زندگی پر کتاب اور کتب خانہ کے اثرات

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 19 اکتوبر 2018

ڈاکٹر نسیم فاطمہ اور ڈاکٹر نسرین شگفتہ نے یہ جاننے کے لیے کہ کتاب کے اثرات انسانی زندگی پر کیا ہوتے ہیں، بچپن، جوانی اور پھر بڑی عمر میں کتاب سے کیا فائدہ ہوتا ہے، تعلیمی دور، پیشہ ورانہ زندگی میں اس سے کیا مدد ملتی ہے؟

انسانی فکر کی نشوونما اور سماجی زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے میں کتاب اور کتب خانہ کی اہمیت و افادیت کیا ہے، ذوق مطالعہ کا تغیر فکری ارتقا پر کیوں کر اثرانداز ہوتا ہے اور تصنیف و تالیف اور تنقید میں کتب خانے کیا کردار ادا کرتے ہیں ’’کتاب اور کتب خانہ کے زندگی پر اثرات‘‘ کے عنوان سے ایک جائزہ مرتب کیا ہے۔ اس جائزے میں جو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری اور انفارمیشن سائنس نے کتابی شکل میں شایع کیا ہے۔

زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو دعوت دی گئی کہ وہ پہلے اپنا تعارف کرائیں اور پھر جائزے کے لیے متعین کردہ سوالات کا جواب دیں۔ کتاب میں جن شخصیات کے جواب شامل ہیں ان میں شاعر اور نثرنگار ہیں، ڈاکٹر اور انجینئر ہیں، کھلاڑی اور تاجر ہیں۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ افراد ہیں، سول اور فوجی افسران اور علم و فن کی دنیا کی شخصیات ہیں۔

سید آباد علی کا پیشہ فن کتاب داری ہے۔ وہ اسٹیٹ بینک کی لائبریری کے چیف لائبریرین تھے۔ وہ لکھتے ہیں ’’یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ کتابیں انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ اثرات خواہ فکری ہوں، معاشی ہوں یا سماجی۔ کتابوں کے مطالعے سے سوچ مثبت ہوتی ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر مطالعہ میرا مددگار ثابت ہوا۔ میں نے زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھا اور اچھے برے کی تمیز سیکھی۔‘‘

آغا یاسر ایک ملٹی نیشنل ادارہ میں اعلیٰ افسر ہیں۔ اردو، انگریزی کے علاوہ عربی اور فرانسیسی زبانیں بھی جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کتاب سے ان کا تعارف بہت چھوٹی عمر ہی سے ہوگیا تھا۔ کتابوں ہی نے ان کی زندگی کی تعمیر کی، علم میں اضافہ ہوا، خیالات و افکار نے جلا پائی۔

ڈاکٹر آمنہ خاتون لکھتی ہیں ’’مجھے فطری طور پر مطالعے کا شوق ہے۔ کتابیں ہوں گی تو کتب خانہ خودبخود بن جائے گا اور جب کتب خانہ ہوگا تو تحقیق بھی ممکن ہوگی۔ تحقیق سے ترقی کی راہیں کھلیں گی۔‘‘

ڈاکٹر جاوید منظر تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، وہ لکھتے ہیں ’’کتاب کو میں نے اپنی زندگی کا محور بنالیا ہے، کتاب بینی نے میری زندگی پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں جنھیں میں نے ایک نظم میں بھی پیش کیا ہے۔

رہِ وفا میں سبھی ساتھ چھوڑتے ہیں مگر

تمام عمر کی یاور کتاب ہوتی ہے

سید جمیل احمد رضوی پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے سابق چیف لائبریرین ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو کتاب کو دیکھا۔ کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس کے نتیجے میں مضامین اور کتابیں لکھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ تدریس اور تنقید کے عمل میں آسانی پیدا ہوئی۔انجینئر سید خالد محمود لکھتے ہیں ’’کتابیں پڑھ کر میری شخصیت میں نکھار آیا، معلومات میں اضافہ ہوا۔ میں نے کھیلوں کے شعبے میں طبع آزمائی کی اور بارہ کتابوں کا مصنف ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔‘‘

ڈاکٹر خاور جمیل، اعلیٰ سرکاری افسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کتاب انسان کی سب سے بڑی رفیق بن سکتی ہے۔ یہ تنہائی کے احساس کو ختم کرتی ہے۔ وقت علم کے حصول کے ساتھ آسانی سے گزر جاتا ہے۔ کتاب بینی کے تناظر میں سوچنا اور سمجھنا میری زندگی کا مقصد ہے اور اس کے بہت ہی دوررس نتائج سامنے آتے ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مجھے کتب بینی سے ہر قسم کے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔

ریاض ندیم نیازی صحافی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’مجھے کتاب سے محبت بچپن سے تھی۔ چوتھی کلاس سے باقاعدہ کتب بینی شروع کردی۔ میرا تجزیہ ہے کہ جب انسان ذوق و شوق سے کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے علم اور مشاہدے میں ایسے گوشے آجاتے ہیں جو زندگی میں تغیرات کا باعث بنتے ہیں۔ وسیع مطالعے سے انسان کو خود لکھنے لکھانے کا شعور آجاتا ہے۔زین الدین صدیقی تہران میں یونیورسٹی آف مزلز میں چیف لائبریرین تھے، وہ شاعر بھی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ کتاب کے مطالعے نے میری زندگی کی رہنمائی کی ہے۔

میری زندگی کے شب و روز بدل دیے ہیں۔ میری معلومات اور ذخیرہ علم میں اضافہ کیا ہے۔ خیالات کی پاکیزگی اور بیان کی دل آویزی عطا کی ہے۔ یہ کتاب کے اثرات ہیں کہ میری زندگی میں سکون اور ٹھہراؤ ہے۔ میری شاعری میں دل فریبیٔ خیال بھی ہے اور رنگینیٔ بیان بھی، شوخی ہے اور سوز و گداز بھی۔ساجد فضلی کتابوں کے ناشر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کتابوں کے درمیان مجھے رہنا پسند تھا اسی لیے میں نے تجارت کتب کا پیشہ اپنایا۔ کتابیں زندگی پر بڑے مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں۔ حوصلہ بخشتی ہیں۔ مثبت سوچ و فکر کے باعث ایک اچھے خاندان اور معاشرے کی تشکیل میں مدد دیتی ہیں۔ کتاب کے میری زندگی پر بڑے واضح اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ڈاکٹر شفقت بخاری کا تعلق درس و تدریس سے ہے وہ فلسفہ کی استاد ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کتاب سے ان کی محبت ان کی ماں کا عطیہ ہے۔

زندگی میں مطالعہ کتب کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ علم کے حصول اور کتاب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کتابیں ہی وہ ذرایع ہیں جن کی مدد سے نوع انسانی کے ماضی، حال اور مستقبل کے انمول خیالات، احساسات، مشاہدات و تجربات کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ میں نے اپنے تعلیمی اور زندگی کے دوسرے ادوار میں بے شمار کتابوں سے استفادہ کیا، اور انھی کی بدولت حیات کی پراسرار حقیقتوں اور سچائیوں کا ادراک کیا۔ کتب خانوں کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ کتب اور کتب خانوں کا وجود لازم و ملزوم ہے۔ کتب خانے اونچے پہاڑ اور گہرے سمندر ہیں جن میں علم و ادب کے گراں قدر خزینے چھپے ہیں۔

ضیا اللہ کھوکھر گجرانوالہ میں ایک بڑی لائبریری میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کتاب اور کتب خانے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ جب سے ہم نے کتابوں سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے، مطالعہ چھوڑ دیا ہے ہم پر جمود طاری ہوگیا ہے۔ ترقی کے راستے بند ہوگئے ہیں، زوال اور رسوائی نے ہمیں بے آبرو کردیا ہے۔ کسی بھی فن میں تخلیق کی پیش رفت میں کتاب سے بڑھ کر کوئی ہتھیار نہیں۔ جس معاشرے میں کتاب کی تصنیف، تالیف اور اشاعت کا عمل رک جاتا ہے وہ معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ کوئی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ تعلیم یافتہ نہ ہوجائے اور تعلیم یافتہ ہونے کے لیے کتاب اور کتب خانے کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

ڈاکٹر کنول امین پنجاب یونیورسٹی کے انفارمیشن مینجمنٹ شعبہ میں پروفیسر اور صدر شعبہ ہیں۔ لکھتی ہیں ’’کتابیں بچپن سے بہت پسند ہیں۔ اردو پڑھنا لکھنا سیکھا تو اپنے نانا کے پاس موجود تفسیر ابن کثیر کی ورق گردانی کرتے ہوئے ہاروت و ماروت کا قصہ پڑھا اور بہت لطف آیا۔ اس کے بعد مطالعہ میں دلچسپی بڑھتی رہی۔‘‘ وہ لکھتی ہیں کہ کتاب بینی نے انسان، انسانیت، معاشرہ، مذہب اور سیاست کے حوالے سے میرے ذہن کو جلا بخشی اور اخلاقی تربیت کی ہے۔

مطالعہ سے وست نظری پیدا ہوتی ہے اور زبان و بیان میں بہتری آتی ہے۔لبنیٰ غزل کا پیشہ لائبریرین شپ ہے۔ وہ شاعر ہیں، ادب سے لگاؤ ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ کتاب بہترین ساتھی ہی نہیں، بہترین رہنما بھی ہے۔ چوں کہ مطالعہ کا شوق بچپن سے تھا اس لیے عمر کے ساتھ بڑھتا رہا۔ جیسے جیسے ذہن پختہ ہوا اور شعور کی گرہیں کھلنے لگیں تو شوق کی رفتار تیز ہوگئی۔ تصنیف و تالیف کے سلسلے میں مجھے سب سے زیادہ کتب خانے سے مدد ملی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔