پانی کی شدید قلت.....

شاہ حسین ترین  جمعرات 13 جون 2013
شہریوں کا بھرپور احتجاج، حکومت حرکت میں آگئی۔ فوٹو: نسیم جیمس

شہریوں کا بھرپور احتجاج، حکومت حرکت میں آگئی۔ فوٹو: نسیم جیمس

کوئٹہ: پانی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ کوئٹہ کے شہریوں کو بھی ان دنوں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

واسا کے چار سو ٹیوب ویلوں میں سے ڈیڑھ سو سے زائد ٹیوب ویلز گزشتہ دو ماہ سے خراب پڑے ہیں جب کہ واسا حکام کے پاس نہ تو اپنے اٹھارہ سو سے زائد ملازمین کو تن خواہیں ادا کرنے کے لیے اور نہ ہی خراب ٹیوب ویلز کی مرمت کے لیے رقم موجود ہے۔ شہر میں جس طرف بھی نظر دوڑائیں خواتین اور بچے ہاتھوں میں برتن اٹھائے پانی کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں، جب کہ صاحب استطاعت لوگ نجی ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں ایک ٹینکر کی قیمت پندرہ سو روپے تک پہنچ گئی ہے۔ کوئٹہ میں واسا کے کچھ ٹیوب ویلز ایسے بھی ہیں جو اب خشک ہو گئے ہیں اور وہ مرمت کے قابل بھی نہیں رہے۔

ماہرین کے مطابق شہر میں سرکاری و نجی سطح پر گنجائش سے زیادہ ٹیوب ویلز کھو دے گئے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے گر گئی ہے۔ کوئٹہ کے شہری اور نواحی علاقوں میں زیر زمین پانی کی تلاش کے لیے ایک ہزار فٹ تک ڈرلنگ کرنا پڑتی ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق اگر کوئٹہ میں پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں کیا گیا تو آئندہ دس سال بعد لوگ شہر سے ہجرت کر نے پر مجبور ہو جائیں گے۔ دوسری طرف پانی کی شدید قلت کے خلاف شہری سراپا احتجا ج ہیں اور شہر بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ شہر میں پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کر نے کے لیے سابقہ حکومت کے آ خری ایام میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں کوئٹہ سے منتخب ایم پی ایز اور واسا حکام شامل تھے، تاہم وہ کمیٹی صرف چند اجلاس ہی کر پائی، جس کے بعد حکومت کی مدت ختم ہو گئی۔

اب کمیٹی دوبارہ فعال کر دی گئی ہے اور اس میں حالیہ انتخابات کے بعد کوئٹہ سے منتخب ایم پی ایز اور واسا حکام شامل ہیں۔ یہ کمیٹی شہر میں پانی کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے اور بند ٹیوب ویلوں کو جلد از جلد بحال کر نے کے لیے حرکت میں آ گئی ہے۔ شہر میں پانی کی قلت کے مستقل سدباب اور بند ٹیوب ویلوں کو فوری بحال کرنے کے حوالے سے ممبران صوبائی اسمبلی نواب ایاز جوگیزئی، سردار رضا محمد بڑیچ، طاہر محمود خان، ولیم برکت، منظور احمد کاکڑ، سید محمد رضا اور نصراللہ زہرے پر مشتمل کمیٹی کا ایک اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں کمشنر کوئٹہ ڈویژن عثمان گل، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ عبدالمنصور کاکڑ، منیجنگ ڈائریکٹر واسا لیاقت علی بگٹی، پراجیکٹ ڈائیریکٹر کوئٹہ واٹر اینڈ سیوریج پراجیکٹ حامد لطیف رانا، پراجیکٹ انجینئر واسا کے علاوہ ڈائریکٹر ٹیکنیکل و دیگر متعلقہ افسران بھی موجود تھے۔

اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ ہوا کہ شہر میں بند ٹیوب ویلوں کو فوری طور پر بحال کیا جائے گا۔ محکمہ واسا اور کوئٹہ واٹر اینڈ سیوریج پراجیکٹ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ہفتہ وار جائزہ اجلاس ہوگا۔ پانی کی ترسیل کو ممکن بنانے کے لیے تمام ٹیوب ویلوں اور علاقوں کو آپس میں منسلک کیا جائے گا تاکہ کسی علاقے کا ٹیوب ویل خراب ہونے کی صورت میں دوسرے علاقے کے ٹیوب ویلوں سے پانی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ پانی کی مد میں بلوں کی وصولی کو یقینی بنایا جائے، اس حوالے سے کمیٹی بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرے گی۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ شہر میں زرعی مقاصد کے لیے ٹیوب ویلوں کی تنصیب کے بعد انہیں ٹینکر مافیا کے استعمال اور دسترس سے دور رکھا جائے گا۔

شہر میں تمام ٹیوب ویلوں اور واسا عملے کی فہرست کمیٹی کو فراہم کی جائے گی جب کہ واسا کے عملے کی جانب سے غیر حاضر رہنے اور سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کی صورت میں ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ واسا کی ناقص کارکردگی کے حقائق اور وجوہات کا جائزہ لیا جائے گا جب کہ ٹیوب ویلوں کی ناقص مرمت اور بار بار خراب ہونے کے اسباب کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور شہر میں پانی کے مستقل حل کے لیے ایسے اسباب کے روک تھام کی جائے گی۔

اجلاس میں واسا اور واٹر سپلائی اینڈ سیوریج پراجیکٹ کی کمیٹی میں منتخب نمائندوں کو شامل کیا جائے گا، تاکہ مسائل کے فوری حل کو ممکن بنانے میں مدد ملے۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ منتخب نمائندوں پر مشتمل کمیٹی ٹیوب ویلوں کے اوقات کار، عملے کی کارکردگی اور فراہمی آب کے نیٹ ورک کا ذاتی طور پر جائزہ لینے کے لیے مختلف علاقوں کا بھی دورہ کرے گی جب کہ محکمہ واسا کی مالی مشکلات کے لیے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا جائے گا۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ کمیٹی کی کارکردگی صرف اجلاسوں اور بیانات تک محدود نہیں ہو نی چا ہیے بلکہ اس ضمن میں ٹھوس اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔