یونیورسٹی آف گجرات اور سید عطااللہ شاہ بخاریؒ 

اصغر عبداللہ  بدھ 17 اکتوبر 2018

دریائے چناب اور جہلم کے درمیان دوآبہ چج گجرات پر اس خطہ سے اٹھنے والی جن تاریخی ہستیوں میں ایک سید عطااللہ شاہ بخاری ؒ ہیں۔ ان کے ایک بزرگ سید عبدالغفار بخاری کسی زمانے میں بخارا سے کشمیر میں وارد ہوئے تھے ان کی اولاد نے گجرات کو مسکن بنا لیا۔ پہلے ان کا گاوں سرہالی تھا۔پھر ناگڑیاں آ گئے۔

سید ضیاالدین احمد1891ء میں بسلسلہ دعوت وتجارت پٹنہ میں قیام پذیر تھے، جب ان کے یہاں اس مرد حر نے جنم لیا، جو اپنی خطابت، شجاعت اور فقر کی وجہ سے ساری زندگی تاج برطانیہ کے لیے چیلنج بنا رہا۔ سید عطااللہ شاہ بخاری کی عمر ابھی چار برس تھی کہ ان کی والدہ فاطمہ اندرابی وفات پا گئیں۔ 1912ء میں سید ضیاالدین احمد پٹنہ سے واپس اپنے گاوں ناگڑیاں آ گئے، یہیں باقی زندگی گزاری اور1949ء میں واصل بحق ہوئے۔

ہندوستان کی سیاست میں سید عطااللہ شاہ بخاری کی آمد، خطیب کی حیثیت سے عجب شان سے ہوئی۔6 اپریل 1919ء کو رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر ہڑتال ہوئی۔ انھی دنوں امرتسر میں ریلوے کے بڑے پل سے ایک احتجاجی جلوس گزررہا تھا۔انگریز پولیس نے گولی چلادی۔ شاہ جی نے مسجد خیرالدین میں جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کی نماز جنازہ پڑھائی10 اپریل کو ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری سے شہرمیں مزید اشتعال پھیل گیا۔

13 اپریل یکم بیساکھ کو جلیانوالا باغ میں احتجاجی جلسہ تھا۔جنرل ڈائر نے سیدھی فائرنگ کرا دی 500 مظاہرین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ گزشتہ روز احتجاج کے لیے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے اجلاس طلب کیے۔لیکن ایک اور جلسہ مولانا شوکت علی کی صدارت میں خلافت کمیٹی نے بھی کیا، جس سے شاہ جی نے تاج برطانیہ کے خلاف ایسی پرشکوہ تقریر کی کہ جلسہ کے شرکا جھوم اٹھے۔

اگلا خطاب موچی دروازہ میں ہوا عوام کو مسحور کر دیاجلسہ صبح تین بجے تک جاری رہا۔ یہ وہ ہولناک دور تھا جب سانحہ جلیانوالا باغ کے مرکزی کردار جنرل ڈائر کے خوف سے لاہور میں بننے والی خلافت کمیٹی بھی، جس میں علامہ اقبال اور سر محمد شفیع بھی شامل تھے، اپنی سرگرمیاں موقوف کر چکی تھی، شاہ جی نے جو اپنی آواز کا سحر پھونکا تو خلافت کمیٹی از سرنو  زندہ ہو گئی۔

یوں راتوں رات شاہ جی کا شمار صف اول کے راہنماوں میں ہونے لگااور انھوں نے گجرات کی تعلیمی پسماندگی کی طرف توجہ کی گجرات میںاس وقت دو ہی ادارے تھے: عیسائی مشنریوں کا مشن اسکول، دوسرا ہندوں کا سناتن دھرم اسکول۔ تحریک علی گڑھ کے زیر اثر انجمن حمایت اسلام کے چراغ کی لو اسلامیہ کالج کی شکل میں لاہور کو تو منور کر رہی تھی، لیکن گجرات میں اس کی کوئی کرن نہیں پہنچی تھی۔ زمیندار ایجوکیشن سوسائٹی ابھی بطن شاعر میں تھی۔

مشن اسکول اور سناتن دھرم اسکول سے مذہبی دوری کی وجہ سے گجرات کے مسلمان پڑھائی میں بہت پیچھے تھے۔ پھر مشن اسکول عیسائی مشنریوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا۔ سیاسی طور پر مگر یہ وہ عہد تھا، جس میں فرنگی حکومت کے خلاف کانگریس اور مسلم لیگ ایک ہی صفحہ پر تھیں۔ بیرسٹر محمد علی جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا پیامبر کہا جاتا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ہندو مسلم دونوں کے لیے لایق احترام تھی۔

شاہ جی نے گجرات کے مسلمان بچوں کے لیے اسکول قائم کرنے کاعزم کیا، کچھ درد مند لوگوں کو ساتھ ملایا۔قدرت نے طلاقت لسانی کی جو نعمت بخشی تھی ، اس کو بروئے کار لا کر اسکول کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم شروع کی۔ جھولی پھیلا کر گلی گلی اور کوچہ کوچہ گئے۔ اور شہر کے وسط میں ’’ آزاد مسلم ہائی اسکول‘‘ کی بنیاد رکھ دی گئی۔

مولانا ابوالکلام آزاد اس کا افتتاح کرنے کے لیے خاص طور پر گجرات تشریف لائے۔ چوہدری فیض محمد ایم اے پہلے ہیڈ ماسٹر اور ملک نصراللہ خان عزیز پہلے سیکنڈ ماسٹر مقرر کیے گئے۔ ’’آزاد مسلم ہائی اسکول‘‘ گجرات شہر میں مسلمانوں کے تعلیمی انحطاط کو دور کرنے کی پہلی بامعنی کوشش تھی۔

بہت بعد میں جب سید عطااللہ شاہ بخاری اور ابوالکلام آزاد کی سیاسی نسبت کچھ سیاسی لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی، تو انھوںنے ’’آزاد مسلم اسکول‘‘ کو زبردستی ’’اسلامیہ اسکول‘‘سے بدلنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش مگر بلڈنگ کی حد ہی کامیاب ہو سکی، کیونکہ اس کے اساتذہ نے اندرون شیشیانوالا دروازہ کے عقب میں ایک بلڈنگ لے کر اس میں ’’مسلم ہائی اسکول‘‘کی تعلیمی سرگرمیاں از سرنو شروع کر دیں۔ بھٹو دور میں تعلیمی ادارے قومیائے گئے تو یہ اسکول بھی ’’گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول‘‘ قرار پا گیا۔

1980ء میں ایک عدالتی فیصلہ کے باعث اسکول سے یہ نئی بلڈنگ بھی چھن گئی۔ خانوادہء بخاری کے چشم وچراغ سید محمد یونس بخاری بھی، ان دنوںاسی اسکول میں ٹیچر تھے۔ وہ پنجاب ٹیچرز یونین کے عہدے دار بھی تھے۔ جو بھی نئے ہیڈ ماسٹر آتے، سید یونس بخاری کی معیت میں اسکول بلڈنگ کی استدعا لے کر وزارت تعلیم کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ لیکن پھر قدرت اس اسکول پر اس طرح مہربان ہوئی کہ 2002ء گجرات کے چوہدری پرویزالٰہی، وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔

انھوں نے نارمل اسکول کی سرکاری بلڈنگ کے اندر ہی ایک وسیع قطعہ مسلم اسکول کے لیے مختص کردیا، اس کی نئی شاندار بلڈنگ بنوائی، جو بلاشبہ اس کی دونوں پرانی بلڈنگوں کو مات کرتی ہے۔ ایک صدی پیشتر سید عطااللہ بخاری نے اپنے آبائی شہر میں جو تعلیمی پودا لگایا تھا، زمانے کے تمام تر سردوگرم سہنے کے باوجود آج بھی ان کی دی ہوئی شناخت کے ساتھ اپنی  بہار دکھا رہا ہے۔

ماضی کی یہ گم گشتہ کہانی آج اس طرح یاد آ گئی کہ میرے سامنے یونیورسٹی آف گجرات کا شایع کردہ ’’گجرات پیڈیا، 2012ء ‘‘پڑا ہے، جو چند روز پہلے گجرات کے ایک دوست دے کر گئے ہیں۔ یہ ’’گجرات پیڈیا‘‘ گجرات کا جغرافیائی، تاریخی، سماجی تہذیبی معاشی اور ادبی جائزہ‘‘ ہے، لیکن جو حصہ گجرات کے تعلیمی پس منظر کے بارے میں ہے، اس میں کئی حقائق موجود نہیں ہیں۔ شاہ جی ؒجنہوں نے گجرات شہر میں تعلیمی ترقی کی نیو رکھی، ان کا تذکرہ سرسری طور پر کیا گیا ہے۔

شاہ جی کے تعارف میں 1921ء کی انگریز سرکار کی ایک تحقیر آمیز سرکاری رپورٹ ہی معتبر سمجھی گئی۔ اندرا پرکاش آنند، بھگوتی چرن وہرہ، سوشیلا دیوی، سید حبیب شاہ یا اے کے خالد وغیرہ، کا ذکر بڑے اہتمام سے ہوا، حالانکہ شاہ جی  ؒکی قد آور ہستی ایسے ہی سلوک کی مستحق تھی۔ میرے خیال میں ہندوستان کے سوسالہ دور غلامی میں گجرات نے سید عطااللہ شاہ بخاری، ایک ہی مرد حر پیدا کیا۔ امرتسر کے شورش کاشمیری نے گجرات کے اس مرد حر کی ایسی مکمل ، جامع اور اعلیٰ پایہ کی سوانح لکھی کہ حق ادا کر دیا۔

’’محققین‘‘ نے ولی کامل حافظ محمد حیات ؒ کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی، درآں حالیکہ آج یونیورسٹی آف گجرات کی پرشکوہ بلڈنگ اسی مرددرویش کی اراضی پر کھڑی ہے، یونیورسٹی آف گجرات کو ایک خواب سے حقیقت بنانے والے چوہدری پرویز الٰہی کے وژن کو پس منظر میں دھکیلا گیا ہے۔ موجودہ وائس چانسلر کو ’’گجرات پیڈیا‘‘ کو مزید معیاری دستاویز کی شکل دینے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔