نئی حکومت نئے خواب

عبدالقادر حسن  جمعرات 18 اکتوبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

نئی حکومت کے قیام کے بعد موجودہ مالی سال کے باقی ماندہ مہینوں کے وفاقی اور صوبائی بجٹ تیار کر کے عوام کو پیش کیے جا رہے ہیں۔

نئے بجٹ چونکہ نئی حکومت پیش کر رہی ہے اس لیے بڑی باریک بینی سے بچ بچا کر اور سوچ سمجھ کر نئے ٹیکس لگانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے کیونکہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے عوام کو نئے پاکستان کے متعلق اتنے زیادہ خواب دکھا دیے کہ اب عوام اپنا نیا پاکستان ڈھونڈ رہے ہیں لیکن ان کو پرانا پاکستان بھی نہیں مل رہا۔

یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ٹیکسوں میں اضافہ تو بہرحال ہونا ہی ہے ہنر مندی اور فن کاری اس میں ہے کہ عوام کو فوری طور پر ٹیکس محسوس نہ ہوں لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو ہمارے مالیاتی ماہرین ایک سرتاپا مقروض ملک کا ٹیکس فری بجٹ کیسے بنا سکتے ہیں اور اس بات کا عندیہ ہمارے وزیر خزانہ نے عالمی مالیاتی ساہوکاروں سے ملاقات کے بعد سے بھی دیا ہے کہ ان کے پاس عوام کے لیے کوئی اچھی خبریں نہیں ہیں۔ قرضوں میں جکڑے ملک کو پرانے قرضوں کی قسطیں بھی ادا کرنی ہیں اور حکومتی اخراجات بھی پورے کرنے ہیں علاوہ ازیں مزید قرض لینے کے لیے اپنے آپ کو اہل اور مستحق بھی ثابت کرنا ہے ۔

ہمارا مالیاتی نظام جس انداز میں چل رہا ہے اس کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ آیندہ سال موت کا سال ہو گا یا یوں کہہ لیجیے کہ سال رواں موت اور خود کشیوں کا سال تھا اور آیندہ سال اموات اور وسیع پیمانے پر خود کشیوں کا سال ہو گا اور یہ اس لیے کہ ہمارے حکمران طبقے نے عوام کو مہنگائی کے بوجھ کے نیچے دبا دیا ہے اور اپنے اخراجات میں وہ کمی نہیں کی جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔

اگر یہ بات غلط ہے تو کوئی بتائے کہ حکمرانوں ، ان کے وزیروں ، سیکریٹریوں ، دوسرے بڑے افسروں اور بدرجہ وزیر نئی نئی تقرریوں کے اخراجا ت میں کیا کمی کی گئی ہے۔ ملک کی پیداوار بڑھانے کے لیے کیا کوششیں کی جا رہی ہیں اوربند کارخانوں کو چالو کرنے کے لیے کیا نئے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔

یہ بات درست ہے کہ نئی حکومت کی اپنی ترجیحات ہیں اور اسے اپنی ترجیحات پر عمل درآمد کے لیے وقت بھی چاہیے لیکن عوام کو جو خواب دکھائے گئے تھے ان کو پورا کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ان کے بارے میں عوام سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔مگر ہماری حالت تو سب کے سامنے ہے حکومت کے نمایندے نہ بھی بتائیں لیکن روز بروز بڑھتی مہنگائی سب کچھ بتا رہی ہے ہمارے اندرونی ساہوکار مہنگائی کی بڑی وجہ ہیں جو سنی سنائی باتوں پر ہی مہنگائی میں اضافہ کر دیتے ہیں اور ان کا جس طبقے سے تعلق ہے اس طبقے کوسات خون معاف ہیں یعنی جب چاہئیں اور جیسے چاہئیں جنس کی قیمت بڑھا دیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو۔

بنیادی بات یہ ہے کہ ملک کی آمدنی بڑھانے کے لیے کیا لائحہ عمل مرتب کیا جا رہا ہے کیونکہ جب تک ملکی آمدن میں اضافہ نہیں ہو گا تو پھر قرض ہی بڑھے گا اور اس صورت میں پھر جو بجٹ بنے گا وہ موت کا نہیں تو کیا زندگی کا بجٹ ہو گا۔ ہمارے سابق وزیر خزانہ تو اس بے وقوف قوم سے اس بات پر بھی داد وصول کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ قرض لے کر اس کو قومی خزانے میں ڈال کر یہ اعلان کرتے تھے کہ خزانے میں اتنے ڈالر جمع ہو گئے ہیں۔

جناب عمران خان کے اقتدار میں آنے سے ملک کی سیاست میں ایک بنیادی تبدیلی آئی اور صنعتکاروں کی جگہ نسبتاً زمینداروں کی حکومت کا دور شروع ہوا ہے ۔ حکمرانی کی اس تبدیلی کو ایک انقلاب سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔ حکمرانی نہ صرف صنعتکاروں سے زمینداروں کو منتقل ہوئی ہے بلکہ کسی حد تک شہروں سے دیہات میں بھی آگئی ہے کہ عمران خان کے بااعتماد ساتھیوں میں سے اکثریت دیہات سے تعلق رکھنے والے زمینداروں کی ہے۔ اس بہت بڑی اور نمایاں تبدیلی سے پاکستان کے عوام نے قدرتی طور پر بہت زیادہ توقعات باندھ لی ہیں اور اس میں ان کا کوئی قصور اور حماقت نہیں ہے الیکشن اور پھر اقتدار میں آنے کے ابتدائی دنوں میں اصل حکمرانوں کی تقریریں یاد کریں تو یہ کسی انقلاب کی نوید دیتی تھیں۔ پاکستان کے عوام اس تبدیلی پر بہت خوش تھے اور میرے جیسے لوگ جو زرداریوں اور شریفوں سے ڈرے ہوئے تھے نئے حکمرانوں کی بلند آہنگ مدح میں دن رات مصروف ہو گئے مگر نئے حکمرانوں نے مختصر سے عرصے میں اتنی ہڑبونگ مچائی اور اس قدر گرد وغبار اڑایا کہ ہماری آواز بیٹھ گئی ۔

اگرچہ ایسے کئی پہلو موجود ہیں کہ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کا موازنہ کریں تو نئے حکمران بہت اچھے لگتے ہیں لیکن توقعات موازنے کی حد تک محدود نہیں تھیں بلکہ امید یہ تھی نئے حکمران ملک کی معیشت میں انقلاب برپا کر دیں گے انھیں ووٹ بھی اسی لیے دیے گئے تھے لیکن ابھی تک عوام کو حکومت کی سمت بھی دکھائی نہیں دے رہی ہے کہ حکومت ان کے لیے کیا کرنے جارہی ہے ۔

عوام کو ڈرایا جارہا ہے ایسے ہی جیسے گزشتہ کئی برسوں سے عوام کو ہر آنے والا حکمران ڈراتا رہا اور ایک اچھے مستقبل کے خواب دکھاتا رہا لیکن وہ خواب خواب ہی رہے اور کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ ماضی کے حکمرانوں سے ڈسی ہوئی یہ قوم ذرا سی آہٹ ہونے پر بھی ڈر جاتی ہے۔نئے حکمران بھی روشن مستقبل کے لیے خواب دکھا رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ مشکلات کا ذکر بھی جاری ہے ۔ انتظار کرتے ہیں کہ ان کی پٹاری سے کیا برآمد ہوتا ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح عوام بے وقوف ہی بنتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔