خواتین کا استحصال

رئیس فاطمہ  بدھ 12 جون 2013

7 جون کے ایکسپریس میں ایک ہولناک رپورٹ خواتین کرکٹرز کے حوالے سے چھپی ہے۔ جس میں ملتان کی کچھ کرکٹرز خواتین نے الزام لگایا ہے کہ جو لڑکیاں ایسوسی ایشن کے نمایندوں سے ’’دوستی‘‘ نہیں کرتیں انھیں ٹیم سے باہر کردیا جاتا ہے۔ ملتان کی بعض کرکٹر خواتین نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ازخود نوٹس لینے اور ویمن کرکٹرز کو بچانے کی درخواست کی ہے۔

خبر کے متعلق جب تک کوئی لڑکی ایسوسی ایشن کے نمایندوں کے ساتھ دوستی نہیں کرتی اور ان کے غیر اخلاقی تقاضے پورے نہیں کرتی۔ اسے کرکٹ سے باہر رکھا جاتا ہے اور ’’دوستی‘‘ کرنے اور ایسوسی ایشن کے نمایندوں کے تمام تر ’’مطالبات‘‘ پورے کرنے والی لڑکیوں میں جلد جگہ مل جاتی ہے۔ جن خواتین کرکٹرز نے یہ الزامات ایسوسی ایشن کے نمایندوں پر عائد کیے ہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’مطالبات‘‘ پورے کرنے پر رضامند خواتین کھلاڑی ہی ڈسٹرکٹ، ریجن اور قومی سطح پر کرکٹ کھیل سکتی ہیں۔ جب کہ جو خواتین کھلاڑی ان ’’مطالبات‘‘ کے آگے سر نہیں جھکاتیں انھیں ٹیم سے باہر کردیا جاتا ہے۔ ایکسپریس کے رپورٹر کے مطابق تقریباً19 کھلاڑی لڑکیاں اب تک رابطہ کرچکی ہیں اور وہ ’’ایکسپریس نیوز‘‘ پر آکر مزید تفصیلات بتانے کو تیار ہیں۔

جہاں تک خواتین کھلاڑیوں کو ہراساں کرنے اور ان پر دباؤ ڈال کر اپنے ناجائز مطالبات منوانے کی بات ہے تو یہ کھیل نیا نہیں ہے۔ خواہ کھیل کے میدان ہوں، دفاتر ہوں، یونیورسٹیاں اور کالجز ہوں، ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوں یا اسپتال ہوں جہاں جہاں بدکردار لوگوں کا بس چلتا ہے وہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں، جو لڑکیاں اور خواتین ان کی مرضی ومنشاء کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں وہ ’’بامراد‘‘ ہوتی ہیں اور جو غلیظ ہاتھوں کو اپنے سر کی چادر تک نہیں پہنچنے دیتیں انھیں ناکامیاں ہی نصیب ہوتی ہیں۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر جب خواتین کو خواتین کا ساتھ دے کر ایسے کرپٹ عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیے جو خواتین کی عزت و ناموس سے کھیلنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ بجائے اس کے خود خواتین اپنی ہم جنسوں کو مورد الزام ٹھہرا کر الگ ہوجاتی ہیں۔ خاص کر بدکردار اور کرپٹ افسران کی بیویاں، انھیں ان موقعوں پر ’’نیک اور پارسا‘‘ ظاہر کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گی تو طلاق نامہ ان کے مقدر کا فیصلہ بھی کردے گا۔کرکٹ کی متاثرہ خواتین کھلاڑیوں کے الزامات کے جواب میں بھی کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر کی بیگم نے بھی بجائے متاثرہ لڑکیوں کی دادرسی کے الٹا انھی کو مورد الزام ٹھہرا دیا ۔

عام طور پر ایسی خبریں انتظامیہ کے دباؤ کی وجہ سے دبا دی جاتی ہیں۔ ورنہ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ ایک اخبار کے نڈر اور اپنی جاب سے مخلص ایک اخبار کے نمایندے نے دارالامان کے حوالے سے بڑی مضبوط اور چشم کشا رپورٹ تیار کی، جس میں بڑے بڑے مگرمچھوں کے کارنامے معہ ثبوت کے موجود تھے کہ لاوارث لڑکیوں کے ساتھ دارالامان جیسے اداروں میں پناہ دینے کے نام پر کیا کیا ہوتا ہے۔ فیچر تیار کرنے کے بعد اس رپورٹر نے خوشی خوشی وہ فیچر ایڈیٹر صاحب کو دکھائی، انھوں نے بڑی تعریف کی لیکن چند دن بعد چھاپنے سے انکار کردیا۔

البتہ وہ رپورٹ اور فیچر جب دارالامان کی منتظمہ یعنی ایڈمنسٹریٹر کو دکھائی گئی تو انھوں نے رپورٹر کی عقل پر ماتم کیا اور اس فیچر کے عوض جو ڈیل ہوئی وہ بہت بڑی تھی۔۔۔۔ بے چارہ رپورٹر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس نے جب ایڈیٹر صاحب سے اپنی رپورٹ واپس مانگی تو انھوں نے ہنس کر کہا وہ تو ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی تب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ اس نے فوٹو کاپی اپنے پاس کیوں نہ رکھی تھی۔۔۔۔؟۔۔۔۔پھر یہ سارا قصہ دیگر سنسنی خیز انکشافات کے ساتھ دوسرے اخبارات میں آگیا۔ یہ بھی سنا گیا تھا کہ اس رپورٹر نے ادارے کے سامنے بھیس بدل کر ساری معلومات اکٹھی کی تھیں ۔

صنفی امتیاز برتنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات تعلیمی اداروں میں بھی تواتر کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں۔۔۔۔کچھ ہی عرصہ قبل پنجاب ہی کے ایک شہر کی یونیورسٹی کے حوالے سے طالبات کی شکایات اخبارات کی زینت بنی تھیں۔ وہاں بھی یہی شکایات ملی تھیں کہ ایک پروفیسر صاحب طالبات سے اپنی مذموم خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں جو طالبات زیادہ نمبر اور پوزیشن کے حصول کے لیے ان کی خواہشات پوری کردیتی ہیں وہ فائدے میں رہتی ہیں، لیکن جو ان کے ہاتھ جھٹک دیتی ہیں انھیں یا تو فیل کردیا جاتا ہے یا پھر پاسنگ مارکس دے کر ٹال دیا جاتا ہے۔ وہاں بھی چند باہمت طالبات اس کرپشن کو سامنے لائی تھیں۔ ان کا ساتھ لڑکوں نے بھی دیا تھا۔ جب یہ اسکینڈل اخبارات میں آیا اور رپورٹرز نے ان پروفیسر صاحب سے رابطہ کرنا چاہا تو ان کا فون ہمیشہ بند ملا۔۔۔۔پھر خدا جانے کیا ہوا۔۔۔۔۔وہ اسکینڈل بھی کسی تعلقات یا لفافے کے نیچے دب گیا یا طالبات کو دھمکیاں دے کر خاموش کرادیا گیا۔

ابن آدم کا یہ کھیل حوا کی بیٹیوں سے بہت پرانا ہے۔۔۔۔ہر ادارے میں ایسے گھناؤنے کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ خواہ شوبز کی دنیا ہو، ٹیلی ویژن کی راہداریوں کے اندھیروں میں جنم لینے والی کہانیاں ہوں، یا دوسرے ادارے۔ آنکھ مچولی کے یہ کھیل ہر جگہ بڑی کامیابی سے جاری ہیں۔ کیونکہ بدقمستی سے پیسے اور شہرت کی دوڑ نے تمام اخلاقی اقدار کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ اب مقصد ہے چہرہ نمائی، شہرت اور دولت۔۔۔۔اور ان تینوں کے حصول کے لیے ’’شارٹ کٹ‘‘ وہی ہے جس کی طرف ملتان کی کھلاڑیوں نے نشاندہی کی ہے۔

عصمت، کردار اور پاکیزگی اب آؤٹ آف ڈیٹ چیزیں ہیں۔۔۔۔جنہوں نے اس راز کو پالیا ان کے لیے تمام دروازے کھل گئے، جلوہ آرائی ان کا مقدر ٹھہری، پیسہ ان کی جوتیوں کی نوک پر۔لیکن کچھ سرپھری خواتین اور لڑکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنی خاندانی نجابت، اپنی تربیت اور ماحول کی بناء پر شیطانوں کے ہاتھ اور ان کی چالوں کو ناکام بنادیتی ہیں ۔ایسی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد ملک بھر کے مختلف شعبوں میں اپنے وقار اور عصمت و عفت کو محفوظ رکھتے ہوئے پیشہ ورانہ معیار میں بھی اپنے مرد ہم منصبوں سے آگے نکلتی جارہی ہیں۔ دنیا بھر میں ریپ اور دیگر جرائم میں مجرموں کو سزا نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ متاثرہ خواتین کا خاموش ہوجانا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب خواتین میں یہ شعور اجاگر ہورہا ہے کہ وہ ان واقعات اور ان سے جڑے بدکردار لوگوں کے نام لے کر میڈیا پر نشاندہی کرنے لگی ہیں جو ان کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔۔۔۔میڈیا کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ اس نے عورتوں کو حوصلہ دیا ہے۔

مختاراں مائی میڈیا ہی کی وجہ سے انصاف لے پائی۔ دراصل ضرورت ہے خواتین کو ہمت سے کام لینے کی۔ انھیں چاہیے کہ اگر کسی بھی شعبے میں ان کے ساتھ صنفی امتیاز برتا جارہا ہے، ان سے ان کے افسران، ساتھی اور اساتذہ میں سے کوئی بھی غیر اخلاقی مطالبات کی تکمیل چاہتا ہے تو وہ پہلے اپنے ادارے کے لوگوں کو باخبر کریں، لیکن اگر وہ ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوں اور کرپٹ لوگوں کے ساتھی ہوں تو انھیں میڈیا سے مدد لینی چاہیے۔ دراصل بدنامی کے ڈر سے بے شمار متاثرہ عورتیں اور بچیاں حقائق سامنے لانے سے ڈرتی ہیں، خود ان کے والدین بھی انھیں ایسا نہیں کرنے دیتے اور یہی رویہ بدکردار لوگوں کو شہ دیتا ہے اور وہ بار بار ایسے جرموں کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ایسا ہی کچھ اگر ان کی بہن اور بیٹی کے ساتھ ہو تو پھر۔۔۔۔؟

خواتین میں یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ بھی ملتان کی کرکٹ کی کھلاڑی لڑکیوں کی طرح ہمت کرکے بدکردار لوگوں کو بے نقاب کریں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس واقعے کا نوٹس لے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔