پاکستان ریلوے کا لالو پرشاد

جاوید چوہدری  بدھ 12 جون 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

خواجہ سعد رفیق کی آواز بھرا گئی‘ ٹیلی فون پر تصویر نظر نہیں آتی چنانچہ میں ان کے آنسو نہیں دیکھ سکا لیکن آواز بھی ایک تصویر ہوتی ہے اور یہ تصویر بتا رہی تھی اس وقت خواجہ سعد رفیق کی آنکھوں میں آنسو ہیں‘ خواجہ صاحب نے بھرائی آواز میں کہا ’’ جاوید بھائی خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں‘ میں ریلوے کی وزارت میں ایک پیسے کی کرپشن نہیں کروں گا‘‘ میں ان کی بات سن کر جذباتی ہو گیا‘ ہمیں ملک کے ہر شعبے‘ ہر وزارت میں اس قسم کی اسپرٹ چاہیے‘ ہم اگر اپنے خدا کو حاضر اور ناظر جان کر فیصلہ کر لیں ہم خود کرپشن کریں گے اور نہ ہی کسی کو کرنے دیں گے تو ملک کی سمت بھی درست ہو جائے گی اور ہمارے مسائل بھی ختم ہو جائیں گے لیکن جب باڑ ہی فصل کو کھانے لگے‘ چوکیدار چور بن جائے‘ قانون بنانے والے قانون شکنی کو عادت بنا لیں‘ امام مسجد اللہ کے گھر کا پانی بند کر دیں‘ منصف ظالم ہو جائیں اور سیاستدان سیاست کو کاروبار بنا لیں تو پھر بیڑا غرق ہونا نوشتہ دیوار بن جاتا ہے اور ہم اسی بحران‘ اسی صورتحال کا شکار ہیں‘ ہم جانتے ہیں ہم سب ایک درخت کی شاخیں ہیں اور جب تک اس درخت کا تنا مضبوط نہیں ہوگا ہم پر کونپلیں لگیں گی‘ پھول کھلیں گے اور نہ ہی پھل لگے گا اور اگر لگ بھی گیا تو یہ زیادہ دیر تک سلامت نہیں رہ سکے گا مگر ہم اس کے باوجود وہ تنا کاٹ رہے ہیں جس کی سلامتی ہماری سلامتی کی بنیاد ہے‘

دنیا میں آپ کو شاید ہی کوئی ایسا جانور ملے گا جو اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے لیے اپنے بازو‘ اپنی ٹانگیں‘ اپنے گردے‘ اپنا جگر‘ اپنا دل اور اپنا دماغ نکال کر بھون کر کھا جاتا ہو‘ آپ کو کوئی ایسا درخت بھی نہیں ملے گا جس کی شاخیں اس کا تنا اور جڑیں کھا رہی ہوں مگر ہم وہ درخت‘ وہ جانور ہیں جو اپنی ہوس کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے اپنا جسم کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں اور ہمارے ہاتھوں‘ ہمارے ناخنوں‘ ہمارے دانتوں اور ہمارے ہونٹوں پر اپنا خون لگا ہے مگر ہم اس کے باوجود اللہ سے شکوہ کرتے ہیں یہ ہماری دعائیں نہیں سنتا‘ یہ ہم پر رحم نہیں کرتا‘ یہ ہماری حالت نہیں بدلتا‘ ہم یہ شکوہ کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھوں سے کعبہ گرانے والوں کی دعائیں نہیں سنا کرتا۔

اس کی سلطنت میں ظالموں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور ہم ظالم بھی ہیں‘ ہوس کار بھی اور کوتاہ فہم بھی کیونکہ ہم سمجھتے ہیں یہ ملک ہمارا ملک نہیں‘ ہم دوسرے خطوں‘ دوسرے ملکوں اور دوسری دنیاؤں سے آئے ہوئے وہ آقا ہیں جو اس زمین کا مال لوٹیں گے اور انگریزوں کی طرح اپنے اپنے وطنوں کو چلے جائیں گے اور یہ سوچتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں جو شخص اپنی ماں کا دوپٹہ کھینچتا ہے یہ پوری زمین اس کے لیے اجنبی بن جاتی ہے‘ یہ کھرب پتی ہونے کے باوجود تیونس کے معزول صدر زین العابدین‘ مصر کے حسنی مبارک اور شام کے بشارالاسد کی طرح ذلیل اور رسوا ہو کر رہ جاتا ہے اور یہ زمین‘ 245 ممالک کا یہ گلوب اس کے لیے سانپوں کا بل بن جاتا ہے اور یہ سسک سسک کر آخری سانس لیتا ہے‘ ہم اگر خود کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں ملک کو بچانا ہو گا اور ملک کو بچانے کے لیے خواجہ سعد رفیق کی طرح خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا ہم ایک روپے‘ ایک دھیلے کی کرپشن کریں گے اور نہ ہی کسی کو کرنے دیں گے‘ دنیا کی ہر تبدیلی کا آغاز اچھی نیت سے ہوتا ہے اور ہم نے اگر یہ نیت کر لی تو ہماری نظروں کے سامنے تمنا کی خشک ٹہنیاں ہری ہوجائیں گی‘ وقت کے خشک دریا میں امیدوں کا پانی موجیں مارنے لگے گا۔

ہم اب آتے ہیں ریلوے کی طرف‘ پاکستان ریلوے اس وقت دنیا کے بدترین ریلویز میں شمار ہوتا ہے‘ ہماری بدقسمتی ملاحظہ کیجیے ہم سے ایتھوپیا کا ریلوے بھی بہتر پرفارم کر رہا ہے‘ افغان حکومت اس افغانستان کو ریلوے لائن سے منسلک کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا چاند پر ریل کا ٹریک بچھایا جا سکتا ہے مگر افغانستان میں نہیں مگرہم نے اپنی ریلوے کو کباڑ خانہ بنا دیا‘ ہمارا ریلوے دنیا کے قدیم ریلویز میں شمار ہوتا ہے‘ انگریزوں نے مئی 1861ء میں اس خطے میں ریل کی پٹڑی بچھائی اور کمال کر دیا‘1947ء کو ریلوے دو حصوں میں تقسیم ہوا‘ 55 ہزار کلومیٹر پٹڑی انڈیا کے پاس رہ گئی اور آٹھ ہزار کلومیٹر پاکستان کے حصے آ گیا.

انڈیا نے اسے ایک لاکھ چودہ ہزار کلومیٹر تک پہنچا دیا جب کہ ہم اسے بمشکل 11 ہزار کلومیٹر تک پہنچا سکے‘ انڈیا میں آج روزانہ 14 ہزار ٹرینیں چلتی ہیں جب کہ ہماری ٹرینیں سو سے کم ہو چکی ہیں‘ بھارت میں روزانہ 3 کروڑ لوگ ٹرینوں پر سفر کرتے ہیں جب کہ پاکستان میں ان کی تعداد 60 ہزار ہے‘ بھارت میں روزانہ 3 ملین ٹن سامان مال گاڑی کے ذریعے دوسرے شہروں تک پہنچایا جاتا ہے‘ پاکستان میں اس کا وزن صفر ہو چکا ہے‘ پاکستان کا ریلوے روزانہ 10 کروڑ روپے کا نقصان کرتا ہے ‘ انڈیا کا ریلوے روزانہ 80 کروڑ کماتا ہے‘ یہ رقم سالانہ ہزاروں کروڑ روپے سے زیادہ بنتی ہے چنانچہ ہمارا ریلوے آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس کو بچانے کا اب واحد طریقہ یہ ہے خواجہ سعد رفیق خود کو ریلوے کے لیے وقف کر دیں اور یہ اس کے لیے سچی تڑپ کا مظاہرہ کریں، اللہ تعالیٰ کرم کرے گا اور ہماری ٹرینیں ٹریک پر آ جائیں گی۔

انڈیا کے ریلوے نے 9سال میں ترقی کی‘ یہ بھی مئی2004ء تک اسی قسم کی صورتحال کا شکار تھا لیکن پھر بہار کے سابق وزیراعلیٰ لالو پرشاد نے ریلوے کی عنان سنبھالی اور 5 برسوں میں کمال کر دیا‘ یہ اتنا بڑا کمال تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہارورڈ نے لالوپرشاد پر باقاعدہ ریسرچ کرائی اور اس کے طریقے کار کو ’’ لالو میتھڈ‘‘ کا نام دیا‘ ہماری ریلوے کیونکہ انڈین ریلوے کی بہن ہے لہٰذا اگر خواجہ سعد رفیق کراچی سے پشاور آنے والی ٹرین میں سوار ہو جائیں اور سارا راستہ ’’ لالو میتھڈ‘‘ کا مطالعہ کرتے رہیں تو مجھے یقین ہے یہ راولپنڈی پہنچنے سے قبل پاکستان ریلوے کو دوبارہ ٹریک پر لانے کا لائحہ عمل طے کر چکے ہوں گے‘ میں چند منٹوں میں اس میتھڈ کی چند خوبیاں خواجہ صاحب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.

2004ء تک انڈین ریلوے خسارے میں تھی‘ لالو پرشاد آیا اور اس نے فوری طور پر چند اقدامات کیے‘ اس نے دفتر بیٹھنا بند کر دیا‘ وہ صبح گھر سے نکلتا اور کسی نہ کسی ٹرین میں سوار ہو جاتا اور اسے راستے میں جو مسائل نظر آتے تھے وہ ٹیلی فون پر متعلقہ شعبوں کو ہدایات کرتا جاتا اور ٹرین کے منزل پر پہنچنے سے قبل یہ مسائل حل ہوجاتے‘ وہ ریلوے حکام سے تمام ملاقاتیں ریلوے اسٹیشنوں پر کرتا تھا‘ سیکریٹری سے لے کر کلرک تک تمام ملازمین ریلوے اسٹیشن پر آتے تھے اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر جواب دیتے تھے‘ لالوپرشاد نے قاعدہ بنا دیا ‘وزیر سمیت ریلوے کا کوئی اہلکار ہوائی سفر نہیں کرے گا‘ یہ بسوں اور ویگنوں میں بھی سوار نہیں ہوں گے‘ یہ ریل کے ذریعے سفر کریں گے‘ اس نے مال بردار گاڑیوں میں بھی اضافہ کر دیا اور ان کے کرائے بھی گھٹا دیے‘ انڈین ریلوے مال بردار گاڑیوں کو ترجیح دیتا تھا چنانچہ مال برداری کا 90 فیصد حصہ ریلوے کو مل گیا‘ اس سے ریلوے کا خسارہ ختم ہو گیا‘ اس نے ٹرینوں کو وقت پر لانے اور لے جانے کے لیے عجیب تکنیک استعمال کی‘ اس نے ملک بھر کے تمام نوجوانوں کے لیے اسکیم متعارف کرا دی‘ آپ اگر جاب انٹرویو کے لیے جا رہے ہیں تو کال لیٹر دکھائیں اور ٹرین پر مفت سفر کریں‘ اس اسکیم کے رد عمل میں تیس ہزار نوجوان روزانہ ٹرینوں کے ذریعے سفر کرنے لگے‘ ٹرینوں پر رش ہو گیا‘ ان نوجوانوں میں ریلوے کے اہلکاروں کے صاحبزادے بھی شامل ہوتے تھے چنانچہ اہلکاروں کو احساس ہو گیا اگر ٹرین لیٹ ہو گئی تو ان کے بچے انٹرویو کے لیے نہیں پہنچ سکیں گے اور یوں انھیں ملازمت نہیں ملے گی‘ یہ احساس آہستہ آہستہ بڑھتا رہا یہاں تک کہ یہ ٹرین میں سوار ہر نوجوان کو اپنا بچہ سمجھنے لگے اور یوں ٹرینوں کی تاخیر کا ایشو ختم ہو گیا.

لالو پرشاد نے تمام ریلوے اسٹیشنوں کی کینٹینوں سے چینی‘ پلاسٹک اور دھات کے برتن اٹھوا دیے‘ اس نے لازم قرار دے دیا ریلوے اسٹیشنوں پر صرف اور صرف مٹی کے برتن استعمال ہوں گے‘ یہ فیصلہ بظاہر بے وقوفانہ لگتا ہے مگر اس نے آگے چل کر 25 ہزار دیہات کا مقدر بدل دیا‘ ریلوے اسٹیشنوں کے گرد آباد دیہات میں کمہاروں نے دھڑا دھڑ مٹی کے برتن بنانا شروع کر دیے‘ یہ برتن روز ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے لگے‘ مٹی کے برتن کیونکہ جلد ٹوٹ جاتے ہیں چنانچہ ان کی سپلائی لائین لمبی ہوتی ہے اور یوں دیہات میں پیسے آنے لگے‘ انڈین ریلوے لائن کے اردگرد موجود 25 ہزار گاؤں اس وقت مٹی کے برتنوں کی منڈیاں بن چکے ہیں اور یہ لوگ سالانہ سو ارب روپے کے برتن بناتے اور بیچتے ہیں‘ لالو پرشاد نے ریلوے انجنوں کی انشورنس بھی کرا دی‘ اس نے انجنوں کی مرمت‘ موبل آئل کی تبدیلی اور اوورہالنگ کا کام پرائیویٹ کمپنیوں کو دے دیا‘ اس نے ریلوے کا عملہ کم کر دیا اور سروسز بڑھانی شروع کر دیں چنانچہ صرف پانچ برسوں میں خسارے کا شکار ریلوے خزانے کو روزانہ 80 کروڑ روپے کما کر دینے لگا۔

خواجہ سعد رفیق اگر لالو پرشاد کی پلاننگ کا مطالعہ کر لیں‘ یہ لالو پرشاد کو پاکستان بلا لیں یا پھر خود بھارت جا کر لالو پرشاد سے ملاقات کر لیں اور ان کی زبانی کامیابی کی یہ ساری داستان سن لیں تو مجھے یقین ہے ہم پاکستان ریلوے کو ایک برس میں پہیوں پر کھڑا کر سکتے ہیں‘ خواجہ سعد رفیق اگر تھوڑا مزید وقت دے دیں اور یہ چیک ریپبلک کی اسٹوڈنٹ ٹرین کی کہانی پڑھ لیں اور اس معاملے میں چیک ریپبلک کے سفیر سے ملاقات کر لیں تو یہ جدید ترین ریلوے کی بے شمار پریکٹیکل ٹپس سیکھ سکتے ہیں‘دنیا میں طریقہ کار اور تکنیکس موجود ہیں بس خواجہ صاحب کو اپنی ذات ریلوے کے لیے وقف کرنا ہو گی‘ انھیں پاکستان کا لالو پرشاد بننا ہو گا‘ ریلوے کی تمام منزلیں آسان ہو جائیں گی ورنہ دوسری صورت میں پاکستان ریلوے بند ہو جائے گا اور اگر یہ ایک بار بند ہو گیا تو شاید پوری قوم مل کر دوبارہ ایک ٹرین نہ چلا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔