کراچی تا خیبر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے کے حکومتی فیصلے پر شدید تنقید

اقدام منصفانہ ہے نہ دانشمندانہ، پیداواری لاگت میں اضافہ اور مہنگائی5 فیصد تک بڑھ جائے گی، بیوروکریسی دفترمیں بیٹھ۔۔۔


Business Reporter June 14, 2013
ٹیکس نیٹ میںتوسیع کی ٹھوس حکمت عملی پیش نہیںکی گئی،کراچی چیمبر،اپٹما،کاٹی،پریگمیا،ریٹیل گروسرز،جوڑیا بازار ٹریڈرزوسوپ مینوفیکچررز کا بجٹ پرردعمل۔ فوٹو : فائل

مالی سال2013-14 کے وفاقی بجٹ پرتاجروصنعتکاروں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

تجارت وصنعت کے کچھ حلقے بجٹ کو متوازن اور موجودہ حالات کے تناظرمیں بہترین قراردے رہے ہیں جبکہ تجارت و صنعت کی نمائندگی کرنے والا ایک بڑا حلقہ بجٹ کو غیرمتوازن اور عوام دشمن قرار دے رہا ہے تاہم کراچی تاخیبر ملک بھر کے تمام تجارتی وصنعتی حلقوں نے سیلزٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافے کو غیرمنصفانہ اور غیردانشمندانہ فیصلہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ کے اس اقدام سے مہنگائی کا سیلاب امڈ آئے گا جبکہ افراط زر کی شرح گھٹنے کے بجائے مزید بڑھ جائے گی۔ وفاقی بجٹ پر کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر ہارون اگرنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ 70 فیصد اقدامات کاروبار دوست ہیں لیکن سیلزٹیکس کی شرح 17 فیصد کرنے سے حکومت کو اگرچہ 50 ارب روپے مالیت کا ریونیو حاصل ہوگا لیکن اس کاشکارعام آدمی ہوگا۔

محسوس ہوتا ہے کہ بیوروکریسی نے مجموعی ریونیو اہداف کا 1.25 فیصد ریونیو صرف 1فیصد سیلزٹیکس بڑھاکر اپنے دفتروں میں بیٹھ کر حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کے طوفان سے پریشان حال عوام کی زندگی اجیرن ہوجائے گی اور ریونیو کا مذکورہ ہدف بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ بااثر اور طاقتور لوگ قابل ٹیکس آمدنی اور ادائیگیوں کے وسائل ہونے کے باوجود ٹیکس نیٹ سے باہر ہیںجنہیں نیٹ میں لانے کے لیے کسی ٹھوس حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، بجٹ میں غیررجسٹرڈ افراد کو اشیا کی فروخت پر 2 فیصد اضافی جی ایس ٹی کی وصولیوں کی ذمے داری رجسٹرڈ ٹیکس دھندگان پر ڈال دی گئی ہے جو درحقیقت ایف بی آر کی ذمے داری ہے اور اس بجٹ اقدام کے نتیجے میں گڈز کی ویلیوکی انڈررپورٹنگ بڑھ جائے گی۔ چیئرمین اپٹما سندھ بلوچستان ایم یاسین صدیق نے کہاکہ بجٹ میں صنعت کے لیے کسی ریلیف کا اعلان نہیں کیا گیا۔

غیررجسٹرڈ افراد پر فروخت کے علاوہ مزید2 فیصد ٹیکس دوبارہ متعارف کرانے سے بدعنوانی اور فلائنگ انوائسز کوفروغ ملے گا کیونکہ 4فیصد اضافی سیلزٹیکس سے ٹیکس چوری کو فروغ ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ سیلزٹیکس کی شرح 16 سے17 فیصد کرنے سے پیداواری لاگت بڑھے گی جس کے تمام اشیا پرکثیرجہتی اثرات ہونگے اور اس سے افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوگا۔

کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم منیر، چیئر مین محمد زبیر چھایا، آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین، کاٹی کے وائس چیئرمین نجم العارفین، نیاز احمد نے35 کھرب91 ارب روپے کے بجٹ کو متوازن قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی معیشت کی جس قدر گھمبیر صورتحال ہے ان حالات میں موجودہ بجٹ کسی ریلیف سے کم نہیں، توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے سرکاری محکموں کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اپنے محکموں کے بلزبروقت ادا کریں تاکہ سرکلر ڈیٹ میں کمی واقع ہوسکے، بجٹ میں کاروبار کے لیے آسان قرضے مہیا کرنے سے معاشی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔



پریگیما کے زونل چیئرمین شیخ محمد شفیق نے کہاکہ سیلزٹیکس کی شرح مین اضافے کے صارفین پر منفی اثرات ہونگے، قیمتوں میں مجموعی طور پر 5 فیصد اضافہ ہوگا۔ کراچی ریٹیل گروسرزگروپ کے سربراہ فریدقریشی نے کہا کہ بجٹ اقدامات عوام دوست نہیں ہیں کیونکہ سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح میں اضافہ اور نئے ٹیکس لگانے سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور لوگوں کی قوت خرید بھی متاثر ہو گی، اور اس کا براہ راست اثر نچلے طبقے تک منتقل ہوگا، ریٹیل پیک اشیا کو سیلز ٹیکس کے شیڈول 3 میں ڈالنے سے ان اشیا کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا اور یہی اقدامات بجٹ کے منفی پہلو کی نشاندہی کرتے ہیں، بجٹ میںسگریٹ، پان ، چھالیہ ،شادی ہال، کلب اور ریستوران پر ٹیکس نافذ کرنے کاعمل اچھا ہے۔

جوڑیا بازار ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر جعفرکوڑیا نے کہا کہ بجٹ عام آدمی کے حق میں نہیں ہے کیونکہ غیردانشمندانہ اقدامات کے نتیجے میں عام آدمی کا گھریلو بجٹ دگنا ہوجائے گا۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے ان قومی اداروں کی شفاف نجکاری کرے جو ملکی خزانے پر طویل عرصے سے بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موٹر وے منصوبے کی توسیع، ریلوے ٹریک، تعلیم و صحت اور معیشت کی بہتری کے لیے جو پالیسیاں تیار کی گئی ہیں ان پر عمل کرنے سے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ میاں نواز شریف ملکی معیشت کو مستحکم اور بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے، بجٹ میں وزرا کے صوابدیدی فنڈزختم کرنے، وزیر اعظم کے اخراجات میں ریکارڈ 45 فیصد کی کمی اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کے اقدامات حوصلہ افزا ہیں۔ انہوں کہا کہ درسی کتب، کاپیوں اورقلم پر ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھی جائے تاکہ ملک میں تعلیم کو فروغ مل سکے۔

میاں زاہد حسین نے پنشن کی کم از کم رقم 3000 سے 5000 کرنے اور مستحق خاندانوں میں امدادی رقم ہزار سے بڑھا کر 1200 روپے کرنے اور ایس آر او کلچر کے خاتمے کے لیے چیئرمین ایف بی آر کی زیر قیادت کمیٹی کی تشکیل پر اطمینان کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ ملک کے مفاد میں ڈیمز کی تعمیر فی الفور شروع کی جائے تاکہ توانائی کے شعبے میں عوامی سطح پر ریلیف ملے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں نوجوانوں، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، خواتین اور چھوٹے کاروباری افراد کے لیے بھی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے جو اطمینان بخش ہے اور اسی طرح 500 ارب روپے کے سرکلر ڈیٹ کے 2 ماہ میں خاتمے کی ڈیڈ لائن بھی دی گئی ہے جس سے بجلی کے بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

پاکستان سوپ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے قائم مقام چیئرمین عامر عبداللہ ذکی نے کہا کہ نومنتخب حکومت نے تعلیم دوستی، عوام کی صحت سمیت جملہ مسائل کے نعرے اور پاکستان سے مہنگائی و بیروزگاری ختم کرنے کے عزم کے ساتھ حکومت سازی کا آغاز کیا تھا، عوام کے علاوہ صنعتی شعبے کو حکومت سے بہت سی توقعات تھیں لیکن بجٹ اقدامات کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ حکومت نے صنعت وتجارتی شعبے کی تمام تجاویز کو یکسر نظر انداز کردیا ہے، حکومت سیلز ٹیکس کی شرح کو دوبارہ 16 فیصد پر لانے کا اقدام کرنا ہوگا کیونکہ اس اقدام سے مہنگائی کی شرح میں مزید 5 فیصد کا اضافہ ہوجائے گا، حکومت کو چاہیے کہ وہ روزمرہ اشیائے صرف کی قیمتوں کوکنٹرول کرنے کیلیے فوری اقدامات کرے،جی ایس ٹی کی شرح 10 فیصد پرلائی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں