جانے کب ہوں گے کم‘ اس دنیا کے غم

سعید پرویز  جمعـء 14 جون 2013

یہی بات سوچتے سوچتے شاعر ریاض الرحمن ساغر بھی آخر دنیا چھوڑ گیا۔ وہ جس معاشرے میں رہ رہا تھا وہاں اردگرد ظلم وجبر اور ناانصافی کے پہاڑ کھڑے تھے جن سے ٹکرا ٹکرا کر آہیں، سسکیاں، آنسو، چیخیں، فریادیں سب دم توڑتے رہے اور ظلم و ناانصافی کے پہاڑ اور مضبوط ہوتے رہے۔

ریاض الرحمن ساغر ایک شاعر تھا، صحافی تھا، ادیب تھا، قدرت نے اسے لکھنے کا روگ لگایا تھا اور دردمند دل بھی عطا کیا تھا۔ سو وہ جب تک زندہ رہا روگ لکھتا رہا، لوگوں کو اپنے قلم کے ذریعے آگاہی دیتا رہا۔ پھر دو سال تک کینسر کے مرض میں گھلتا رہا۔ آخر 72 سال کی عمر میں آگے چل دیا، وہاں جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔ ریاض الرحمن ساغر ایک اردو روزنامہ  میں روزانہ اشعار لکھتے تھے جنھیں پڑھ کے بے آسرا، دکھی عوام کو لمحہ بھر کے لیے ہی سہی قرار ملتا تھا۔60ء کی دہائی میں کراچی میں تھے تو روزنامہ انجام میں ایک حوالاتی کی سر گذشت قسط وار چھپتی رہی ، مصنف کا نام نہیں تھا۔ جب آخری قسط چھپی تو ریاض الرحمان ساغر کی تصویراور اس کا پروفائل بھی چھپا۔ معلوم ہوا وہ ایک معمولی جھگڑے کی پاداش میں جیل بھیج دیے گئے اور دوران اسیری جیل کے اندر کی ساری دلچسپ ، سبق آموز و الم ناک روداد بیان کردی۔اس سرگذشت سے لاہور کی فلم نگری کو اندازہ ہوا کہ وہ فلم کی دنیا کے کتنے بڑے رائٹر اور نغمہ نگار بن کر ابھریں گے۔

بظاہر دبلا پتلا، منحنی سا ریاض الرحمن ساغر اندر سے بہت مضبوط تھا۔ خدا نے اسے جس کام کے لیے دنیا میں بھیجا تھا وہ کامیابی سے وہ کام کرگیا۔ ساغر اپنی دنیا کو خوبصورت دیکھنے کی خواہش لیے زندہ رہا، اس کی دنیا اس کا اپنا ملک تھا۔ عمر بھر وہ ایک ایسے سماج کی تلاش میں سرگرداں رہا، جہاں امن ہو، انصاف ہو، اونچ نیچ سے پاک ایک ایسا جہان، جہاں سب برابر ہوں، انسان کی عزت کا معیار، اچھا کردار ہو، محل ماڑیاں، کھیت کھلیان، کاریں، بینک بیلنس معیار نہ ہوں۔

ریاض الرحمن ساغر نے فلم نگر میں بھی بہت وقت گزارا اور سیکڑوں گیت لکھے۔ فلم سماج کا گیت ساغر کی سوچ کا بہترین عکاس ہے۔ اس گیت کو مہدی حسن اور نور جہاں نے گایا تھا اور موسیقار تھے اے حمید۔ گیت دیکھیے اور شاعر کی چاہت بھی۔

چلو کہیں دور، یہ سماج چھوڑ دیں

دنیا کے رسم و رواج توڑ دیں

سب سے نرالی ہو ہماری داستاں

پیار کی کہانیوں کے رخ موڑ دیں

بیتے زمانوں کا نہ پہرہ ہو جہاں

آ بسا لیں اپنی دنیا ہم وہاں

چلو کہیں دور

ریاض الرحمن ساغر نے فلم کو بھی اپنے خیالات کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنایا۔ ساغر زندگی بھر یہی آس لیے چلتا رہا کہ صدیوں کے چھائے ظلم وجبر کو کیسے ختم کیا جائے۔ صدیوں کا ظلم و جبر تو آج بھی ختم نہیں ہوا مگر ساغر اپنی آس دل میں لیے بڑے لمبے سفر پر چل دیا۔ دوست احباب اس کا جنازہ کاندھوں پر اٹھائے جا رہے تھے۔ میں لاہور سے سیکڑوں میل دور کراچی میں بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ ساغر کو احباب اس کی آخری آرام گاہ کی طرف لے جارہے تھے۔ میں دیکھ رہا تھا، جنازہ خالی خالی سا نظر آرہا تھا، میں سمجھ گیا کینسر کے موذی مرض نے ساغر کو لاغر کردیا تھا۔ اب تو جنازے کا ہی وزن تھا۔ ساغر تو اپنا تن من دنیا پر وار گیا تھا۔ اس وقت بھی میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں۔ ہمارا اپنا شاعر ہم سے بچھڑ کر جارہا تھا۔

ساغر! تمہارا پرچم ’’سماج کو بدل ڈالو‘‘ ہم گرنے نہیں دیں گے۔ تم اپنے حصے کی شمعیں جلاگئے، تم سے پہلے جانے والوں کی شمعیں بھی روشن ہیں، تم آخر آخر دیکھ تو گئے ہو، آج کا نوجوان جاگ اٹھا ہے اور اب بہت جلد ’’اس دنیا کے غم‘‘ مک جائیں گے۔ تم دیکھنا بس کچھ اور دیر اور پھر ظلم کی رات ختم ہوجائے گی اور امن و انصاف کا سورج طلوع ہوگا، ضرور ہوگا۔

اے میرے شاعر! گو میں کبھی تم سے ملا نہیں۔ مگر تم ہمیشہ میرے قریب رہے ہو، اپنے گیتوں کی صورت، دکھی انسانوںکے لیے سوچتے ہوئے، بولتے ہوئے، لکھتے ہوئے تم میرے ساتھی تھے، ہم خیال دوست تھے۔ میں تمہارے چلے جانے پر خود کو اکیلا محسوس کررہا ہوں، میں تمہاری شاعری میں جانے والوں کو تلاشتا تھا، تم بھی چلے گئے!

چلو! اب تم جہاں ہو، وہاں خوش رہو، آسودہ رہو، تم خلق خدا سے پیار کرتے تھے، یقینا خدا تمہیں بہت پیار، دلار سے رکھے گا۔ کیونکہ خدا کو اپنی مخلوق سے پیار کرنے والے بہت عزیز ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔