ذکر ایک گفتگو کا

مقتدا منصور  جمعرات 18 اکتوبر 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

چند روز ہوئے ہمارے ایک ساتھی ، مگر بہت زیادہ با خبر صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں NKLفارمولے کا تذکرہ کیا ہے۔ یعنی اہم حلقے سیاست سے نواب شاہ کے آصف زرداری،کراچی کے الطاف حسین اور لاہور کے شریف خاندان کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ ایک کو بے دخل کردیا گیا ہے، دوسرے پر کام جاری ہے، جب کہ تیسرے کا نمبر آیا چاہتا ہے۔ انھوں نے اپنے کالم میں جو انکشافات کیے ہیں، ان کا اظہار ہم 2012 سے تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں۔

فرق یہ ہے کہ ہم سندھ نامی نوآبادی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ہیں، جب کہ سہیل تخت لاہور، جو اصل میں تخت پاکستان ہے، کے سینئر صحافی ہیں۔ وہ بہت کچھ کھل کر لکھ اور کہہ سکتے ہیں، مگر رعیت کو لکھنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے ، مگر اس کے باوجود ہم اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی جسارت کرچکے ہیں۔

ہم چھ برس سے مسلسل لکھ رہے ہیں کہ فیصلہ ساز قوتیں ملک میں کئی ایسے اقدامات کرنے کا فیصلہ کرچکی ہیں، جن کے کثیر الجہتی مقاصد ہیں۔اول، سیاسی (یعنی جمہوری )عمل کوکنٹرول میں رکھا جائے، تاکہ اہم قومی پالیسیاں (خارجہ،داخلہ اور مالیاتی ) مکمل طور پر سیاست دانوں کے دائرہ اختیار میں نہ جانے پائیں۔ دوئم، 18ویں ترمیم کی بعض شقوں میں ترامیم کرائی جائیں، جو ریاستی مقتدرہ کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ سوئم، کراچی کو براہ راست اسلام آباد سے چلایا جائے، تاکہ کراچی کے وسائل پر مکمل کنٹرول قائم رکھا جا سکے۔

ہماری باتوں کے علاوہ سہیل وڑائچ کے تجزیے کی تصدیق کچھ روز قبل ایک تقریب میں ہوئی، جہاں ایک اہم شخصیت سے اس موضوع پر کھل کر گفتگوکرنے کا موقع ملا ۔ ان کا کہنا تھا کہ متذکرہ بالاتینوں سیاسی شخصیات کی طرز سیاست اور18ویں ترمیم کی بعض شقیں قومی مفاد میں نہیں ہیں۔ استفسارکیا کہ تفصیل کے ساتھ اپنے اعتراضات پر روشنی ڈالیں، تو انھوں نے پہلے18ویں ترمیم پر بات کرنے کو ترجیح دی ۔ان کا کہنا تھاکہ اس ترمیم کی بعض شقوں بالخصوص تعلیم کے شعبے کامکمل اختیار صوبوں کودیا جانا ، قومی وحدت ویکجہتی کے لیے نقصان دہ ہے۔ پوچھا کہ ایسا کیوں کر ہے؟

جواب آیا کہ جب ہر صوبہ اپنی تعلیمی پالیسی تشکیل دے گا ، تو کسی کی پالیسی سیکیولر ہوگی، کسی کی مذہبی اورکسی کی نیم مذہبی۔ یوں اس پالیسی کے نتیجے میں ملک میں فکری انتشار پھیلے گا۔ مودبانہ عرض کیا کہ امریکا سمیت دنیا کی تمام وفاقی جمہوریتوں میں تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبہ بندی ریاستوں (صوبوں) کا استحقاق ہوتی ہے ۔ وفاقی حکومتیں ان شعبہ جات میں مداخلت نہیں کرتیں ۔ جواب آیا ان میں اور ہم میں بہت فرق ہے۔ ہم نظریاتی مملکت ہیں، وہ نہیں ہیں۔ اس لیے ہم اتنی زیادہ وفاقیت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

پوچھا اربن سندھ میں تحریک انصاف کو مسلط کیے جانے کے پس پشت کیا سوچ کار فرما ہے؟ جواب ملا کہ کراچی ملک کی ایک اہم بندرگاہ اور تجارتی مرکز ہے۔ اسے کسی صوبائی سطح کی جماعت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پوچھا کہ جب جنرل ضیاکے دور میں اس تنظیم کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا ، تو کیا اس وقت اس پہلو پر غور نہیں کیا گیا تھا؟ مسکرا کر فرمایاکہ اس وقت کی ضروریات مختلف تھیں۔ لیکن 1992میں اس جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن کا مقصد اسے Cut to sizeکرنا ہی تھا، مگر حکمت عملی میں کچھ نقائص رہ جانے کی وجہ سے اس وقت یہ عمل تکمیل پذیر نہیں ہوسکا۔

عرض کیا کہ پہلے انتخابات سے کراچی پیپلز پارٹی کا اکثریتی شہر نہیں رہا ہے۔بلکہ اربن سندھ کی نمایندگی 1947سے 1977 تک ان دو مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں میں رہی، جو منصوبہ سازوں کے قریب تصور کی جاتی ہیں،کیا ان پر سے بھی اعتبار اٹھ گیا؟ فرمایا ان میں میگا سٹی کے معاملات و مسائل کو سمجھنے اور چلانے کی وہ استعداد نہیں ہے، جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ایم کیوایم کو بعض اہداف کے حصول کی خاطر ڈھیل دی گئی تھی، مگر وہ بھی ناکام رہی۔

اس کے بعد فرمایا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)میں کراچی کی اکثریتی آبادی کو attract کرنے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ ہی منصوبہ ساز ان پر اعتبار کرتے ہیں۔تحریک انصاف نے 2013کے عام انتخابات میں ثابت کیاکہ وہ ایم کیوایم کا متبادل ہوسکتی ہے، اس لیے اس کی مزید حوصلہ افزائی کی گئی۔ مزید ارشاد فرمایا کہ دھاندلی وہاں کارگرہوتی ہے، جہاں مناسب تعداد میں Genuine ووٹ موجود ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف میں ان تمام لوگوں کو شامل کرایا گیا ہے، جو مضبوط مرکز کے حامی  ہیں۔ اس لیے امید ہے کہ وہ مرکز کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کرے گی۔

پوچھا ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟ فرمایاکہ ایم کیوایم جلد بدیر تحریک انصاف میں ضم ہوجائے گی یا پھر ایک غیر فعال سی جماعت کے طور پراپنا تشخص قائم رکھنے پر مجبور ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی بڑی جماعت ہے، عوام میں جڑیں رکھتی ہے،اس لیے امید ہے کہ اندرونی تطہیر کے بعداگر بلاول نے سوجھ بوجھ سے کام لیا اور خود کو اپنے والد کی پالیسیوں سے دور (Distance)کرلیا، تو مستقبل میں پارٹی بہتر پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے، تو بکھر جانا اس کا مقدر ہے ۔ شریف خاندان منصوبہ سازوں کے لیے کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہے۔ ویسے بھی مسلم لیگ (ن) کوئی نظریاتی جماعت نہیں ہے۔یہ بھان متی کا کنبہ ہے۔

عرض کیا کہ اگر آپ کے نقطے سے اختلاف کی کوئی گنجائش ہو، تو کچھ عرض کروں۔ ہنس کر فرمایا کہ کیوں نہیں۔ہمارا کہنا تھا کہ تمام ترکوششوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے اس طرح حصے بخرے نہیں ہوسکے ہیں، جس کی توقع کی جا رہی تھی اور نہ ہی شریف برادران کی مقبولیت میں کوئی کمی آسکی ہے۔ اس پر وہ پھر زیر لب مسکرائے اور فرمایا کہ دیکھتے جائیں،اگلے چند ماہ میں کیا ہونے والاہے۔پھر پوچھا کہ آیا منصوبہ ساز تحریک انصاف کی دو ماہ کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ توایک بار پھر لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ دوڑ گئی۔ کہنے لگے،اتنا سمجھ لیجیے کہ اس مرتبہ صرف عمران خان پر تکیہ نہیں کیا گیا ہے۔

اب تک ہم صرف سوال کررہے تھے یا لقمہ دے رہے تھے۔اب کھل کر بولنے کی باری تھی۔ کہا کہ حضور آپ کے تمام اصول و ضوابط اور خدشات اپنی جگہ درست سہی، مگر اس ملک کو اب تک جو نقصان پہنچا ہے، اس کا account بھی کسی نے جمع کیا ہے یا نہیں؟کیا وفاقیت کے تصور سے انکار کے نتیجے میں  بنگال کو علیحدہ ہونے اور سندھ اور بلوچستان میں ریاست گریز تصورات کو پنپنے کا موقع نہیں ملا ؟ کیا روز اول سے متوازی حکومتوں کے نظام کی وجہ سے پاکستان نظم حکمرانی کے بحران میں مبتلا نہیں ہوا؟ کیا ملکی معیشت ادارہ جاتی تصادم اور ریاست کے اندر ریاست کے تصورکی وجہ سے تباہی کے دہانے تک نہیں پہنچی؟ کیا امریکا سمیت دنیا کے وہ ممالک انتشار کا شکار ہیں، جہاں ریاستیں (صوبے) تعلیمی پالیسیاں بناتی اور چلاتی ہیں؟

وہ خاموشی سے میرے سوالات سنتے اور تلخ ہوتے لہجے کو برداشت کرتے رہے۔ جب میں نے ذرا سا توقف کیا، تو مسکراکر فرمایا تجزیہ نگاری اور حکمرانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کی دانش پر ملک نہیں چلا کرتے۔ اس لیے آپ اپنی دانست جو بہتر سمجھتے ہیں لکھتے رہیے، حکمرانوں کو جو مشورہ بہتر لگے گا قبول کرلیں گے۔ اس سے قبل کہ میں ان کی بات کا کوئی جواب دیتا، وہ گاڑی میں بیٹھ کرہاتھ ہلاتے ہوئے روانہ ہوچکے تھے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔