پاکستان کے لیے

سید نور اظہر جعفری  بدھ 17 اکتوبر 2018

موجودہ زمانہ پروپیگنڈہ اور نمائش کا زمانہ ہے۔ غلط، صحیح آپ کو بتانا پڑتا ہے۔ گوئبلز کے بعد سابقہ پاکستانی حکومت بہ اشتراک سندھ حکومت دوسرے نمبر پر رہی، جس کے مطابق ملک میں عام طور پر اور سندھ پنجاب میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں، سندھ میں ان نہروں کو رواں رکھنے کے لیے سابق وزیراعلیٰ کو ہی دوبارہ ملازمت دے دی گئی، سوچ تو پنجاب والے اور صوبہ خیبرپختونخوا والے بھی یہی رہے تھے۔

عوام نے ’’کب فیصلہ کروگے‘‘ کا بھرپور جواب دیا اور سب کے خواب بکھیر دیے۔ سیاسی بازیگر پریشان ہیں۔ کم ایسا پاکستان میں ہوا ہے۔ قیام پاکستان کی تحریک، 1965ء کی جنگ یا 2018ء کا الیکشن، یہ تین مواقع ایسے ہیں جب عوام نے فیصلہ دیا ہے اور ’’جھرلو‘‘ چلتا تھا، پورے نتائج آنے اور اعلان ہونے سے پہلے تو قوم سے خطاب ہو جاتا تھا، کیونکہ سب طے شدہ ہوتا تھا، اپنی حرکتوں اور مالی بے ضابطگیوں اور عوام کے پیسے میں خردبرد پر وہ ایئرکنڈیشنڈ جیل میں ہیں، ’’اعلیٰ مجرم ہیں‘‘۔

یہ بھی زمانہ آنا تھا کہ ناجائز دولت اور جائیداد کے بارے میں پوچھا جائے تو کہا جاتا ہے میرے نام نہیں، کہا جائے اولاد کے نام پر، جواب ہوتا ہے ان سے پوچھو، اولاد سے پوچھو تو کہتے ہیں ہم پاکستان کے شہری نہیں، یعنی پاکستان کا مال چوری کرکے ابا نے اولاد کو دے دیا اور اولاد باپ اور ملک سے انکاری ہیں۔ دولت نے ماں کی تدفین میں شرکت سے روک رکھا تھا، وہیں نماز پڑھ کر میت پاکستان روانہ کر دی، یہ ہے دولت کا وبال اور چمک دمک جو ہر چیز سے آنکھیں بند کردیتی ہے۔

کسی نے شہید کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا تھا اور ایک ’’وصیتی پرچہ‘‘ نکال کر پارٹی اور سب کچھ پر قبضہ کرلیا اور لاڑکانہ بس چادر چڑھانے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کرکے دبئی فرار ہونے کے کام کا رہا۔ خاندان کو نوازا گیا اور پارٹی سندھ میں رہ گئی۔ جوڑ توڑ کے کام کی رہ گئی ہے۔ دونوں کا ایک مقصد ہے اور تھا، زیادہ سے زیادہ قرض لو، ٹیکس لو اور اپنے اکاؤنٹ میں جعلی اکاؤنٹوں کے ذریعے مال بھیجو اور ایسا ہوا ہمشیرہ کو بھی اس کام پہ لگا دیا، وہ بھی تحقیقات کرنے والوں کے بیک گراؤنڈ کا پوچھتی رہیں تاکہ اپنے ’’شہنشاہ حسین‘‘ استعمال کریں۔ وقت بدل گیا، یہ لوگ نہ بدلے، ان کو قانون ہی بدلے گا۔ سارے شرجیل، ڈاکٹر عاصم، ثنا اللہ اور شہباز اپنی باری کا انتظار کریں۔

ماڈل ٹاؤن قتل عام کا اب تک تسلی بخش فیصلہ نہیں ہوا۔ بینظیر کیس کا فیصلہ نہیں ہوا، جب یہ فیصلے آجائیں گے اور آئیں گے تو بہت سی دو نمبر ’’کریم‘‘ پہلے سے اڈیالہ میں موجود ’’کریم‘‘ سے جا ملے گی۔ وہ مل کلرک جس نے پاکستان کے پنشنرز کی پنشن کی رقم جو نیشنل سیونگز میں جمع تھی اس پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کمی کی، وزیر خزانہ کی حیثیت سے اب بغیر پاسپورٹ کے لندن کی سڑکوں پر گھوم رہا ہے اور پکڑا جانے والا ہے، یہ ہے قدرت کا انتظام اور انتقام۔

برصغیر کو لندن سے آنے والے انگریز نے تباہ کیا اور پاکستان کو ایک بار پھر لندن میں رہنے والے ’’مختلف مجرم‘‘ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انگریز کی طرح ملک کی دولت لوٹ کر لے گئے ہیں تو اب حکومت کو پاکستان کی دولت اور پاکستان کے مجرموں کی حوالگی کے لیے برطانیہ سے مطالبہ کرنا چاہیے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ دوسرا مطالبہ ہے جو قومی ہے اور اہم ہے، اور اب دنیا بدل چکی ہے مجرموں کو پناہ دینے کا رواج ختم ہو رہا ہے، ان کے اپنے عوام احتجاج کر رہے ہیں۔

زیادہ وقت نہیں کہ ’’مفرورین‘‘ آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک کی مانند۔ بس آبرو نہیں رہے گی کہ یہ خدا کا فیصلہ ہوگا اور ہے کہ ظالم کو وقت تو مل جاتا ہے سزا معاف نہیں ہوتی اور آخرکار سزا ہوکر رہتی ہے ان کو جنھوں نے ملک کا ’’معاشی سینہ‘‘ چاک کر کے مقروض کردیا بچے بچے کو۔ لاڑکانہ ہو، نواب شاہ یا لاہور، اب کسی کے بچنے کا امکان نہیں کیونکہ پاکستان کو بچانا ہے اور یہ اگر ہوں گے تو دشواری ہو گی۔

سیاست اگر دیانت دارانہ نہ ہو تو ’’گٹر پالیٹکس‘‘ ہے۔ بدبو آتی ہے اس میں سے گٹر کی۔ پاکستان میں ماضی میں یہی ہوا ہے، سندھ سے اسپانسرڈ تحریکیں چلیں، اقتدار بھٹو کو مل گیا۔ ضیا الحق کے سیاسی فرزند نے قوم کو تقسیم کرنے اور اتحاد کو سلانے کا کام ’’جاگ‘‘ سے لیا۔ جو پختون پہلے اور پاکستانی بعد میں ہیں، داڑھی والے اور کلین شیو سب ساتھ کھڑے ہوگئے کہ ان کا آج تک یہی کردار ہے۔ یہ ’’زر‘‘ کے ساتھ ہیں، اب اگر نام میں زرداری ہے تو اور اچھا ورنہ میاں اور صاحب نے تو عوام کی تجوریوں کے منہ کھول رکھے تھے۔ چھانگا مانگا لاہور کے اندر آگیا تھا۔

اب بھی کچھ عوام سو رہے ہیں، جاگ جاؤ ’’اک واری فیر‘‘ ختم ہوگیا ’’فیئر ٹرائل‘‘ شروع ہوگیا۔ ان سیاستدانوں نے ملک کے ساتھ ساتھ قوم کو بہت نقصان پہنچایا ہے، لوگ ’’علاقائی‘‘ ہوگئے، اچھے خاصے پاکستانی تھے۔ ہم ایسے لوگوں سے واقف ہیں جو دوسرے صوبوں سے آکر سندھ میں آباد ہیں، مگر روزگار کی حد تک، ان کے مفادات اپنے علاقوں اور لوگوں سے وابستہ ہیں، قدرتی بات ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ یہ لوگ حقائق کا ادراک رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ ملک کو، عوام کو کس نے دھوکا دیا، بھارت اور امریکا کے مفادات کا تحفظ کس نے کیا، کشمیر اور پاکستان کو پست پشت کس نے ڈالا۔ دونوں شریک ہیں ’’میثاق‘‘ والے، مگر وہ مجرموں کا ساتھ دینے کو تیار ہیں، ملک کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔

لفافے کالم نگار اعتراض کرتے ہیں کہ بھارت سے دوستی کیوں کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ دہشتگرد مودی کی حلف برداری میں کون گیا تھا پارلیمنٹ سے پوچھے بغیر، دہشتگرد مودی کو جاتی امرا میں کس نے بلایا تھا۔ کشمیر کا نام لبوں پر کس کے نہیں آتا تھا، اس وقت یہ قلم خاموش تھے۔ دفن تھے ’’زر‘‘ کے نیچے اور اب ایک عوامی حکومت پڑوسیوں سے اچھے تعلقات ترقی کا عمل تیز کرنے کو کر رہی ہے تو ان کی ڈور ہلادی گئی اور یہ وطن پرست بن بیٹھے۔

پانی کا مسئلہ ہے۔ بھارت سے دریا آتے ہیں، وہ روک رہا ہے، بات نہیں ہوگی تو مسئلہ کیسے حل ہوگا ’’ایٹم بم‘‘ استعمال کریں گے اپنا حال کیا ہوگا، کہاں ہوگی قوم؟ سرحدوں پر فائرنگ ہو رہی ہے، لوگ مر رہے ہیں، بس احتجاج کافی ہے؟ کشمیر میں سازشیں کرکے آبادی کا توازن بدلا جا رہا ہے، بھارت کی طرف سے۔ اسرائیل کی طرز کی دہشتگردی ہورہی ہے، سب چھوڑ دیں، آزاد کشمیر بھی دے دیں؟

’’زر‘‘ کے ڈھیر سے قلم اٹھائیے، ایک بار پھر اس کی حرمت کا عہد کیجیے اور ان کی راہ پر نہ چلیے، جو ہر دوسری کانفرنس میں ہوتے ہیں، ’’سرکاری خرچہ‘‘ پر دنیا گھوم رہے ہیں اور نیکی کا درس دیتے ہیں۔ چھوڑ دیجیے چند سکے، حق کا راستہ اختیار کیجیے، وہ اب سزا کے مراحل میں ہیں، آپ خود کو سزا سے بچا لیں جو آپ کا ضمیر آپ کو دے گا۔

ایران، افغانستان، انڈیا، چائنا، روس یہ ہمارے پڑوسی ہیں، براہ راست یا بالواسطہ، ان سے تعلقات ملک کے مفاد کے تحت ضروری ہیں اور اس کے لیے آگے بڑھنا ہوگا، چل کر جانا ہوگا۔ ذاتی مفادات بہت حاصل کرلیے ان دونوں نے، اب پاکستان کے لیے جینا اور پاکستان کے لیے مرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔