اس شخص کے لچھن کچھ اچھے نہیں لگتے
پرویز خٹک صوبہ کے پی کے (خیر پہ خیر) کے وزیراعلیٰ بن چکے ہیں چونکہ اس کی گزشتہ شہرت بھی کچھ خاص اچھی نہیں ہے اس لیے...
June 12, 2013
پرویز خٹک صوبہ کے پی کے (خیر پہ خیر) کے وزیراعلیٰ بن چکے ہیں چونکہ اس کی گزشتہ شہرت بھی کچھ خاص اچھی نہیں ہے اس لیے ہم اپنی چونچ اور پنجوں کو ریت میں رگڑ رگڑ کر تیز کر رہے ہیں کیوں کہ گذشتہ حکومت نے ہم سے اتنا کام لیا اتنا کام لیا کہ پنجے اور چونچ کند ہو کر رہ گئے ہیں اور انھیں دوبارہ کام میں لانے سے پہلے کچھ سان پر چڑھانے اور پانی وغیرہ دینے کی ضرورت ہے اور پرویز خٹک کی گزشتہ شہرت سے ہمیں ڈر تھا کہ اس مرتبہ ہمیں پہلے سے بھی زیادہ پنجوں اور چونچ کو استعمال کرنے کی ضرورت ہو گی، ویسے گذشتہ شہرت کچھ زیادہ قابل اعتبار چیز بھی نہیں ہے اس میں اکثر تو محض جھوٹ ہی ہوتا ہے لیکن اگر سچ بھی ہو تو آدمی کے سُدھرنے اور بگڑنے کے لیے وقت ہی کتنا چاہیے ہوتا ہے لمحوں میں سادھو شیطان اور شیطان سادھو ہو سکتا ہے جیسا کہ ہمارے ساتھ پچھلی حکومت میں ہوا ان لوگوں کی شہرت تو بڑی اچھی تھی بلکہ کچھ تو دعویٰ تھا کہ
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
ویسے کیا خوب صورت اتفاق ہے واقعی ان کے دامنوں کو نچوڑ نچوڑ کر ''فرشتے'' (گزشتہ سے پیوستہ حکومت کرنے والے) وضو ہی کیا کرتے تھے، وزیر اعلیٰ تو گزشتہ حکومت کا اتنا پیارا اور معصوم سا تھا جیسے ابھی ابھی کسی ''کلی'' نے آنکھ کھولی ہو
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
تری آنکھوں کی نیم بازی سے
لیکن اس شخص کے عزائم ہمیں کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے ہیں ایک دو اچھے اچھے اعلانات کرنے تک تو بات ٹھیک تھی مثلاً جب انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنے صوابدیدی اختیارات اور فنڈز استعمال نہیں کریں گے تو اس وقت ہمارا ماتھا تھوڑا سا ٹھنکا تھا کہ سارے فسادات کی جڑ تو یہ صوابدیدی اختیارات اور فنڈز ہوتے ہیں اگر یہ استعمال نہیں کریں گے تو پھر ہم ان کو پکڑیں گے کہاں سے۔۔۔ یہ وزیر اعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات اور فنڈز ہی تھے کہ کتنے ''معصوموں'' کو ایس ایم ایس بنا دیا اور کتنوں کو ہماری بلی ہمیں ہی ''میاؤں'' پر تیار کیا، لیکن پھر بھی سوچا کہ بیان کا کیا ہے وہ تو ہم بھی دے سکتے ہیں اور یہ ابھی ابتدائے عشق ہے آگے چل کر دیکھا جائے گا، لیکن پھر ایک اور اعلان نے چونکنے پر مجبور کر دیا کہ نئے وزیر اعلیٰ نے سیکریٹریٹ کا دورہ کر کے ملازمین کو سرکار کے بجائے اپنے ملازم بنانے کی کوشش بھی کی اور اب تو حد ہو گئی وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچنے پر انھوں نے ''گارڈ آف آنر'' لینے سے بھی انکار کر دیا جو ایک طرح سے سرکاری اہلاً و سہلاً و مرحبا ۔۔۔ ہم بھی کھائیں تو بھی کھا ۔۔۔ ہوتا ہے ۔
حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ پولیس افسران نے اس گارڈ آف آنر کے لیے کتنے دنوں سے تیاری کی ہو گی اور کتنے بے چارے سپاہیوں کو ڈس آنر کیا ہو گا لیکن وزیر اعلیٰ نے گارڈ کا آنر لینے سے انکار کرتے ہوئے ان کو ''اپنا سا منہ'' لے کر واپس جانے پر مجبور کر دیا، حد سے بھی زیادہ حد بلکہ حدود اس وقت ہو گئی جب انھوں نے دو گاڑیوں کے سوا گاڑیوں کے پورے ''سی ایم بیڑے'' کو بیک جنبش سر فارغ کر دیا، ہمارے دل میں ایک ہوک سی اٹھی کیوں کہ سی ایم کی گاڑیوں میں ایک مرتبہ اس بلٹ پروف گاڑی کو بھی دیکھا جو ہو بہو اپنے رنگ میں اپنے ڈھنگ اور اپنے ترنگ میں کنڈولیزا رائس لگتی تھی جس دن ہم نے اس گاڑی کو دیکھا اور اس کی قیمت کے بارے میں سنا تھا اس دن سے ہم مسلسل ایک ہفتے تک ایسے خواب دیکھتے رہے۔
جس میں کبھی کنڈولیزا رائس اس گاڑی جیسی نظر آتی تھی اور کبھی وہ گاڑی کنڈولیزا رائس کا قد و چہرہ اپنا کر شاہ خوباں بنتی تھی، اس خبر سے تو ہمارا دل ہی ٹوٹ گیا اور اس شخص کا واقعہ یاد آیا جو شادی کا از حد تمنائی تھا لیکن ادھیڑ عمر ہونے کے باوجود یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی تھی کسی جگہ اس نے ایک نوجوان عورت کی لاش دیکھی جسے کسی نے قتل کر دیا تھا، پولیس والے اپنا کام کر رہے تھے اور اکٹھی ہونے والی بھیڑ طرح طرح کی چہ میگوئیاں کر رہی تھیں لیکن وہ شخص ایک طرف کھڑے ہو کر لاش کو دیکھ دیکھ کر خود کلامی کر رہا تھا، کہ ظالمو اتنی فالتو تھی تو مجھے دے دیتے بے چاری کو قتل کیوں کر دیا۔
نئے وزیر اعلیٰ نے بھی اگر گاڑیوں کو رد کرنا ہی تھا تو ایک آدھ کو ادھر کھسکا دیتے کسی کا بھلا ہو جاتا تھا اور انھیں کچھ بھی نقصان نہ ہوتا، لیکن ہاں یاد آیا وہ ایسا بھی کیسے کر سکتے تھے صوابدیدی اختیارات اور فنڈز سے تو وہ پہلے ہی دست برداری کا اعلان کر چکے تھے کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلے ان گاڑیوں کا معاملہ نپٹاتے اور کسی کا بھلا کرتے پھر اس کے بعد صوابدیدی اختیارات اور فنڈات سے دستبرداری کا اعلان کرتے۔
سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جو یا ہوں جواہر کے
جگر کیا ہم نہیں رکھتے جو کھودیں جا کے معدن کو
لیکن کوئی بات نہیں وہ یہ خوش نما خوش بیان اور خوش الحان قسم کے اعلان کر کے مواخذہ کے حق سے بچ تو نہیں سکتے کبھی تو چوکیں گے اور اس وقت ہماری چونچ اور پنجے دھار پکڑ چکے ہوں گے لیکن دل میں ایک دبدا سی ہے اگر یہ نیا شخص اس نئی روش پر مستقل چل پڑا تو؟ یہ کچھ اچھے لچھنوں کے آثار نہیں لگتے ۔۔۔ اور اس کے ارادے قطعی خطرناک دکھائی دیتے ہیں اگر یہ اسی طرح وزیر اعلیٰ کے اپنے اختیارات صوابدات فنڈات اور سہولیات کو ایک ایک کر کے چھوڑتے رہے تو کسی دن ہمارے ہاتھ سے نکل ہی جائیں، وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ جیل کا ایک قیدی جیلر کی نظر میں آ گیا پہلے یہ قیدی بیمار رہا تو اس کا اپنڈے سائٹس نکالا گیا پھر ایک گردہ نکال کر پھینک دیا گیا، دانت خراب ہوئے تو سارے دانت بھی نکال دیے گئے ہاتھ مشین میں آ گیا تو اسے بھی کاٹا گیا پھر اچانک اس کی ایک ٹانگ کو شوگر کے باعث کاٹ دیا گیا، جیلر نے ایک دن ڈاکٹر سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا مجھے تو لگتا ہے یہ شخص بیمار ویمار کچھ نہیں ہے بلکہ نہایت چالاکی سے قسطوں میں جیل سے فرار ہو رہا ہے، یہ شخص جو اپنے آپ کو وزیر اعلیٰ کہہ رہا ہے کہیں قسطوں میں ''عام آدمی'' تو نہیں بن رہا ہے اگر ہمارا یہ شبہ صحیح ہے تو ہم جو یہ چونچ اور پنجے تیز کر رہے ہیں ان کا کیا کریں گے کیوں کہ ہمارا تو سارا اثاثہ ہی یہ چونچ اور پنجے ہیں دُم تو ہماری ہے ہی نہیں ورنہ پھر کیا غم تھا کسی کے گرد بھی ہلانے لگتے، لیکن ازلی ابدی اور پیدائشی لنڈورے ہیں لے دے کر یہ چونچ اور پنجے ہی تو سارا ہست و نیست ہے اور یہ شخص اس کی زد میں مسلسل باہر نکلا جا رہا ہے ارے لوگوں اسے روکو یہ کیا کیا کر رہا ہے۔