بات چل نکلی ہے

سردار قریشی  بدھ 17 اکتوبر 2018

سپریم کورٹ میں زیر سماعت دو مقدمات ایسے ہیں جن میں عوام و خواص کو یکساں دلچسپی لیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ ان میں سے ایک این آر او کیس ہے، جس میں دو سابق صدور جنرل (ر) پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور ایک سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم مدعا علیہ ہیں، جب کہ دوسرا اصغر خان کیس ہے جس میں جرنیلوں سمیت بعض فوجی افسران پر سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کا الزام ہے۔

عدالت عظمیٰ 16 سال قبل اس کیس کا فیصلہ سنا چکی تھی لیکن اس پر اب تک عملدرآمد کی نوبت نہیں آئی۔ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے ان اثاثوں کی تفصیل پیش کرنے کا حکم دیا جو آصف علی زرداری اور ان کے بچوں کو شہید بینظیر بھٹو سے ورثہ میں ملے ہیں۔

قبل ازیں اپنے 29 اگست کے حکم میں سپریم کورٹ نے آصف علی زرداری اور ان کی اہلیہ، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے غیر ملکی اثاثوں کی تفصیل پیش کرنے کو کہا تھا۔ سماعت کا آغاز کرتے ہوئے، چیف جسٹس نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اپنے دؤر اقتدار میں بینظیر قتل کیس کی موثر طور پر پیروی نہ کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا۔ انھوں نے وکیل صفائی فاروق ایچ نائیک کی اس دلیل پر بھی تشویش ظاہر کی کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے اثاثوں کی تفصیل طلب کرنا ان کی قبر کا ٹرائل کرنے کے مترادف ہے۔ ’’خدا کا واسطہ‘‘ انھوں نے دریافت کیا ’’کون شہید بینظیر کا ٹرائل کر رہا ہے؟ ہم تو صرف اثاثوں کے بارے میں جاننا چاہ رہے ہیں۔‘‘

چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرکے مزیدکہا ’’بینظیر کو قتل کردیا گیا مگر آپ لوگ ان کے مقدمہ قتل کی پیروی بھی ٹھیک سے نہیں کرسکے‘‘۔ نائیک بولے سابق وزیراعظم کا قتل مشرف دور میں ہوا تھا۔ اس مرحلہ پر پی پی پی کے ایک دوسرے وکیل، سردار لطیف کھوسہ، جو عدالت میں موجود تھے، اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کہا ’’تمام ملزمان بری ہوچکے ہیں اور ان کی بریت کے خلاف اپیل فیصلے کے لیے آپ کی عدالت میں زیر التوا ہے۔‘‘ جواب میں چیف جسٹس نے کھوسہ کو یاد دلایا کہ وہ مقدمے کی جلد سماعت کے لیے درخواست دائر کرسکتے ہیں۔

دوران سماعت جب نائیک نے پھر اپنا یہ موقف دہرایا کہ شہید محترمہ کے اثاثوں کی تفصیل طلب کرنا ان کی قبر کا ٹرائل کرنے کے مترادف ہے، تو بینچ کے ایک دوسرے رکن، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’’عدالت بینظیر بھٹو کے اثاثوں کی تفصیل کے بارے میں آپ کے موقف پر غور کرے گی۔‘‘

باہم مشورے کے بعد، تینوں ججوں نے پہلے دیے گئے حکم میں معمولی سی ترمیم کرتے ہوئے زرداری کو ہدایت کی کہ وہ ان تمام املاک کی تفصیل پیش کریں جو انھیں اور ان کے بچوں کو مقتول وزیر اعظم سے ورثے میں ملی ہیں۔ تاہم، بینچ نے اثاثوں کی دس کے بجائے پانچ سال کی تفصیل پیش کرنے کی اجازت دینے کی نائیک کی استدعا قبول نہیں کی۔ پی پی پی کے تین چوٹی کے وکلا اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ اور فاروق ایچ نائیک، کارروائی دیکھنے کے لیے عدالت میں موجود تھے۔

قبل ازیں، نائیک نے، حکم پر قانونی اعتراضات اٹھاتے ہوئے، اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ عدالت کسی عام شہری سے کس طرح اس کے اثاثوں کی تفصیل معلوم کرسکتی ہے۔ مگر چیف جسٹس نے جسٹس (ر) صبیح الدین کے اس فیصلے کا حوالہ دیا جو اس قسم کے معاملات میں نجی افراد کے خلاف کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔ نائیک بولے ایسا کرنے سے آرٹیکل( 3) 184 کا دائرہ وسیع ہوجائے گا، چیف جسٹس نے جواب دیا ’’اگر انصاف کی خاطر دائرہ بڑھتا بھی ہے تو کوئی بات نہیں۔‘‘

بینچ کے ایک اور رکن، جسٹس اعجاز الاحسن، نے ریمارکس دیے کہ ’’عدالت انھیں صرف اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے لیے کہہ رہی ہے کیونکہ وہ ایک عوامی عہدے پر بھی فائز ہیں‘‘۔ چیف جسٹس نے کہا زرداری کو تو خوش ہونا چاہیے کہ عدالت انھیں کرپشن کے الزامات سے کلیئر ہونے کا موقع دے رہی ہے۔ یوں بینچ نے زرداری کو اپنی اہلیہ سے وراثت میں ملنے والے اثاثوں کی تفصیل پیش کرنے کے لیے 15 دن کی مہلت دے دی۔

سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کے اثاثوں کا معاملہ زیر بحث لاتے ہوئے بینچ نے ایک مرتبہ پھر پیشکش کی کہ اگر وہ وطن واپس آکر غداری کے مقدمے کا سامنا کریں تو انھیں تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ چیف جسٹس نے ان کے وکیل اختر شاہ سے دریافت کیا کہ مشرف خصوصی عدالت میں کیوں پیش نہیں ہورہے، کیا ان کے لیے الگ قانون ہے؟ دریں اثناء مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے انھیں پیش کرنے سے متعلق حکومت سے 9 اکتوبر کو رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔ یاد رہے کہ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس یاور علی 22 اکتوبر کو ریٹائر ہورہے ہیں۔

دوسری طرف دفاعی حکام نے ان فوجی افسران کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے ’’کورٹ آف انکوائری‘‘ تشکیل دی ہے جن پر الزام ہے کہ انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو 1990ء کے عام انتخابات جیتنے سے روکنے کے لیے مبینہ طور پر سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی تھیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی نے 19 اکتوبر 2002ء کو اصغر خان کیس میں سنائے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والے چیف جسٹس کی زیر قیادت تین رکنی بینچ کے روبرو ایک صفحے کی رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ مجاز اختیاری نے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے کورٹ آف انکوائری تشکیل دی ہے اور اس کے اراکین کا تقرر بھی کردیا گیا ہے۔

ملزم افسران میں سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی اور بریگیڈیئر حمید سعید اختر اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) رفعت سمیت کچھ دوسرے افسران شامل ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی بھی ادارہ قانون سے بالاتر نہیں اور یہ مقدمہ اعلیٰ اداروں اور سینئر سیاستدانوں سے متعلق ہے۔ انھوں نے کہا کورٹ آف انکوائری تشکیل پانے کا مطلب یہ ہے کہ ملزم فوجی افسران کا ٹرائل شروع ہوچکا ہے۔

اس موقع پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ بند کمرے میں عدالت کو کچھ بے حد اہم معلومات دینا چاہتے ہیں۔ عدالت نے ان کی استدعا قبول کرلی، تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کارروائی پر عوام کا اعتماد مجروح نہیں ہونا چاہیے۔ گزشتہ سماعت پر ایف آئی اے کی پیش کردہ رپورٹ سے پتہ چلا تھا کہ 1990ء کے انتخابات کے حوالے سے سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کے بیانات میں کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔

جنرل بیگ ایوان صدر یا جی ایچ کیو سے ہدایات ملنے کی تردید کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ جنرل درانی براہ راست ایوان صدر سے رابطے میں تھے جب کہ جنرل درانی صدارتی الیکشن سیل کے احکامات پر رقوم تقسیم کرنے اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات فوجی ہائی کمان کے علم میں تھی۔ صدر کا الیکشن سیل اجلال حیدر زیدی اور روئیداد خان کی زیر نگرانی کام کرتا تھا۔ بقول شاعر: بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔

(نوٹ: 27 ستمبر کی اشاعت میں جنرل اکبر خان (رنگروٹ) کے متعلق کالم میں غلطی سے حقائق گڈمڈ ہوگئے تھے۔ نشاندہی اور تصحیح کرنے کے لیے میں قارئین کرام کا ممنون ہوں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔