کرپشن کی قسمیں اور روک تھام

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 13 جون 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

انتخابات کے بعد ملک میں پہلی بڑی پارٹی بن کر مسلم لیگ (ن) ابھری ہے اور پی پی کے ساتھ دوسری بڑی پارٹی بننے کا اعزاز تحریک انصاف کو حاصل ہوا ہے۔ ہم دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے انتخابی وعدوں پر ایک نظر ڈالیں گے جو اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر چاہیں تو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے جو وعدے کیے تھے ان میں نظام کی تبدیلی اور کرپشن کا خاتمہ سرفہرست ہیں ہمیں نہیں معلوم کہ نظام کی تبدیلی سے ان دونوں جماعتوں کا مطلب کیا تھا لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ نظام کی تبدیلی Status Quo کو توڑنے کی باتیں یا تو فریبی تھیں یا عوام کو فریب دینا تھا کیونکہ نظام کی تبدیلی اور Status Quo کو توڑنا ان جماعتوں کے بس کی بات تھی نہ اس سسٹم میں کوئی نظام کو بدل سکتا ہے۔

دوسرا اہم مسئلہ کرپشن کا خاتمہ تھا۔ ہوسکتا ہے یہ پارٹیاں اس قسم کا دعویٰ کرنے میں مخلص رہی ہوں لیکن اگر یہ دعویٰ انھوں نے خلوص نیت سے کیا تھا تو یہ جماعتیں کرپشن کی ہمہگیری اور ناگزیری سے بے بہرہ تھیں یا کرپشن کی حقیقت سے ناواقف تھیں تو پھر اس دعوے کی حیثیت ایک دھوکے سے زیادہ نہیں ہوسکتی کیونکہ جس نظام میں ہم زندہ ہیں اس نظام میں پیدائش سے لے کر موت تک ہر شخص کو کرپشن کا سامنا رہتا ہے اور کرپشن کے بغیر اس معاشرے میں سانس لینا بھی دوبھر ہوجاتا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کی بات کرنے والے غالباً اس کی ماہیت اور ہمہ گیری کو سمجھنے سے قاصر ہیں اسی وجہ سے وہ محض نعرے بازی کے طور پر کرپشن کے خاتمے کی باتیں کرتے ہیں۔

تحریک انصاف کو چونکہ ایک چھوٹے صوبے میں برتری حاصل ہے لہٰذا اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ قومی سطح پر کرپشن کے خاتمے میں کامیاب ہوسکے گی حماقت ہے۔ البتہ مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں جو برتری حاصل ہوئی ہے اس کے پس منظر میں ہم اس کے دعوؤں پر نظر ڈال سکتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کرپشن کے حوالے سے اس قدر پرجوش رہے ہیں کہ انھوں نے مستقل یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ کرپٹ لوگوں سے کرپشن کی ایک ایک پائی واپس لیں گے۔ ادھرمیاں نواز شریف حلف اٹھانے کے بعد یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ نہ وہ خود کرپشن کریں گے نہ کسی کو کرپشن کرنے دیں گے، ہوسکتا ہے وہ اپنے دعوؤں میں مخلص ہوں لیکن ان کے یہ دعوے اس نظام میں کسی قیمت پر پورے نہیں ہوسکتے اس کے لیے پورے نظام کو بدلنا پڑے گا جو ان کے بس کی بات نہیں۔

کرپشن مختلف سطحوں پر کی جاتی ہے۔ اگر کوئی حکومت کسی دوسرے ملک سے کوئی بھاری سودا کرتی ہے تو اس میں سے اپنا حصہ طے کر لیتی ہے اور یہ حصہ اربوں تک پہنچ جاتا ہے۔اس کرپشن کا اصطلاحی نام کک بیک ہے۔ بینکوں کے نادہندگان کے حوالے سے دو کھرب سے زیادہ کرپشن کے کیس اعلیٰ عدلیہ تک پہنچے لیکن ابھی تک ان کا فیصلہ نہ ہوسکا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) میں تھوک کے حساب سے بھرتی ہورہی ہے جب کہ (ن) لیگ کو مرکز اور پنجاب میں اتنی نشستیں حاصل ہیں کہ اسے کسی آزاد امیدوار یا کسی چھوٹی موٹی جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں۔ وہ کسی کی حمایت کے بغیر مرکز میں اور پنجاب میں اپنی حکومت بناسکتے ہیں اور چلا سکتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ میاں صاحب اپوزیشن کی ممکنہ رکاوٹوں سے بچنے کے لیے اپوزیشن کو زیادہ سے زیادہ محدود کرنا چاہتے ہیں اس عام بھرتی کا ایک اہم مقصد بھی یہی نظر آتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیاستدانوں کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا جائے لیکن میاں صاحب غالباً یہ حقیقت بھول رہے ہیں کہ یہ تمام اتحادی یا ختم ہونے والے ایک بڑا سرمایہ خرچ کرکے انتخابات جیتے ہیں یہ سرمایہ ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے خرچ نہیں کیا گیا بلکہ سود کے ساتھ واپس لینے کے لیے خرچ کیا گیا ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہموں پر جو اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کی ہے وہ راہ اللہ نہیں بلکہ بھاری منافع کے ساتھ واپس لینے کے لیے کی گئی ہے یہ واپسی کیسے ہوگی؟ کیا اس واپسی کا کرپشن کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے؟

ایک جاگیردار کسان اور ہاری کی محنت سے اربوں روپے کماتا ہے۔ ایک صنعت کار مزدور کی محنت سے دس نئے کارخانے کھول لیتا ہے۔ ایک بڑا تاجر منافع کے نام پر اربوں روپے کمالیتا ہے کیا اسے کرپشن کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ اپوزیشن کی ایک چھوٹی جماعت حکومت کا حصہ بننے کے لیے وزارتین مانگتی ہے ہماری محترم حکومت صوبوں میں اتحادی حکومتیں قائم کرنے کے لیے چھوٹی جماعتوں کو وزارتوں وزیر اعلیٰ اور گورنر کے عہدے پیش کر رہی ہے اس پیشکش کو کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ کرپشن صرف پیسوں کے لین دین کا نام نہیں اس سماج میں ہزاروں طریقوں سے کرپشن کی جاتی ہے اور ان میں سے بہت ساری کرپشن کو حلال کا نام دیا جاتا ہے جیسے منافع کی کمائی کو حلال کی کمائی کہا جاتا ہے اور ہمارے نظام میںمنافع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ کیا حد سے بڑھا ہوا منافع خواہ اس کا تعلق کسی تجارت سے ہو اسے کرپشن کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ ہمارے سیاسی اتحادوں کو ملک و قوم کی بھلائی اور ضرورت کا نام دیا جاتا ہے لیکن اس کی تہہ پر نظر ڈالیں تو کرپشن ہی کرپشن نظر آئے گی۔

11 مئی کے انتخابات میں اشرافیہ کے خاندانوں کے ٹھوک کے حساب سے بیٹے بیٹیاں، بھانجے بھانجیاں، بھائی بھتیجے منتخب ہوکر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں پہنچ گئے ہیں میڈیا چیخ رہا ہے کہ حالیہ الیکشن میں ہمارا خاندانی سیاست خاندانی حکمرانی کا نظام اور مستحکم ہوا ہے کیا میاں صاحبان اور دوسرے سیاسی خاندان اس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں؟ کیا یہ بدترین سیاسی کرپشن نہیں ہے؟ اس ملک کے 18 کروڑ عوام کی مڈل اور لوئر مڈل کلاس میں ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ ایماندار مخلص باصلاحیت اور عوام دوست افراد موجود ہیں جنھیں اس امتیازی اور جانبدارانہ انتخابی نظام کے ذریعے قانون ساز اداروں میں پہنچنے سے روکا جاتا ہے اور نااہل کرپٹ بددیانت لوگوں کو قانون ساز اداروں میں پہنچنے کی تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں کیا یہ طبقاتی کرپشن نہیں ہے؟

ہمارے چھوٹے میاں کرپشن کی ایک ایک پائی واپس لینے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ اگر کرپشن کی کمائی واپس لینے میں کوئی مخلص ہے تو اس کی ذمے داری ہے کہ 35 سالہ جمہوریت کے دوران جو افراد جو خاندان برسر اقتدار رہے ہیں ان کے اثاثوں کی خواہ وہ ملک کے اندر ہوں یا باہر رقم کی شکل میں ہوں شیئر کی شکل میں انویسٹمنٹ کی شکل میں یا جائیداد کی شکل میں غیر جانبدارانہ آزادانہ تحقیق کرائی جائے اور معلوم کیا جائے کہ یہ دولت یہ اثاثے کس طرح بنائے گئے ہیں اور تمام ناجائز اثاثوں کو بحق سرکار ضبط کرلیا جائے کرپشن کو کسی حد تک ختم کرنے کا یہ ایک حقیقی اور منطقی طریقہ ہے کیا کرپشن کو ختم کرنے کے دعویدار اس طریقے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔