی استعمال تو ایک طرف، سیاسی جماعتیں، سماجی رابطے کے ادارے اور این جی اوز جس طرح اپنے مقاصد کےلیے اسے استعمال کر اور کروا رہے ہیں، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اپنے مفادات کےلیے جس طرح بے رحمانہ جھوٹ بولا جا رہا ہے، وہ معاشرے کو نفرتوں، کدورتوں اور انتہاء پسندی کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ یک طرفہ معلومات اور حقائق نئی نسل کے دماغوں میں بھرے جارہے ہیں جس پر نہ بحث مباحثہ ہے نہ تصدیق یا تحقیق۔ نتیجتاً ایک ایسی نسل تیار ہورہی ہے جسے صرف اپنے نظریات حق اور باقی سب باطل اور جھوٹ لگتا ہے؛ جو اپنے مخالف نظریات سننے کی بھی روادار نہیں۔

سیاسی جماعتیں اپنے ووٹوں کی خاطر اپنے آپ کو مجاہد اور باقی جماعتوں کو غدار بنا کر پیش کرتی ہیں، اپنے آپ کو شرافت اور دیانت کا پیکر اور باقیوں کو جھوٹا اور بدعنوان بنا کر پیش کرتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ محض سیاسی یا نظریاتی اختلاف، ذاتی اور شخصی اختلاف میں بدل رہا ہے۔ ایک جماعت کے کارکن دوسری جماعت کے راہنما کے حج اور عمروں کو بھی مشکوک نظروں سے ہی دیکھتے ہیں۔

این جی اوز چند ٹکوں کےلیے پاکستان کا انتہائی منفی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ جو جرائم اور گناہ پوری دنیا میں ہو رہے ہیں، انہیں پاکستان کے حوالے سے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے پاکستان ہی ان تمام گناہوں کی پناہ گاہ اور آماجگاہ ہے۔ گزشتہ سال صرف ایک شہر لندن میں تیزاب پھینکنے کے 700 سے زائد واقعات منظرِعام پر آئے مگر این جی اوز نے اپنے کاروبار کےلیے پاکستان سے چند تصاویر میڈیا پر لاکر ملک کے نام، نظریئے اور تصور کو جو نقصان پہنچایا ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔

میڈیا کی منفی تشہیری مہم کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کا تصور ایسا ہے جیسے ہر وقت مرد عورتوں کو پیٹ رہے ہوتے ہیں، ہر دوسری عورت تیزاب زدہ ہے، اور لوگ کھانے میں بھی بارود اور بم کھاتے ہیں۔

اگر میڈیا کے اس سرپٹ گھوڑے کو روکنے کی کوشش کی جائے تو ایک ہاہاکار مچ جاتی ہے، ایک واویلا شروع ہو جاتا ہے۔ ہو بھی کیوں نہ، کتنوں کے کاروبار اسی سے چلتے ہیں۔ میڈیا ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں اور تشخص کو جس طرح بگاڑ رہا ہے، اسے کہیں تو روکنا ہوگا، کہیں تو بند باندھنا ہوگا ورنہ یہ قوموں کی قومیں نگل جائے گا۔

حکومتی سطح پر تو کچھ نہ کچھ شروع کیا گیا ہے، وزارتِ اطلاعات نے جھوٹی، بے بنیاد اور من گھڑت خبروں کی تردید کےلیے باقاعدہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ”فیک نیوز بسٹر“ کے نام سے ایک اکاٶنٹ متعارف کروایا ہے۔ مگر ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بغیر تصدیق کیے خبر کو پھیلانے کے بجائے تصدیق کرنا شعور کے زیادہ قریب ہے۔ نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ کسی شخص کے جھوٹے ہونے کےلیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بغیر تصدیق، بات کو آگے پھیلادے۔ قرآنِ مجید میں فرمان ہے کہ جب کوئی فاسق تم تک خبر لے آئے تو اس کی تصدیق کر لیا کرو۔

ان احکامات پر کاربند ہونے کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی؛ کیوں کہ جتنی تیزی سے جھوٹ آج پھیل رہا ہے، اتنی رفتار پہلے کبھی نہ تھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ندیم اکرم جسپال

ندیم اکرم جسپال

بلاگر پنجاب یونیورسٹی سے انتظامی امور میں ماسٹر ڈگری حاصل کرکے ایک غیر سرکاری ادارے میں بطور ہیومن ریسورس پروفیشنل کام کررہے ہیں۔ لکھنے کا آغاز فقط شوق کی تسکین کےلیے چند سال قبل سوشل میڈیا سے کیا تھا، اور قوی امید ہے کہ یہ شوق مستقبل قریب میں پیشے کی شکل اختیار کرلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔