افغان امن، مولانا سمیع الحق اور افغانستان کے انتخابات

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 19 اکتوبر 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

آج افغانستان جس بدحالی اور بربادی کی تصویر بنا نظر آرہا ہے،اِس کی ذمے دار ی رُوس، امریکا، افغان وار لارڈز کے سر ہے۔ سب نے مل کر بے بس افغانستان اور افغان شہریوں کو تباہ کیا ہے۔کرپٹ افغان حکمرانوں نے تو اس ملک اور اس کے غریب عوام کی رُوح تک فروخت کرد ی ہے۔

آج کا افغانستان ایک کھنڈر ہے۔ یہ کھنڈر بھی مگر امریکا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سخت جان افغان طالبان کے ہاتھوں پے در پے ناکامیوں نے انکل سام کو بددل تو کیا ہے لیکن وہ افغانستان کی سرزمین سے فی الحال نکلنے کو تیار نہیں ہے۔ امریکا پچھلے سولہ برسوں میں افغانستان میں815 ارب ڈالر پھونک چکا ہے لیکن ’’بے وفا‘‘ افغان سرزمین میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

فرسٹریشن میں اب وہ اپنی ناکامیوں کا پشتارہ پاکستان کے کندھوں پر ڈالنا چاہتا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں امریکیوں کی مقدور بھر مدد کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن اُس کی لالچی مدد اُلٹا افغان امن کو چاٹ گئی ہے۔ افغانستان شائد آج کی دُنیا کا بدامن ترین ملک ہے۔ اس کی بدامنی نے سب سے زیادہ پاکستان کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ خیر خواہی، برادرانہ جذبات اور ہمسایہ ملک کی بہتری کے ناتے یہی کوشش کی ہے کہ افغانستان میں امن کی بہاریں واپس آ جائیں۔

پاکستان نے افغان امن عمل کو کامیاب کرنے کے لیے دُنیا کے ہر فورم پر افغانستان کی اعانت کی ہے مگر افغان حکمرانوں اور افغان خفیہ اداروں کی طرف سے پاکستان کو ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا بھی نہیں ملا۔ پاکستان کے خلاف دہشتگردی کرنے والے ہر عنصر کو افغان حکام نے اپنے ہاں پناہ بھی دی اور دامے درمے اُس کی سرپرستی بھی کی ہے۔ پاکستان مخالف وارداتوں میں افغانستان کے ساتھ بھارت بھی شامل ہے۔ پاکستان پھر بھی افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں سے دستکش نہیں ہُوا ہے۔

عمران خان حکومت میں آئے ہیں تو اُن کی طرف سے بھی افغانستان کو قیامِ امن کے لیے فوری پیشکش کی گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے حکم سے افغانستان کو 40 ہزار ٹن مفت گندم کی فراہمی بھی شروع کر دی گئی ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی، نے اپنا پہلا غیر ملکی دَورہ بھی خیر سگالی کے لیے افغانستان ہی کا کیا ہے۔ ہمیں تو افغانستان کا امن مقصود ہے۔

ابھی چند دن پہلے افغان علمائے کرام کا ایک وفد پاکستان تشریف لایا تو ایک بار پھر پاکستان اور ہمارے علما نے اُن کا خوش دلی سے استقبال کیا۔ ممتاز افغان عالمِ دین مولوی عطاء اللہ لودین اس وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ مولوی عنائت اللہ، مولوی عبدالحمید چکوٹی، مولوی عطاء الرحمن، مولوی محمد قاسم حلیمی وغیرہ ایسے اہم افغان علما بھی اس وفد کا حصہ تھے۔ آمد کا مقصد تھا: پاکستان اور پاکستان کے موثر علمائے کرام کی مدد سے افغانستان میں قیامِ امن۔ یہ وفد دراصل ’’افغان عمل کونسل‘‘ کا سرکاری جزو بھی ہے۔ ویسے تو یہ افغان علما امیر جماعتِ اسلامی، جناب سراج الحق، سے بھی ملا لیکن اُن کی پاکستان آمد کا بڑا مقصد مشہور اور معزز عالمِ دین مولانا سمیع الحق صاحب سے ملاقات تھی۔ وفد زیادہ تر مولانا سمیع الحق کے شاگردان ِ عزیز پر مشتمل تھا۔

یوں جب وفد نے مولانا موصوف کے عظیم اور تاریخی مدرسے، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک، پہنچ کر اُن سے اظہارِ عقیدت کیا تو باہمی ارادت و محبت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ مولانا سمیع الحق کو ویسے بھی ’’بابائے طالبان‘‘ کہا جاتا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ افغان جنگجو مولوی جلال الدین حقانی مرحوم تو مولانا صاحب کے مدرسے کے فارغ التحصیل تھے۔ ملاقات کے دوران افغان علما وفد کے ہر رکن نے مولانا سمیع الحق صاحب کو ’’استادِ محترم، رہبر، بابا‘‘ کے قابلِ احترام الفاظ سے یاد کیا۔ اُن کی درخواست تھی کہ مولانا صاحب کا افغان طالبان پر جو اثرو رسوخ ہے، اسے بروئے کار لائیں اور افغانستان کو امن کے تحفے سے نواز دیں۔ مولانا صاحب کو جب افغان علما کی طرف سے افغان امن عمل کے لیے ’’ثالثی‘‘ کی درخواست کی جا رہی تھی، پاکستان میں افغان سفارتخانے کے سینئر لوگ بھی وہیں موجود تھے۔

مولانا سمیع الحق صاحب نے مگر مبینہ طور پر ثالث بننے سے صاف انکار کر دیا، یہ کہہ کر کہ افغانستان کا مسئلہ عالمی طاقتوں کی شیطانیوں کا شروع کردہ ہے اور یہ طاقتیں اس مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتیں، اس لیے ’’میرے ناتواں کندھوں پر یہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔‘‘

مولانا صاحب نے بہر حال یہ دعا ضرور کی کہ اللہ افغانستان کو غیر ملکی پنجے سے آزاد کرے اور افغان جہاد اپنے منطقی انجام تک پہنچے۔ منطقی انجام اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ افغانستان میں کامل اسلامی نظام نافذ ہو۔ یہ پہلا موقع  نہیں ہے کہ مولانا سمیع الحق سے افغانستان کی طرف سے مدد حاصل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس سے پہلے خود افغان صدر، اشرف غنی، بھی ٹیلی فون کرکے مولانا موصوف سے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے درخواست کر چکے ہیں۔

فی الحال اکوڑہ خٹک کے مولانا صاحب نے قیامِ امن کے لیے افغانستان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ یہ ناممکن کام کر سکتے ہیں۔ افغان طالبان کے دلوں میں اُن کے لیے جو احترام و اکرام پایا جاتا ہے، اِسے احسن اسلوب میں، اُمت کے وسیع تر مفاد میں، بروئے کار لایا جا ئے تو کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

افغانی بڑے سیانے ہیں۔ سرکاری افغان علمائے کرام کا یہ سرکاری وفد عین ایسے وقت میں پاکستان پہنچا جب افغانستان کے انتخابات سر پر کھڑے ہیں۔ لا محالہ افغان حکام اور امریکی چاہیں گے کہ انتخابات کے دوران افغانستان میں امن قائم رہے اور افغان طالبان کی بندوقیں خاموش رہیں۔ افغان طالبان مگر اِن انتخابات کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات امریکی سازش ہیں اور یہ کہ ان انتخابات کا مقصد افغانستان میں غیر ملکی تسلط برقرار رکھنے کا جواز تلاش کرنا ہے۔ اس لیے انھیں تو انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہوں ، نہ ہوں۔ پہلے ہی افغان طالبان کے ڈر سے افغانستان کے انتخابات دو سال لیٹ ہو چکے ہیں۔ شیڈول کے مطابق، یہ انتخابات دراصل 15 اکتوبر2016ء کو منعقد ہونے تھے۔ اور اب بڑے بُرے حالات میں20 اکتوبر2018ء کو ہو رہے ہیں۔

ڈھائی سو ارکان کی اسمبلی کے لیے تقریباً ڈھائی ہزار اُمیدوار میدان میں ہیں اور21 ہزار پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں۔ 417 افغان خواتین بھی انتخابی امیدوار ہیں۔ تقریباً54 ہزار افغان فوجی پُرامن انتخابات کرانے کے ذمے دار ہوں گے۔ اِس وقت افغانستان کا تقریباً40  فیصد حصہ کسی نہ کسی شکل میں افغان طالبان کے قبضے میں ہے۔ کابل میں بیٹھے حکمران یہ بات مانتے تو نہیں ہیں لیکن یہ تسلیم ضرور کرتے ہیں کہ کئی علاقوں پر افغان طالبان کا پرچم لہرا رہا ہے۔ افغان صوبے، ننگر ہار، کے ضلع ’’کاما‘‘ میں انتخابی اُمیدوار، عبدالناصر مہمند، کے انتخابی جلسے میں خود کش حملہ آور نے  ڈیڑھ درجن معصوم افغانیوں کو قتل کر دیا ہے۔

امریکی نمایندہ، زلمے خلیل زاد، افغان انتخابات کو پُر امن کروانے کے لیے بھاگ دوڑ تو بڑی کر رہا ہے لیکن کامیاب نہیں ہو رہا۔ ابھی 16 اکتوبر کو افغان طالبان نے صوبہ سمنگان میںحملہ کر کے 20 پولیس والوں کے ساتھ صوبائی انٹیلی جنس چیف بھی ہلاک کر ڈالا ہے۔ ایسے پُر خطر اور امن سے خالی حالات میں الیکشن کرانا ایک غیر معمولی فیصلہ ہے۔ اور انتظامات کا عالم یہ ہے کہ افغان الیکشن کمیشن نے حکومت سے 20 ہزار بائیو میٹرک ڈیوائسز (وہ مشینیں جو ووٹر کے فنگر پرنٹس اور چہرے کی شناخت کرتی ہیں) دینے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ جعلی ووٹوں اور فراڈئیے ووٹروں سے نجات حاصل کی جائے۔ افغان حکومت مگر ابھی تک صرف 4 ہزار ایسی مشینیں فراہم کر سکی ہے۔

ایسے حالات میں افغان الیکشن بھی ایسے ہی ہوں گے جیسے افغانستان کے مجموعی حالات ہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ ایک حجت پوری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہماری تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان انتخابات کے نتیجے میں افغانستان کو استحکام اور امن کی طرف گامزن کرے۔افغانستان میں نئے انتخابات کے نتیجے میں امن آئے گا تو پاکستان اور پاکستانیوں کو بھی چالیس لاکھ افغان مہاجرین کے کمر شکن بوجھ سے نجات ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔