- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
- گداگروں کے گروپوں کے درمیان حد بندی کا تنازع؛ بھیکاری عدالت پہنچ گئے
- سائنس دانوں کی سائبورگ کاکروچ کی آزمائش
- ٹائپ 2 ذیا بیطس مختلف قسم کے سرطان کے ساتھ جینیاتی تعلق رکھتی ہے، تحقیق
- وزیراعظم کا اماراتی صدر سے رابطہ، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور
- پارلیمنٹ کی مسجد سے جوتے چوری کا معاملہ؛ اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹس لے لیا
- گزشتہ ہفتے 22 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں، ادارہ شماریات
- محکمہ موسمیات کی کراچی میں اگلے تین روز موسم گرم و مرطوب رہنے کی پیش گوئی
- بھارت؛ انسٹاگرام ریل بنانے کی خطرناک کوشش نے 21 سالہ نوجوان کی جان لے لی
- قطر کے ایئرپورٹ نے ایک بار پھر دنیا کے بہترین ایئرپورٹ کا ایوارڈ جیت لیا
- اسرائیلی بمباری میں 6 ہزار ماؤں سمیت 10 ہزار خواتین ہلاک ہوچکی ہیں، اقوام متحدہ
- 14 دن کے اندر کے پی اسمبلی اجلاس بلانے اور نومنتخب ممبران سے حلف لینے کا حکم
بین الاقوامی ماہرین نے 31 پراسرار اورلاعلاج امراض شناخت کرلیے
نیویارک: تمام تر طبی ترقی کے باوجود اب بھی ترقی یافتہ ممالک میں ایسے مریض موجود ہیں جو قابل ترین ڈاکٹروں کو طبی تشخیص میں کامیابی سے دور رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں قائم بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم بنائی گئی ہے جسے ’غیرتشخیص شدہ امراض کا نیٹ ورک‘ یا یو ڈی این کا نام دیا گیا ہے۔
2014 میں قائم اس نیٹ ورک نے اب تک 31 ایسی کیفیات کی وضاحت کی ہے جنہیں لاعلاج اور ناقابلِ تشخیص مرض سمجھا جاتا رہا تھا۔ کئی ناقابلِ حل کیسوں کی وضاحت کے بعد ماہرین مزید بیماریوں پر بھی غور کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بعض طبی کیفیات اور امراض کے کیسز سامنے آتے ہیں جو خود ماہر طبیبوں کو حیران کردیتے ہیں۔ انہیں غیر حل شدہ طبی کیسز کہا جاتا ہے۔
نیٹ ورک میں شامل مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے قابل ڈاکٹر اور ماہرین، مرض کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں جن میں علامات، بایوکیمسٹری، جینیات اور دیگر علامات کو دیکھا جاتا ہے۔ یہ ڈاکٹر کسی سراغرساں کی طرح مرض کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کےلیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور ادویہ بھی استعمال کی جاتی ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس کےلیے باقاعدہ طور پر ایسے مریضوں کو تلاش کیا جارہا ہے۔ اس کے اخراجات مختلف اداروں کی مالی مدد سے پورے کیے جاتے ہیں اور مریض پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا۔ یو ڈی این کے مطابق مریض کو ایک جگہ بلاکر تمام ڈاکٹر اس کے پاس پہنچتے ہیں۔
اپنے اعلان کے بعد اس تنظیم کو 2780 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ان میں سے 1,179 قبول کرلی گئیں اور مزید 907 ابھی غور کے مراحل میں ہیں۔ یو ڈی این کے مطابق انہوں نے 382 پراسرار معاملات کو 35 فیصد تک حل کرلیا ہے۔ ایک کیس کی 80 فیصد تشخیص مکمل ہونے کے بعد تنظیم قابلِ عمل معلومات فراہم کرے گی جن میں دواؤں یا علاج میں تبدیلی، نئے ٹیسٹ اور مریض کے خاندان کی اسکریننگ وغیرہ شامل ہیں۔
اب تک یہ تنظیم 31 نئی کیفیات یا بیماریوں کو نوٹ کرچکی ہے۔ بعض مریض اپنی کیفیت کی تفصیلات جان کر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ مرض کا پتا چل جانا بھی ان کےلیے اطمینان کی وجہ بنتا ہے۔ ایک مریض کے جسم میں طویل عرصے سے لیکٹک ایسڈ جمع ہورہا تھا جو جان لیوا ثابت ہوسکتا تھا۔ آخری مرحلے میں مائٹوکونڈریائی جین میں کچھ تبدیلی نوٹ کی گئی اور اس کا علاج ممکن ہوا۔
ماہرین پرامید ہیں کہ اس سے عالمی سطح پر ان کئی امراض کے علاج میں بہت مدد ملے گی جو ایک عرصے سے لاعلاج تصور کیے جاتے رہے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔