تمام ٹی وی چینلوں پرایک ہی ڈراما دکھایا جارہا ہے

محمود الحسن  بدھ 12 جون 2013
اب تو حلقہ ارباب ذوق کی رکنیت ریوڑیوں کی طرح بانٹی جاتی ہے ۔ فوٹو : فائل

اب تو حلقہ ارباب ذوق کی رکنیت ریوڑیوں کی طرح بانٹی جاتی ہے ۔ فوٹو : فائل

انسانوں کی زندگی میں اتار چڑھاؤ اچھنبے کی بات نہیں لیکن بعضوں کے ہاں اس کا تناسب دوسروں سے بہرحال زیادہ ہوتا ہے۔

یونس جاوید کا شمار بھی ایسے افراد میں ہوتا ہے۔ان کی زندگی میں تغیرصرف باہر کی دنیا تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ان کا دل مضطر بھی انھیں کبھی کہیں کبھی کہیں بھٹکاتا پھرا۔ مساجد میں تراویح وہ پڑھاتے رہے۔جہاد کشمیرکے لیے تربیت ان نے حاصل کی۔بیشۂ تحقیق کے سیاح رہے۔ ادبی جریدے کے مدیر رہے۔ ترتیب وتدوین کا کام کیا۔

موصوف نے سارے کام ہی بھلے طریقے سے نمٹائے۔ اب کچھ عرصہ سے لگتاہے، انھوں نے خود کو پورے طور سے فکشن کے لیے وقف کردیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ان کے دو افسانوی مجموعے’’ربا سچیا، رب قدیر‘‘اور ’’آخر جینا بھی توہے‘‘شائع ہوئے۔اول الذکر کتاب کو رائٹر گلڈ کی طرف سے انعام ملا ہے۔ انھیں شکوہ ہے کہ اس انعام کی کہیں خبر تک شائع نہ ہوئی، جس کی وجہ ان کے نزدیک، کسی ادبی لابی سے ان کا تعلق نہ ہونا ہے۔ دو برس قبل ان کا ناول’’کنجری کا پل‘‘ چھپا تو اسے قارئین اور ناقدین دونوں کی توجہ حاصل ہوئی۔ اور اب عنقریب ان کا نیا ناول’’ستونت سنگھ کا کالا دن‘‘شائع ہونے جارہاہے۔

اس ناول کے بارے میں بتاتے ہیں ’’ستونت سنگھ کاکالادن‘‘ کچھ دن میں چھپ جائے گا۔ ستونت سنگھ وہ شخص تھا جس نے اندراگاندھی کو قتل کیا۔ ناول کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ سکھوں سے قائد اعظم نے کہا تھا کہ ان کے مقدس مقامات پاکستان میں ہیں، اس لیے وہ پاکستان سے الحاق کریں۔ ماسٹر تارا سنگھ نے مگر یہ بات نہیں مانی اور لاہور میں یہ نعرہ لگادیا ’جب تک ہے یہ کرپان ، نہیں بنے گا پاکستان۔‘اس نعرے پرمیرے ناول کا ایک کرداراپنا ردعمل یوںظاہر کرتا ہے: ’’اس نعرے نے شام سے پہلے خون خرابا شروع کرا دیا۔بلڈنگیں جلنے لگیں، کرپانیں چلنے لگیں، چھرے گھونپے جانے لگے۔

بس تارا سنگھ اور اس کی چال چلنے والے جیت گئے۔ہر پل لاش گرنے لگی۔انسان درندے بن گئے۔‘‘ میں نے ناول میں دکھایاہے کہ سکھوں کی نئی نسل اس پچھتاوے میں ڈوبی ہے کہ انھوں نے 47 ء میں پاکستان کا ساتھ کیوں نہ دیا۔ ساتھ میں تقسیم سے قبل، اور اس کے فوری بعد میں لاہورکی جو فضا تھی، اسے بیان کیا ہے۔‘‘یونس جاوید نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود فکشن سے اپنے تعلق میں کبھی رخنہ تو نہ آنے دیا، لیکن اس سرگرمی کا دائرہ افسانے تک محدود رہا، جب کہ یہ وہ ہیں، جنھوں نے سولہ برس کی عمر ہی میں اپنا پہلا ناول ’’آخرشب ‘‘لکھ ڈالا تھا۔ناول لکھنے میں اس طویل وقفے کی توجیہ کچھ یوں کرتے ہیں:’’ میں نے بڑی مشکل زندگی گزاری ہے۔ دھکا لگا تو تحقیق کی طرف چلے گئے۔

کسی نے کہا کہ ادھر اتنے پیسے ہیں تو اس طرف لگ گئے۔کسی نے کہا ڈراما لکھ دو تو وہ لکھنے لگے۔مجلس ترقی ادب میں کام کرتا تھا۔ملازمت میں بندہ بزدل ہوجاتا ہے، افسر کی خوشامد کرنا پڑتی ہے، اور کئی طرح کی مصیبتیں ہوتی ہیں، اس لیے اس سارے دور میں افسانہ اور ڈراما تو لکھتا رہا لیکن ناول اس لیے نہیں لکھ سکا، کہ اس کے لیے تو مجھے سال چھ مہینے جم کر بیٹھناپڑتا، جس کی اجازت میرے حالات نہیں دیتے تھے۔‘‘ ان کے خاکوں کا ایک مجموعہ ’’ایک چہرہ یہ بھی ہے‘‘ بھی چھپ چکا ہے۔

فکشن سے ہٹ کریونس جاوید کی پہچان کا معتبر حوالہ ڈراما نویسی ہے۔انھوں نے پی ٹی وی کے لیے کئی یادگار ڈرامے لکھے۔ہمارے ہاں ادیب جب ٹی وی کا رخ کرتے ہیں تو ان میں سے اکثراس دیار کی چکاچوندمیں ایساکھوتے ہیں کہ پلٹ کر نہیں دیکھتے، ان میں سے اکثرکو تومعاشی مجبوری اس کھونٹے سے بندھے رہنے پرمجبوررکھتی ہے، دوسری قبیل میں وہ شامل ہیں،جنھیں شہرت کی چاٹ اور ٹی وی کے لیے اپنی خامہ فرسائی کوادب کا ہم پلہ سمجھنے کا مغالطہ ٹی وی سے جڑے رہنے پرمجبور رکھتا ہے۔

اس ضمن میں مرحوم اشفاق احمدیاد آتے ہیں، جنھیں ان کے قدیمی دوست ممتاز مفتی کہہ کہہ کرتھک گئے کہ ان کا اصل میدان ادب ہے اور ٹی وی پروہ اپنا ٹیلنٹ ضائع کررہے ہیں، لیکن انھوں نے اس مخلصانہ مشورے کو مان کر نہ دیا۔یونس جاویدنے البتہ یہ راز پالیا ہے کہ ٹی وی سے ملنے والا ٹھاٹ یہیں پڑا رہ جائے گااور جس چیز میں باقی رہ جانے کی قوت ہے وہ فکشن ہی ہے۔

ان کے بقول’’تاریخ میں ادب ہی زندہ رہتا ہے۔بڑی سے بڑی فلم اور ڈراما مرجاتا ہے۔چار سو ڈرامے لکھے ، وہ سب کہاں چلے گئے؟ممتاز مفتی نے اشفاق احمد کو جو مشورہ دیا تھا وہ صحیح تھا۔‘‘یونس جاوید کے فکشن سے تاریخ کیا معاملہ کرتی ہے، یہ طے ہونا باقی ہے، قابل قدر بات یہ ہے کہ انھوں نے کم سے کم اپنے لیے درست سمت کا تعین کرکے پیش قدمی شروع کردی۔

فکشن اور ڈراما نگاری کے ساتھ تحقیق سے بھی انھیں علاقہ رہا۔پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں دوسری پوزیشن لینے والے یونس جاوید نے حلقہ ارباب ذوق پر مقالہ لکھا اور ڈاکٹربن کر نجومی کی اس پیش گوئی کو،کہ وہ میٹرک سے آگے نہ بڑھ سکیں گے، کاری ضرب لگائی۔ حلقہ ارباب ذوق سے ان کے عشق کا سلسلہ جوانی میں شروع ہوگیا۔ایک بار اجلاس میں گئے تو انھیں اس منفرد ادبی محفل کا چسکا لگ گیا اور وہ ہر اتوارادھر کا رخ کرنے لگے۔ یہیںان کی ادبی وتقافتی تہذیب ہوئی۔

ان مجلسوں سے جو کچھ بھرپایا اس کا قرض انھوں نے اس عظیم ادبی ادارے پرڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ کر چکانے کی کوشش کی ، جس کو اہل فکرونظر نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔اس کٹھن راہ پرچلے توزیادہ تر لوگوں نے حوصلہ شکنی کی۔اعجازبٹالوی کے پاس وہ رجسٹر تھے،جن میں حلقے کی پندرہ برس کی کارروائیاںدرج تھیں۔انھوں نے یہ رجسٹر کام کے سلسلے میں مستعار لینا چاہے تو ٹکا سا جواب سننے کو ملا ’’سوال ہی نہیں پیدا ہوتاکہ یہ رجسٹر دفتر سے باہر جائیں۔‘‘انھیں پابند کیا گیا کہ اگر وہ ان رجسٹروں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں تو ڈھائی بجے (گرمیوں میں) دفتر آجایا کریں۔

قیوم نظر کے پاس مجلس عاملہ کی کارروائیاں موجود تھیں، ان کے حصول کے لیے بھی یونس جاوید کو پاپڑ بیلنے پڑے، انھیں خوش کرنے کے لیے خاکہ تک لکھنا پڑا۔ یونس جاوید کے خیال میں ’’ قیام کے بعد حلقہ کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ سیکرٹری کے انتخاب میں انتظار حسین کا جیتنا تھا۔ اس سے حلقہ میں ایک خاص گروپ کی برسوں سے جو اجارہ داری چلی آرہی تھی، وہ ختم ہو گئی۔

اب تو حلقہ ارباب ذوق کی رکنیت ریوڑیاںکی طرح بانٹی جاتی ہے، الیکشن سے قبل بہت سے لوگوں کو ممبر بنا دیا جاتا ہے جبکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ کئی معروف ادیب بڑے انتظار کے بعد حلقہ کے ممبر بنے، اور اب تو دو صفحے لکھ کر ، دو نظمیں لکھ لیں تو ادیب بھی بن جائیں اور حلقے کا حصہ بھی۔ اب تو حلقہ ارباب ذوق کا زوال ہی زوال ہے ، اور پھر زوال کا بھی کمال ہے۔‘‘اور اب یونس جاوید کی ادبی وعلمی سرگرمیوں کے بیان کا سلسلہ موقوف کرکے کچھ ان کی ذاتی زندگی کا احوال ، جس کے بعد دوبارہ سے ان کے خیالات کا بیان۔

یونس جاوید نے 23اکتوبر 1944ء کو میاں عبدالحمید کے ہاں آنکھ کھولی، جن کی انارکلی میں اسٹیشنری کی دکان تھی ، اوروہ قلموں کے امپورٹربھی تھے۔ دوسری جماعت میں تھے، جب والد نے اسکول سے اٹھاکر حفظ قرآن کے لیے لاہور کی مشہورچینیاں والی مسجد میں ڈال دیا۔ان کے بقول’’مجھ کو اس وقت یہ اچھا نہیں لگا تھا کہ ایک ہنستے مسکراتے بچے کوگھٹن کے ماحول میں بھیج دیا جائے۔‘‘مدرسے میں بڑا کڑا وقت گزرا۔قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد کئی مسجدوں میں نماز تروایح پڑھائی۔

ساتھ میں تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ والد مزاجاً سخت تھے لیکن ماں ان پر دل وجان سے نچھاورہوتیں۔ پڑھائی کے معاملے میں ان کا حوصلہ بڑھایا اور تعاون کیا، گھر میں ریڈیو سننا ممنوع تھا لیکن انھوں نے بیٹے کو ریڈیو دلایا۔پڑھنے کی چاٹ انھیں بچپن سے تھی،آنہ لائبریری سے کتابیں لاکر پڑھنا معمول رہا۔ وہ والد کی دکان پر بھی وقت دیتے، جس کے ساتھ ہی رسالوں کی دکان تھی، جہاں بڑے بڑے ادیب آتے ، جن میں اشفاق احمد بھی شامل تھے۔ ان کی ادبی زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا، جب میرزا ادیب سے ان کا تعلق استوار ہوگیا اور وہ باقاعدگی سے ’’ادب لطیف‘‘ کے دفتر جانے لگے۔ اس زمانے میں ان کی کہانیاں مختلف معیاری رسالوں میں تو برابر جگہ پارہی تھیں لیکن ’’ادب لطیف‘‘ کے ایڈیٹر میرزا ادیب نے تعلق خاطرکے باوجود انھیں گھاس نہیں ڈالی۔

کبھی ان سے کہانی کا تقاضا نہیں کیا، جس سے یہ بڑے آزردہ رہے۔ان کے بقول’’میرا بڑا دل چاہتا تھا، وہ مجھ سے کہانی مانگیں، وہ میری ایک دو کہانیاں پڑھ چکے تھے،جن سے وہ متاثر نہ ہوئے۔‘‘ آخرکار ’’ادب لطیف‘‘میں کہانی شائع کرانے کا انھیں خود ہی چارہ کرنا پڑا۔افسانہ چھپوانے کے لیے ان کے ’’طریقۂ واردات‘‘کی کہانی سنیے’’میرزا ادیب ایک بار گرمیوں میں اپنے دوست کے ہاں مری گئے تو جاتے ہوئے، مسودے مجھے دے گئے اور ہدایت کی انھیں کاتب کے سپرد کردینا، واپس آجائیں تو پروف پڑھ کے کاپی جڑوالینا۔میں نے تمام کہانیوں کے پروف پڑھے تو خدا شاہد ہے، مجھے لگا کہ ان سب سے اچھی کہانی تومیرے پاس ہے۔میں نے کتابت کرائی اور کہانی کو رسالے کے آخر میں لگادیا کہ ادھر عموماً چھوٹے لکھنے والوں کو چھاپا جاتا۔

پرچہ چھپ کرآیا تو اس جسارت پر میرزاادیب خاصے سیخ پا ہوئے۔ مجھ سے معذرت نامہ لکھوایا گیا۔اس پر میں نے ’’ادب لطیف‘‘ کے دفتر جانا چھوڑ دیا۔اس زمانے میں منیر نیازی ’’ڈائریکٹر‘‘ رسالے کے ایڈیٹربنے تو ہر کہانی کا معاوضہ پندرہ روپے مقرر کیا۔میں’’ ڈائریکٹر‘‘ میں کہانی لکھنے لگا۔ایک روز کہانی دینے جارہا تھا تو میرزا ادیب راستے میں ملے تو پوچھنے لگے کہ کہاں جارہے ہوں، میں نے بتایا کہ ’’ڈائریکٹر‘‘ میں کہانی دینے جارہا ہوں، اس پرانھوں نے کہانی مجھ سے چھین لی اوراصرار کیا کہ پہلے وہ اسے دیکھیں گے۔

کئی روزگزرنے پر میں کہانی لینے ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے یہ بتا کر حیران کردیا کہ میری کہانی’’ ادب لطیف‘‘ کے سالنامے میں تصویر کے ساتھ چھپے گی ۔ دیوار برلن کے بارے لکھی یہ کہانی چھپی تو خط آئے کہ بہت اچھا ترجمہ ہے، اس پر میرزا ادیب کو وضاحت کرنا پڑی کہ کہانی ترجمہ نہیں طبع زاد ہے ، اس لڑکے کو تو انگریزی آتی نہیں، دوسرے دیوار برلن کا معاملہ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد تو کہانی آگئی ہے۔ مجھے خوشی تھی کہ تخیل کی مدد سے میں ایسی کہانی لکھنے میں کامیاب ہوا، جس کو ترجمہ سمجھا جارہا ہے۔اس کہانی کے بعد میرزا ادیب نے مجھے سانس نہیں لینے دیا، مجھ سے مسلسل افسانے لکھواتے رہے۔ میری پہلی کتاب ’’تیز ہوا کا شور‘‘جو1967ء میں شائع ہوئی اس کے زیادہ ترافسانے’’ ادب لطیف‘‘ ہی میں چھپے۔‘‘ ’’ یونس جاوید کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’آوازیں‘‘ اور تیسرا’’میں ایک زندہ عورت ہوں‘‘کے عنوان سے شائع ہوا۔

ٹی وی کے لیے اندھیرا اجالا، پت جھڑ،رنجش، خواب عذاب،سل، کانٹے ، شہرِ مراد، مٹھی بھر آسمان جیسے کامیاب سیریلز اور کانچ کا پل،دھوپ دیوار، وادیٔ پرخار، رگوں میں اندھیرا، پھولوں والا راستہ، ساون روپ، عہد وفااور دیار عشق ، جیسے عمدہ طویل دورانیے کے ڈرامے لکھنے والے یونس جاوید حادثاتی طور پرڈراما نویس بنے۔ معروف شاعر سرمد صہبائی، سے ملنے ان کا پی ٹی وی لاہور سینٹرجانا رہتا۔ایک بار ان سے ملنے گئے تو ادھر ہنگامی طور پر ڈرامے کے اسکرپٹ کی ڈھنڈیا پڑی تھی، سرمد صہبائی نے انھیں ڈراما لکھنے کو کہہ دیا۔ یہ راضی نہ ہوئے کہ اس کام کی انھیں بالکل مشق نہیں تھی، سرمد صہبائی کا موقف تھاکہ کوئی کام ہواسے پہلی بارتوکرناہوتا ہے ۔یہ بات ان کے دل کو لگی اور ڈراما لکھ ڈالا جس کو پسند بھی کیا گیا۔پھرتو خامہ ایسا چلا کہ اوپر تلے کئی ڈرامے لکھ ڈالے۔ 1981ء میں نامورپروڈیوسر محمد نثارحسین کے کہنے پرطویل دورانیہ کا کھیل’’کانچ کا پل‘‘لکھا ،جو بیجنگ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ ڈرامے میں ڈاکٹر کا مرکزی کردار ان کے افسانے ’’رات کی اونچی فصیل‘‘سے ماخوذ تھا۔ افسانے میں پارسی ڈاکٹر ہے لیکن ٹی وی والوں کی خواہش پرڈرامے کے لیے اس کردار کو مشرف بہ اسلام کرکے مسلمان ڈاکٹر کے طور پر دکھایا گیا۔

روحی بانونماز پڑھتے بھی نظر آئی۔یونس جاوید کے بقول، ایسا اس لیے ہوا کہ ’’ضیاء الحق نیا نیا آیاتھا، اس کو خوش کرنے کے لیے۔‘‘ ضیاالحق کا ذکر خیرآیا ہے تو ان کی دور میں متعارف ہونے والی لعنت ہیروئن کا بھی تذکرہ ہوجائے ۔اس لعنت کے بارے میں لوگوں میں آگہی پیدا کرنے کے لیے پی ٹی وی کے جس ڈرامے نے بڑا بنیادی کردار ادا کیا، وہ’’ رگوں میں اندھیرا‘‘ہے۔اس ڈرامے کا خیال انھیں یوں سوجھاکہ ایک روز میڈیکل اسٹور پرہیروئن کے نشے کی عادی لڑکی کو دیکھا تو انھیں رات بھر نیند نہیں آئی۔ پاک ٹی ہاؤس آئے اور ادھر ساتھیوں کو اس موضوع پر لکھنے کی تحریک دلائی توممتاز ادیب انتظار حسین نے ان سے کہا کہ وہ دوسروں کو جو تجویز کررہے ہیں، تو خود کیوں نے کچھ لکھتے۔یہ بات انھیں لڑ گئی اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ہاں! ذمہ داری تو ان کی بھی بنتی ہے۔

اب موضوع پر تحقیق کی اور پولیس کو کہانی کے بیچ میں ڈال کر ’’رگوں میں اندھیرا ‘‘لکھ دیا ۔اس ڈرامے کی کامیابی کے پیش نظر پی ٹی وی والوں نے اس کے بطن سے دو تین مزید ڈرامے نکالنے کو کہا تو انھوں نے تیرہ قسطیں لکھنے کی ہامی بھر لی اور یوں پی ٹی وی کے کامیاب ترین سیریلز میں سے ایک ’’اندھیرا اجالا‘‘کا آغاز ہوگیا۔جب بھی اس کا طے شدہ دورانیہ ختم ہونے کو آتا، انتظامیہ اس کی قسطوں میں مزید اضافہ کردیتی، جس نے یونس جاوید کو زچ بھی کیا۔’’ ’’اندھیرا اجالا‘‘ کے بارے میں بات چیت کرتے بتایا ’’مجھ پر الزام لگا کہ میں تھانوں سے کہانیاں لیتا ہوں، یہ بالکل غلط بات تھی، میرے پاس اتنی فرصت کہاں تھی۔ میں زندگی میں ایک ہی بار تھانے گیاتھا۔ ڈرامے کی کامیابی میں بنیادی کردار اسکرپٹ کا ہے۔ ہندوستان سے مجھے لکھنے کی پیشکش ہوئی، جو میں نے قبول نہیں کی۔ میرے سین اٹھا اٹھا کرانھوں نے فلموں میں ڈالے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔‘‘

یونس جاویدنے چھوٹی سکرین سے بڑی کا رخ بھی کیا لیکن اس بستی میں ان کا جی نہیں لگا اور‘‘بے نظیر‘‘ ’’جھورا‘‘ اور ’’ڈائریکٹ حوالدار‘‘لکھنے پر ہی اکتفا کیا۔ بڑی سکرین کے لیے زیادہ کام نہ کرنے کی وجہ پوچھنے پر بتایا ’’ فلم انڈسٹری میں خراب ماحول کی وجہ سے زیادہ کام نہیں کیا۔ خالص ادیب کے بارے میں ان کے ہاں تعصب ہے، جس کا سامنا، منٹو، اشفاق احمد اور احمد بشیر سب کو رہا۔وہ تازہ خون نہیں چاہتے تھے، اس لیے مرگئے۔اس کے برعکس ہندوستان میں فلم والوں نے راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور خواجہ احمد عباس جیسے پڑھے لکھے لوگ اپنے ساتھ رکھے۔ بیدی کی کہانی،گرم کوٹ تیس ہزار میں بکی۔یہاں قابل لوگوں کو ہٹاکر نالائق لوگوں کو آگے لایا گیا۔‘‘ ’’اور یہ جو ٹی وی ڈرامے کی بربادی ہوئی ہے؟‘‘ ’’ ٹی وی ڈرامے کو کمرشلائزیشن نے برباد کیا۔

ڈرامے سے مصنف نکل گیا، اسے بس آرڈرپر مال تیار کرنے والا سمجھ لیا گیا۔اس پر جو بڑے لکھنے والے ہیں، انھوں نے ڈکٹیشن ماننے سے انکار کیاتوانھوں نے ان لوگوں سے کام لینا شروع کردیا، جنھیں پتا ہی نہیں ڈراما کیا ہوتا ہے۔اس لیے تمام چینلوںپر ایک ہی ڈراما دکھایا جارہا ہے۔ہندوستان میں ہمارے ڈرامے کو مانا جاتا تھا اور اب ہم نے انھیںکاپی کرنا شروع کردیا۔ہندوستان میں ہم سے زیادہ غربت ہے لیکن وہ ڈراموں میں ایسا خاندان دکھاتے ہیں، جس کو دیکھ کر غریب آدمی فرسٹریٹ ہوجاتا ہے، وہ ساڑھیاں اور جیولری دکھاتے ہیں،انھیں پتا ہی ان چیزوں کی مارکیٹ تو پاکستان میں ہے،ہماری بچیاں متاثرہوتی ہیں۔فلم کے ناکام لوگ بھی ڈرامے کی بربادی کے ذمے دار ہیں، ان کی وجہ سے فلم انڈسٹری میں دھول اڑ گئی تو وہ ٹی وی پرآکر رائٹر، ایکٹر اور ڈائریکٹر بن بیٹھے، اور چھوٹی سکرین پر یلغار کرکے اس کا بیڑہ غرق کردیا۔فلم تو ان سے چلی نہیں، اب انھوں نے ہماری سکرین کا بھی ستیاناس کردیا۔مالک سے کہا گیا کہ دو کروڑ لگاؤ ہم ڈھائی کرکے دیں گے۔

انھیں غرض نہیں تھی کہ ڈائریکشن کیا ہوتی ہے۔ کہانی کیا ہوتی ہے ، مکالمے کے اثرات کس چیز کا نام ہے، ریہرسل جس کا پی ٹی وی کے ڈراموں کی کامیابی میں بڑاکردار رہا اس سے بھی پیچھا چھڑا لیا گیا۔ اچھا ڈراما بنانے کے لیے جو ڈسپلن درکار ہوتا ہے وہ ختم ہوگیا۔‘‘ ڈرامانویسی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا’’ ڈراما لکھنے میںادب سے تعلق بڑا معاون ثابت ہوا۔مکالموں میں کم لفظوں میں زیادہ بامعنی بات کہنے کی کوشش کرتا۔بار بار لکھتا۔ کاٹ چھانٹ کرتا۔ کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کی۔ طبعاً تکمیلیت پسند ہوں، اس لیے بنانے سنوارنے میں بہت زیادہ تردد کرتا۔‘‘ ڈاکٹر یونس جاوید تقریباً 35 برس مجلس ترقی ادب سے متعلق رہے۔ مختصر عرصے کے لیے ڈائریکٹر بھی بنے۔ اس ادبی ادارے کے پرچے ’’صحیفہ‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں بخوبی انجام دیں۔ اس ادارے سے وابستگی کے دوران کلاسیکی شاعر امام بخش ناسخ کا کلیات مدون کیا۔ اس ادارے سے ان کی رخصتی بڑے ناخوشگوار انداز سے ہوئی۔

ملازمت کے سلسلے میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی ذمہ داری، احمد ندیم قاسمی اور منصورہ احمد پر عائد کرتے ہیں۔یونس جاوید بہت سے ادیبوں کی نگارشات سے متاثر ہوئے لیکن سب سے بڑھ کروہ راجندر سنگھ بیدی کے قائل ہیں۔یونس جاوید کے پاس اب تو ماشااللہ گاڑی ہے لیکن سالہا سال تک ان کے پاس موٹرسائیکل سوار رہی، جس پر بڑے بڑے ادیبوں نے سواری کی۔ یونس جاویدکے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔بیوی تدریس سے وابستہ رہیں اور کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائرہوئیں۔ زندگی سے مطمئن ہونے کے سوال پر ان کا جواب تھا’’ ’میرا نہیں خیال کہ دنیا میں کوئی شخص مطمئن ہو۔ خاص طور سے اس معاشرے میں جہاں اتنی ناانصافی اور ناہمواری ہے۔ باہر جائیں تو آپ کو انصاف ملے گا۔ سڑک پر پیدل چلنے والے کا احترام ہوگا، لیکن یہاں تو اتنے مسائل ہیں کہ کوئی مطمئن نہیں ہوسکتا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔