ابتدائی کائنات میں ستاروں اور کہکشاؤں کا سب سے بڑا جھرمٹ دریافت

ویب ڈیسک  جمعرات 18 اکتوبر 2018
کائنات کی تخلیق کے دو ارب تیس کروڑ سال بعد بننے والا ہائپیریئن جھرمٹ جس کا ڈیٹا وائی ایم او ایس سے لیا گیا ہے ۔ (فوٹو: ای ایس او)

کائنات کی تخلیق کے دو ارب تیس کروڑ سال بعد بننے والا ہائپیریئن جھرمٹ جس کا ڈیٹا وائی ایم او ایس سے لیا گیا ہے ۔ (فوٹو: ای ایس او)

چلی: فلکیات، کائنات کے ماضی میں جھانکنے کا دوسرا نام بھی ہے۔ اب ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے قدیم کائنات میں ایک جگہ اتنی بڑی ساخت دریافت کی ہے جو اب تک ہماری معلومات کے لحاظ سے اجرامِ فلکی کا سب سے بڑا ابتدائی جھرمٹ (پروٹو سپر کلسٹر) بھی ہے۔

اگرچہ اس طرح کے کسی جھرمٹ کو فلکیات کی زبان میں ’’جھرمٹوں کا جھرمٹ‘‘ (سپر کلسٹر) کہا جاتا ہے لیکن بگ بینگ کے بعد، کائنات کی پیدائش کے صرف دو ارب تیس کروڑ سال بعد بننے والے اس جھرمٹ کو ’’پروٹو کلسٹر‘‘ کہا جائے تو درست ہوگا۔ تاہم ماہرین نے دیگر آسمانی اجرام کی طرح اسے بھی یونانی دیوتا ہائپیریئن کا نام دیا ہے جو ایک بہت بڑے دیوتا کی اولاد تھا۔

ماہرین کے مطابق ہائپیریئن کی کمیت چکرا دینے والی ہے جس میں کروڑوں نوری سال پر پھیلی ہوئی ہزاروں بہت بڑی کہکشائیں اور ان کے اجسام دیکھے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اسے جان کر ابتدائی کائنات میں ستاروں، کہکشاؤں اور سیاروں کے ارتقا کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔

ماہرینِ فلکیات کی بین الاقوامی ٹیم نے پرانے ڈیٹا اور نئے مشاہدوں کی بدولت اسے دریافت کیا ہے۔ ڈیٹا کا اہم حصہ یورپی سدرن آبزرویٹری کے ویری لارج ٹیلی اسکوپ پر نصب ایک خاص آلے سے حاصل کیا گیا ہے جسے وزیبل ملٹی آبجیکٹ اسپیکٹروگراف (وی آئی ایم او ایس) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ رصدگاہ چلی میں واقع ہے۔

وائموس دور دراز کہکشاؤں کی روشنی کو طیف (اسپیکٹرم) میں دکھاتا ہے اور ہر شے کو روشنی کے ایک فنگرپرنٹ کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔ اسے دیکھ کر ماہرین اجسام کی ساخت، کیفیت اور دیگر تفصیلات معلوم کرتے ہیں۔ ماہرین نے جب اس کا مطالعہ کیا تو حیران رہ گئے ۔

ہائپیریئن میں 10 ہزار سے زائد کہکشائیں ہیں اور ان میں کمیت (ماس) بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے جو ہموار انداز کے بجائے کہیں کم اور کہیں زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ ہائپیریئن پروٹو سپر کلسٹر کا یہ منظر آج سے تقریباً 11 ارب 40 کروڑ سال پہلے کا ہے یعنی آج اس کا کوئی وجود نہیں۔ البتہ، ہم اس کی وہ روشنی ہی دیکھ پا رہے ہیں جو لگ بھگ ساڑھے گیارہ ارب سال پہلے وہاں سے چلی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔