حکومت سچ نہیں بول رہی!

 جمعرات 18 اکتوبر 2018
سیاست میں ایسے جذباتی بیانات آتے رہتے ہیں جنہیں یوٹرن کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

سیاست میں ایسے جذباتی بیانات آتے رہتے ہیں جنہیں یوٹرن کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پی آٹی آئی حکومت کو جس ردعمل کا سامنا ہے یہ فطری ہے، جو درپیش مسائل ہیں وہ بھی فطری ہیں، سب کو حقیقت کا علم تھا لیکن پی ٹی آئی کی قیادت حقیقت کے برعکس جلسوں میں جوش پیدا کرنے کےلیے دعوے کرتی رہی۔ ملکی، عالمی میڈیا چیخ چیخ کر بیان کرتا رہا کہ پاکستان کی حالت یہ ہے، آئندہ حکومت کو معیشت کیسی ملے گی، دنیا حقیقت بتاتی رہی اور پی ٹی آئی قیادت مثالیت پسند بنی رہی۔ اسی طرح جیسی مثالیت پسندی صدیوں پہلے افلاطون نے بیان کی تھی، یہی حال ان کا ضمنی انتخابات سے پہلے بھی تھا۔ ایک دن جس پارٹی کے ٹوٹنے کے دعوے کیے جارہے تھے، دوسرے روز اسی نے دن میں تارے دکھا دیئے۔

عمران خان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے دنیا کی معاشی صورتحال پر نظر رکھنے والے ادارے ’’بلومبرگ‘‘ نے اپنی رپورٹس میں حکومت کو خبر دار کیا تھا کہ معاشی چیلنجز آپ کا استقبال کرینگے، نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ لیکن بجائے تسلیم کرنے کے جلسوں میں خودکشی کرنے تک کا اعلان کیا گیا۔ خیر سیاست میں ایسے جذباتی بیانات آتے رہتے ہیں جنہیں یوٹرن کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔

موجودہ حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے عوام کو جوش دلانے کے بجائے ہوش کے ناخن لے۔ دنیا میں کارکردگی جانچنے کا پیمانہ ماضی کو دیکھ کر حال میں مستقبل کےلیے بہتر پالیسیاں بنانا ہوتا ہے، پاکستان کا معاشی مسئلہ آج کا نہیں؛ یہ تو جنم دن سے ہے۔ حکومت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ جمہوری حکومتوں کو ملنے والا پاکستان اچھا نہیں تھا، جنرل یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو آدھا پاکستان دیا، جس کے نوے ہزار فوجی بھارتی جیلوں میں قید تھے، ملک میں سیاسی عدم استحکام تھا۔ بے نظیر بھٹو کو جنرل ضیاء کا منافرت زدہ پاکستان ملا، آصف زرداری اور نواز شریف کو بارود میں جلتا وطن ملا۔ یہ وہ سچ ہے جسے حکومت بولنے میں ہچکچاتی ہے یا خوف کھاتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ گزشتہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں نے بہت زیادہ قرضے لیے۔ سچ بات ہے، لیکن ان 10 سالوں کے دوران پاکستان دہشتگردی کے خلاف ایک بڑی جنگ بھی لڑتا رہا ہے، اور خصوصاً گزشتہ 5 سال میں آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں پورے قبائلی علاقے میں نہ صرف فوجی آپریشن ہوئے بلکہ ایک بڑی آبادی کا انخلا بھی ہوا۔ اس بدامنی کے باوجود جی ڈی پی 5.8 فی صد رہی اور یہ معاشی شرح نمو 13 سال کی بلند ترین سطح ہے۔

پاکستان کا مجموعی جی ڈی پی ایک ہزار 141 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے، اگر اس کو روپے میں منتقل کریں تو گنتے گنتے آپ تھک جائیں گے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان 195 ملکوں میں سے 25ویں درجے پر کھڑا ہے، بینک دولت پاکستان کے سہ ماہی جائزے کو بغور دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ زراعت میں ترقی 3.8 فیصد، صنعت میں 5.8 فیصد، بڑے پیمانے کی اشیاء سازی 6.1 فیصد، خدمات 6.4 فیصد، نجی شعبے کے قرض میں 9.1 فیصد، برآمدات میں 13 فیصد اور درآمدات میں 15.8 فیصد اضافہ ہوا۔ اس تمام ترمعاشی ترقی کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کے محاصل بھی بڑھے اور پاکستان نے تاریخ میں پہلی مرتبہ 3 ہزار 800 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا۔ جبکہ سال 2007ء میں یہ ٹیکس وصولی ایک ہزار ارب روپے تھی۔

گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا جو اصل پریشانی کی وجہ ہے۔ اور اسی کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائرمیں تیزی سے کمی ہورہی ہے جو جولائی میں 16 ارب 89 کروڑ ڈالر تھے اور اب کم ہوکر 14 ارب 89 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک زرمبادلہ ذخائر میں 2 ارب ڈالر سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے صرف پچاس دنوں میں پاکستان 900 ارب روپے کا مقروض ہوگیا۔ قیامِ پاکستان سے لے کر سال 2018ء تک ملک کو جس معاشی چیلنج کا ہمیشہ سے سامنا رہا وہ ہے زرمبادلہ کے ذخائر کا۔ پاکستان کے قیام سے اب تک ملک نے 300 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ کیا ہے اور یہ رقم مختلف ملکوں یا عالمی اداروں سے ملنے والی امداد یا قرض سے پوری کی ہے۔

حکومت چاہتی تو آئی ایم ایف نہ جانے کی ہمت بھی کرسکتی تھی لیکن تھوڑے سے دباؤ میں ہی اس کی ہمت جواب دے گئی۔ حالانکہ موجودہ حکومت کے وہ حالات نہیں جو نواز شریف کو ملک کا اقتدار سنبھالتے وقت تھے۔ آئی ایم ایف مغرب کی معاشی سیاست کو کنٹرول کرنے کا ایک ہتھیارہے، اس پر امریکا اور مغربی ملکوں کی اجارہ داری ہے۔ قرض لینے والے ملکوں سے نہ صرف مقامی معیشت کو کنٹرول کیا جاتا ہے بلکہ ان ملکوں کی خارجہ پالیسی پر بھی شرائط عائد کی جاتی ہیں۔ پاکستان چاہتا تو ترکی کی طرح آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھا سکتا تھا، اردگان کو تو امریکی پابندیاں نہ جھکا سکیں لیکن ہمارا ’’اردگان‘‘ سجدہ ریز ہوگیا، اب ان کی اپنی شرائط ہونگی اور ہم مانیں گے۔

خیر یہ حکومت کی مجبوری تھی جس کا وزیر خزانہ نہ صرف اعتراف کرچکے ہیں بلکہ اپنے سابق ہم منصب اسحاق ڈار کو اس حوالے سے کلین چٹ بھی دے چکے ہیں۔ اب آتے ہیں حکومت کے ان اقدامات کی جانب جو وہ ایجنڈے کی تکمیل کےلیے کررہی ہے۔ سوائے معاشی صورتحال کو ڈسٹرب کیے اب تک حکومت بہتری کی جانب بڑھ رہی ہے، دو ماہ میں حکومت نے اپنے نامہ اعمال میں عوام سے سخت ردعمل پایا ہے تو اس کی وجوہات میں سخت فیصلے شامل ہیں۔ عوام کو زیادہ ڈسٹرب کرنے والے فیصلے حکومت نے نہیں کیے، لیکن عمل کرنے کی صورت میں سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔

پنجاب سے تجاوزات کے خاتمے اور ٹریفک چالان کا فیصلہ عدالت نے کیا، آنکھیں بند کرکے عمل حکومت نے کیا۔ ’’کلین اینڈ گرین پاکستان‘‘ اور ’’نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم‘‘ کا آغاز حکومت کے بہترین اقدامات ہیں۔ بلدیاتی نظام میں اصلاحات کےلیے کام، ٹیکس اسٹرکچر میں تبدیلیاں اہم کام ہے، پانی اور بجلی کے بحران کے طویل مدتی منصوبے کے تحت ڈیم فنڈ کا قیام چونکہ عدالت کا کام ہے لیکن اس کا کریڈٹ بھی حکومت کو ہی جاتا ہے۔ فیصل آباد اور لاہور کی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے ایک بار پھر کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ریلوے میں نئی گاڑیاں، پی آئی اے میں نئے جہاز شامل کیے گئے، سادگی مہم کے ذریعے کروڑوں روپے کی بچت جبکہ غیرضروروی گاڑیوں کی فروخت سے قومی خزانے میں کروڑوں روپے کا اضافہ ہوا ہے، کرپشن کے خاتمے کےلیے برطانیہ اوردیگر ممالک سے معاہدے، کرپٹ لوگوں کی گرفتاریاں، گورنر ہاؤسز کو عوام کےلیے کھولنا بہترین اقدامات قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ اب تک سب سے بہتر کارکردگی وزارت خارجہ کی رہی ہے جس نے کشمیر اورگستاخانہ خاکوں پر دو ٹوک موقف اختیار کرکے دنیا کو جگایا ہے۔ حکومت کے اقدامات دیرپا ہیں جن کو پھولنے پھلنے میں وقت لگے گا۔

سابقین میں سب برا تھا نہ حاضرین میں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ بحیثیت قوم ہم میں ہے، ہم بیک وقت ڈاکٹر، دانشور، انجینئر، مزدور، سیاستدان سب بن بیٹھتے ہیں لیکن اپنا کام ڈھنگ سے نہیں کرپاتے۔ ہماری مثال ایسے شتر مرغ سی ہے جس سے کسی نے پوچھا کہ تم اڑتے کیوں نہیں ہو؟ تووہ بولامیں تواونٹ ہوں، اونٹ بھی کبھی اڑتے ہیں؟ جب اِس سے کہا گیا تم اونٹ ہوتو بوجھ اٹھایا کرو۔ توشترمرغ ہنس کربولا، جا… کہیں پرندے بھی بوجھ اُٹھاتے ہیں؟

الزام لگانا، اپنی نااہلی کا دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانا فیشن بن چکا ہے۔ ہرایک اپنی ذمہ داریوں اور کرتوتوں کوماننے کی بجائے دوسروں کے سرتھوپنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ دوسروں پر الزام لگاتے ذرا بھی نہیں ہچکچاتا۔ یہاں بڑے بڑے شترمرغ پائے جاتے ہیں۔ اس ’’الزامی دنگل‘‘ میں ملک کی چھوٹی بڑی تمام پارٹیاں شامل ہیں۔ حکومت اپنے گناہ اپوزیشن کے سر ڈالتی ہے تو اپوزیشن حکومت اور انتظامیہ کو قصور وار ٹھہراتی ہے؛ دونوں طرف سے پورا سچ نہیں بولا جارہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔