اپوزیشن کے تیر انداز

عبدالقادر حسن  بدھ 17 اکتوبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ضمنی انتخابات کا ٹنٹنا بھی بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کے ساتھ حکومتی پارٹی کے بھی ککھ رہ گئے۔ یعنی دونوں پارٹیوں کی عزت رہ گئی ورنہ ووٹروں کا کسے علم کہ وہ کس موڈ میں ہیں اور پلڑا کس کے حق میں جھک جاتا ہے۔

ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کا دھاندلی کا واویلہ بھی دم توڑ گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عام انتخابات کی طرح ضمنی انتخابات بھی شفاف اور غیر جانبدارانہ تھے، کیونکہ کسی بھی جگہ سے دھاندلی کی اطلاع نہیں آئی اور نہ ہی کسی پارٹی کی جانب سے دھاندلی کی صدا بلند کی گئی۔ دھاندلی کی صدا عموماً حزب اختلاف کی جانب سے بلند کی جاتی ہے، لیکن اس بار اس محاذ پر بھی خاموشی رہی اور یہ خاموشی بلا وجہ ہر گز نہیں تھی۔ کیونکہ حکومت کی عام انتخابات میں جیتی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں حزب اختلاف کو بھی کامیابیاں ملی ہیں۔

یہ تصور عام ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکومتی پارٹی کا پلہ بھاری ہوتا ہے لیکن اس دفعہ حیرت انگیز طور پر حکومت کی جانب سے ضمنی انتخابات میں اپنے کسی بھی امیدوار کے حق میں کوئی مہم نہیں چلائی گئی اور نہ ہی انتخابی حلقوں میں فنڈز کی بند بانٹ ہوئی اور نہ ہنگامی بنیادوں پر ترقیاتی کام کیے گئے۔

اس انتخاب سے پہلے جس حلقے میں ضمنی انتخاب ہوتا تھا اس حلقے کے لوگوں کی قسمت کھل جاتی تھی اور حکومت ہنگامی بنیادوں پر بے حساب ترقیاتی کام شروع کر دیتی۔ بلکہ اکثر کام تو انتخابی دن سے قبل مکمل بھی کر لیے جاتے اور یوں اپنے امیدوار کی جیت کویقینی کامیابی میں بدل دیا جاتا۔ لیکن اس بار انہونی ہوئی، حکومت نے ضمنی انتخابات والے حلقوں میں لفٹ ہی نہیں کرائی اور اپنے امیدواروں کو ووٹروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جنہوں نے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا اور اپنے پسندیدہ امیدوار کو کامیاب کرایا قطع نظر اس کے کہ اس کا کس پارٹی سے تعلق ہے۔ ووٹروں نے مکمل طور پر اپنی مرضی کے مطابق اپنا حق استعمال کیا۔

ضمنی انتخابات سے قبل اور ابھی تک یہ چہ مگویاں ہو رہی ہیں کہ اسمبلیوں میں حکومتی پارٹی اور حزب اختلاف کی پارٹیوں کے طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اور کوئی وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب حکومتی اتحاد میں دراڑیں پر جائیں۔ حکومت مرکز اور خاص طور پر پنجاب میں اپنی اکثریت کھو بیٹھے۔ اس طرح کے تجزیئے آپ کو سننے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں ہمارے ساتھی اپنی اپنی پسند کے تبصرے کر رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ کا ووٹ بینک اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑا ہے اور اس نے ضمنی انتخابات میں بھی اپنی پارٹی کی بھر پور پذیرائی کی ہے اور امیدواروں کو کامیاب کرایا ہے۔

لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں، البتہ حکومت کے احتسابی عمل سے ہمارے بہت سارے سیاسی دوست ضرور خطروں سے دوچار ہیں اور کوئی وقت آیا چاہتا ہے جب یہ سب احتساب کے شکنجے میں ہوں گے اور اپنی تجوریوں کے منہ کھولنے کے لیے بھی تیار ہوں گے۔

حکومت کے زبردست نقاد میاں نواز شریف فی الحال خاموش ہیں البتہ انھوں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بہت جلد اپنی خاموشی توڑنے والے ہیں اور پھر وہ بہت کچھ بولیں گے۔ میاں نواز شریف نے جمہوری عمل کا حصہ بنتے ہوئے لاہور  کے اپنے آبائی حلقے میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے بھی پہنچے لیکن وہ اپنا شناختی کارڈ گھر بھول آئے اور یوں ان کو ایک پولنگ افسر نے حق رائے دہی سے محروم کر دیا حالانکہ میاں نواز شریف کسی تعارف یا شناخت کے محتاج نہیں ان کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دینی چاہیے تھی۔ کسی پولنگ ایجنٹ کو اس پر اعتراض بھی نہیں کرنا چاہیے تھا۔

بہر حال الیکشن کمیشن کے اصول جیت گئے اور ایسے ہی جیت گئے جیسے اس بار حکومت ضمنی الیکشن میں مداخلت سے باز رہی اور ضمنی الیکشنوں والے حلقوں میں اپوزیشن بھی جیت گئی لیکن ووٹر ترقیاتی کاموں سے محروم رہ گئے۔

ایک وکیل دوست بتا رہے تھے کہ ان کو ایک بہت بڑے آدمی کی جانب سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر وہ ہمت رکھتے ہیں تو ان کے ایک بینک اکاؤنٹ کی آدھی رقم لے لیں اور یہ وہ اکاؤنٹ ہے جو انھوں نے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا اور چھپایا ہوا ہے۔ میرے دوست نے جب یہ اکاؤنٹ چیک کرایا تو ا س میںکئی ارب کی رقم موجود تھی۔ میرا دوست جو کہ ٹیکس کا وکیل ہے اس نے آدھی رقم کے لالچ میں نہ آتے ہوئے ان بڑے صاحب سے فی الحال معذرت کر لی ہے۔

ایسے کئی اکاؤنٹ ہمارے ملک کے بینکوں میں موجود ہیں جن میں کالے دھن کے اربوں روپے جمع کرائے گئے ہیں اور اب تو غریب لوگوں کے نام پر کروڑوں اربوں کے خفیہ اکاؤنٹ ظاہر ہو رہے ہیں جن کو خود بھی معلوم نہیں کہ وہ راتوں رات کروڑ یا ارب پتی بن چکے ہیں۔ میری متعلقہ محکموں سے گزارش ہے کہ جن غریبوں کے نام پر یہ اکاؤنٹ کھولے گئے ہیں ان کو بھی ان میں سے کچھ حصہ دیا جائے تا کہ ان کی زندگیاں بھی سنور جائیں کیونکہ یہ ان کا حق بنتا ہے کیونکہ ان کا نام استعمال کر کے کالا دھن سفید کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس لیے اس کالے دھن میں سے کچھ کے حق دار وہ بھی ہیں۔

الیکشن کے تمام مراحل مکمل ہو چکے ہیں، حکومت کی دو ماہ کی مدت مکمل ہو چکی ہے اپوزیشن کا شور شروع ہو چکا ہے ۔ یہ سب مراحل ایک جمہوری حکومت اور جمہوری عمل کا حصہ ہیں اور جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ حکومت اپنے کام کرتی رہے اور اپوزیشن اس کے کاموں کو تنقید کا نشانہ بناتی رہیں، یہی ہمارے ہاں کا دستو ر ہے اور یہ دستورہم نے خود بنایا ہے اور اپنے آپ کو اس کا اسیر کر لیا ہے۔ اچھائی کے کاموں میں بھی تنقید کے لیے کچھ نہ کچھ ڈھونڈ لیا جاتا ہے اس دفعہ تو اپوزیشن نے تنقیدی سیاست میں بہت جلدی دکھائی ہے ابھی تو حکومت اپنی کمر سیدھی کر رہی ہے۔

اپوزیشن کو صبر کے ساتھ اپنے ترکش کے تیروں کو سنبھال کر رکھنا ہو گا تا کہ بوقت ضرورت ان کا ستعمال کر سکے اور ایسی صورتحال نہ ہو کہ شکار تو سامنے ہو مگر تیر انداز کی کمان خالی ہو ۔ ہواؤں میں تیر چلانے کے وقت گزر چکے، اب عمل کا وقت آ گیا ہے۔ گزشتہ دو حکومتیں اپنا پنج سالہ مکمل کر کے گئی ہیں اس لیے اپوزیشن جمع خاطر رکھے اور اپنی باری کا انتظار کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔