چند غور طلب پہلو

مقتدا منصور  بدھ 12 جون 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ہمارے یہاں ایک عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ لارڈ میکالے ہماری مشرقی اقدارکا دشمن تھا، جس نے انگریزی تعلیم رائج کرکے ہم سے ہماری شناخت چھین لی۔ یہ تصور جہل آمادگی پر مبنی ہے،کیونکہ اس پر الزام تراشی کرتے وقت ہم سیکڑوں برسوں پر محیط اس علمی، سیاسی ، سماجی اور ثقافتی جمودکو بھول جاتے ہیں، جوہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں نے اس خطے پر مسلط کر رکھا تھا ۔

ہم یہ بھی فراموش کرچکے ہیں کہ جس وقت گیلیلو زمین کو گول ثابت کرنے کے الزام میں چرچ سے سزا بھگت رہاتھا، برصغیر فکری جمود کی بدترین صورتحال سے دوچار تھا۔جب نیوٹن قوانین حرکت ترتیب دے رہاتھا، اکبر اعظم کے درباری تان سین خان کی دھنوں سے محظوظ ہورہے تھے۔فکری تفاوت کے فرق کااندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ جس زمانے میں ممتاز محل کا دوران زچگی انتقال ہوا،اسی زمانے میں آسٹریاکی ملکہ بھی دوران زچگی انتقال کرگئیں۔شہنشاہ ہند نے اپنی چہیتی بیگم کی یاد میں دنیاکا ساتواں عجوبہ تاج محل تعمیر کرایا، جب کہ آسٹریا کے بادشاہ نے جدید سہولیات سے آراستہ میٹرنٹی ہومز کے قیام کی منظوری دی،تاکہ ہر خاتون کو دوران زچگی مناسب طبی دیکھ بھال اور ادویات میسر آسکیں۔یہ سوچ کا وہ بنیادی فرق تھا، جو مغربی دنیا اور جمود پذیر ہندوستان میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔

یورپ جس نے ابن رشدکی تحاریرکی وجہ سے مردہ یونانی فلسفہ تک رسائی حاصل کی تھی،دسویں صدی سے علم وآگہی کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہوجاتا ہے۔برطانیہ گیارہویں صدی میں آکسفرڈ یونیورسٹی جیسا معتبرتعلیمی ادارہ قائم کرلیتا ہے۔برطانیہ میں آئین سازی کا عمل 1215ء میں میگناکارٹا پر کنگ جان اول کے دستخطوں سے شروع ہوجاتا ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب پوری دنیا پسماندگی کے اندھیرے غار میںپڑی ہوئی تھی اور یورپ کروٹ بدل کر بیدار ہورہاتھا۔ہر شعبہ حیات کے لیے نئے نئے قوانین تشکیل پارہے تھے ۔ماہرین عمرانیات وقانون اس بات پر متفق ہیں کہ قوانین جامد نہیں ہوتے ،جب معاشرہ ارتقائی عمل سے گذرتا ہے، تو اس کی ضروریات کے مطابق قانون سازی کی جاتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج اپنی ضروریات کے مطابق قوانین تشکیل دیتا ہے،ان میں ترمیم واضافہ کرتا اور فرسودہ قوانین سے جان چھڑاتا ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی جوسولہویں صدی سے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تجارتی کوٹھیاں قائم کرچکی تھی،1757ء میں پلاسی کے میدان میں نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال پر قابض ہوچکی تھی۔1799ء میںٹیپوسلطان کو شکست دے کر جنوبی ہند کے بڑے حصے کو اپنے زیر تسلط لاچکی تھی۔یوں انیسویں صدی کے آتے آتے پورے ہندوستان پر اس کی کہیں بالواسطہ،کہیں بلاواسطہ اجارہ داری قائم ہوچکی تھی۔1834ء لارڈٹامس بیبنگٹن میکالے گورنر جنرل کی ایڈوائزری کونسل کے رکن کی حیثیت سے ہندوستان آئے تو دو اہم کارنامے سرانجام دیے۔

اول، کرمنل پروسیجر کوڈ کا مسودہ تیار کیا۔ دوئم، ایسٹ انڈیاکمپنی کے زیر اثر ہندوستان کے لیے ایک جامع تعلیمی پالیسی مرتب کی۔ان کے بنائے ہوئے قوانین پر1857ء میں جنگ آزادی شروع ہوجانے کی وجہ سے عملدرآمد نہیں ہوسکا۔لیکن ہندوستان پر مکمل قبضے اور براہ راست تاج برطانیہ کے زیر اثر آنے کے بعد1860ء میں انڈین پینل کوڈ (IPC)، 1872ء میں کرمنل پروسیجر کوڈ(Cr. P.C) اور 1909ء میں سول پروسیجر کوڈ(CPC) منظورہوکر نافذ ہوئے۔یہ تمام کوڈز آج بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نائیجریا اور زمبابوے کے قوانین کا حصہ ہیں۔

جو نظام تعلیم اس وقت پورے ہندوستان میں رائج تھا،اس سے ایک طرف ہندوؤں میں متروک ہوتی سنسکرت کے پنڈت پیدا ہورہے تھے،جب کہ دوسری طرف عربی وفارسی کے وہ ملاّ پیدا ہورہے تھے،جو عصری تقاضوں سے قطعی نابلد تھے۔ لارڈ میکالے ہندوستان میں دی جانے والی تعلیم کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچاتھاکہ جس تعلیم پر اہل ہند فخر کرتے ہیں،وہ ایک فضول مشق اور وقت کا زیاں ہے۔وہ انگریزی کا تقابل سنسکرت اور عربی سے کرتے ہوئے ثابت کرتا ہے کہ موخرالذکردونوں زبانیںسوائے شاعری اور قصہ گوئی کی رطب اللسانی، اپنے اندر معلومات کا کوئی ذخیرہ نہیں رکھتیں۔

اس کے برعکس انگریزی کی وسعت میں جدید سائنسی علوم کی وجہ سے اضافہ ہورہاہے۔اس کے علاوہ وہ برطانوی (مقبوضہ) علاقوں میں سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید سماجی علوم کی تدریس کی وکالت بھی کرتا ہے، تاکہ ان باشندوں کے شعور وآگہی میں اضافہ ہوسکے اور وہ کارآمد انسان بن سکیں۔اگر لارڈ میکالے کے تصور تعلیم کا غیر جانبداری کے ساتھ ناقدانہ جائزہ لیاجائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مشرقی تعلیم جس پر قدامت پسند رہنما اصرار کرتے رہے ہیں ،سنسکرت کے ماہر ہندو پنڈت اور عربی وفارسی کا روایتی مولوی پیدا ہوتا ہے، جب کہ جدید انگریزی وعصری تعلیم کی بدولت ہندوستان کے عوام میں زندگی برتنے کا شعور اور آزادی کے معنی و مطالب سے آشنائی ہوسکی۔ یہ جدید تعلیم ہی کا ثمر تھا کہ ہندوستان میں گاندھی، جناح، نہرو اور اقبال جیسی شخصیات پیدا ہوئیں،جنہوں نے ہندوستانیوں میں آزادی کے جذبے کو اجاگر کیا۔

چنانچہ لارڈمیکالے نے 1834ء میں برٹش انڈیاکے لیے ایک جامع اور مربوط تعلیمی پالیسی ترتیب دی جس میں جدید عصری علوم کی تدریس اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے پر زور دیا۔ان کی پالیسی کی روسے پورے ہندوستان میں تحصیل کی سطح پر ہائی اسکول کا قیام، ضلع کی سطح پر کالج اور ڈویژن کی سطح پر اعلیٰ تعلیمی ادارے کا قیام شامل تھا۔اس پالیسی کے تحت پورے ہندوستان میں اسکولوں اور کالجوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا اور مختلف حصوں میں یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا۔ان تعلیمی اداروں میں فزکس، کیمسٹری، بیالوجی اور ریاضی کے علاوہ تاریخ، جغرافیہ، شہریت ،فلسفہ،سیاسیات اور ادب جیسے مضامین کی تدریس شروع ہوئی۔انگریز حکمرانوں نے دوسرا اہم کام یہ کیا کہ سرکاری سطح پر تعلیمی ادارے قائم کرنے کے علاوہ نجی شعبے میں اسکول سے یونیورسٹی کے قیام کی حوصلہ افزائی کی۔ اس طرح پورے ہندوستان میں جدید عصری تعلیم کے معیاری ادارے قائم ہونا شروع ہوئے۔

اس کی اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ سرکار ہند 1857ء سے1947ء کے دوران پبلک سیکٹر میں 7یونیورسٹیاں قائم کرنے پر مجبور ہوئی۔ جن میں کلکتہ ،مدراس اورممبئی یونیورسٹیوں کا قیام 1857ء میں عمل میں آیا۔پنجاب یونیورسٹی1882،الہ آباد یونیورسٹی1887،پٹنہ یونیورسٹی 1917 اور ڈھاکہ یونیورسٹی 1920میں قائم ہوئیں۔جب کہ نجی شعبے میںبیسویں صدی کے آغازمیں تین جامعات قائم ہوئیں۔1916ء میں ہندو یونیورسٹی بنارس،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ1920ء میں مکمل یونیورسٹی بنیں۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی بنیاد 1875ء میں محمڈن اینگلو اورینٹیل کالج کے طور پر رکھی گئی ،جسے 1920ء میں جامعہ کا درجہ دیا گیا۔ان تمام جامعات میں نیچرل سائنسز کے مضامین کے ساتھ سوشل سائنسز کے مضامین بھی پڑھائے جاتے تھے اور تحقیقی عمل بھی ہوتا تھا۔

چند روز پیشتر اسلامی نظریاتی کونسل نے DNAٹیسٹ کو زنا بالجبر کے کیس میں حتمی شہادت قبول کرنے سے انکار کردیا۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس کونسل میں موجود علماء ان سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں سماجی ڈھانچے پر مرتب ہونے والے اثرات سے غالباً نابلند ہیں۔اصولی طور پر یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میںکونسل کے اراکین کے لیےOrientation پروگراموں کا اہتمام کرے،تاکہ وہ ان تبدیلیوں سے آگاہ ہوسکیں ،جو ہمارے ارد گرد رونماء ہورہی ہیںاور جن کے اثرات مختلف قوانین خاص طورپر قانون شہادت پر پڑ رہے ہیں۔

معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے،بلکہ پوری مسلم دنیا میں نظم حکمرانی اورمتحرک اور فعال قانون سازی ایک بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔اس صورتحال کے تناظر میں مسلم ماہرین قانون اور فقہین(Jurists) کے سامنے سب سے بڑا چیلنج قرآن اور سنت کی روشنی میں قانون سازی کے دائرہ کار کو وسیع کرناہے۔ تاکہ مروجہ قوانین پر نظر ثانی اور جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نئے قوانین تیارکیے جاسکیں۔اس کے علاوہ بعض مستعمل اصطلاحات کی ازسرنو وضاحت کی بھی ضرورت ہے۔

اس مقصد کے لیے مختلف فقہوں اور مسالک کے علماء کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ایک دوسرے کی تکفیر کے بجائے ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا جس میں مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کے لیے گنجائش پیدا ہوسکے۔اس مقصد کے لیے ایک تحقیقی ادارے کا قیام بھی عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ مروجہ قوانین کو قرآن وسنت سے ہم آہنگ کرنا ایک اچھا اقدام ہے، لیکن اسلام نے قانون سازی میں اجتہاد اور قیاس کوشامل کرکے قوانین کی فعالیت اور ہر زماں ومکان کے لیے قابل قبول بنانے کا کلیہ بھی دیاہے۔اس لیے DNAجیسے ٹیسٹ جو درست معلومات فراہم کرتے ہیں ،ان سے انحراف کوئی احسن اقدام نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے علماء اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرکے زنا بالجبر جیسے قبیح جرم پر قابو پانے کے لیے قانون سازی میں معاون ثابت ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔