میانمار کی رہنما آنگ سانگ سوچی کا گھر کے معاملے پر بھائی سے تنازع

ویب ڈیسک  جمعـء 19 اکتوبر 2018
سیاسی جدوجہد کے دوران آنگ سانگ سوچی 15 سال تک اسی گھر میں نظر بند رہیں۔ فوٹو : فائل

سیاسی جدوجہد کے دوران آنگ سانگ سوچی 15 سال تک اسی گھر میں نظر بند رہیں۔ فوٹو : فائل

نیپی دیا: میانمار کی کونسلر آف اسٹیٹ آنگ سانگ سوچی اور ان کے چھوٹے بھائی آنگ سانگ اُو کے درمیان آبائی گھر کی ملکیت کے معاملے پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار کی رہنما آنگ سانگ سوچی کے چھوٹے بھائی آنگ سانگ اُو نے عدالت میں اپنے خاندانی گھر پر حق ملکیت کا دعویٰ دائر کرتے ہوئے گھر کی نیلامی اور اپنے حصے کا مطالبہ کیا ہے۔ چھوٹے بھائی نے بہن پر الزام لگایا ہے کہ 15 سال تک وہ بلا شرکت غیرے گھر استعمال کرتی رہیں جس پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔

میانمار کے پُر فضاء مقام پر جھیل کنارے واقع دو منزلہ عمارت پرانی طرز پر تعمیر شدہ ہے جس کی مالیت 90 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے تاہم اب اس گھر کو سرکاری اہمیت بھی حاصل ہوگئی ہے۔ یہ وہی گھر ہے جہاں سیاسی جدوجہد اور فوجی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر آنگ سانگ سوچی کو 15 سال تک نظر بند رکھا گیا تھا۔

یہ گھر میانمار کی حکمراں جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کا مرکزی دفتر بھی رہا ہے جہاں امریکی صدر بارک اوباما، ہیلری کلنٹن سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے اظہار یکجہتی کے لیے آنگ سانگ سوچی سے ملاقاتیں کیں اور اسی گھر کی بالکونی سے کئی بار میانمار کی معروف رہنما نے عوامی خطابات کیے تھے جس سے اس عمارت کو تاریخی ورثے جیسی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔

آنگ سانگ سوچی کی جدوجہد کے دنوں میں سب جیل  قرار دی جانے والی عمارت دراصل ان کے والدین کی ہے جہاں وہ اپنی بیمار ماں کی تیمارداری کے لیے لندن سے 1988 میں آئی تھیں اور پھر اپنے ملک کو آمریت سے چھٹکارہ دلانے کے لیے اسی گھر سے جدوجہد کا آغاز کیا اور 15 سال تک نظر بند رہیں۔ تاہم چھوٹے بھائی نے نظر بندی کے دوران ہی 2001 میں گھر کی ملکیت کا دعویٰ دائر کیا تھا۔

بعد ازاں 2016 میں یہ تنازعہ دوبارہ شروع ہوگیا جب ینگون کی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ سرکاری حیثیت کی حامل اس مرکزی عمارت کی مالک آنگ سانگ سوچی ہی ہوں گی جب کہ عمارت کے اطراف کی زمینوں پر چھوٹے بھائی کا حق ہوگا اسی طرح قریبی واقع ایک اور گھر چھوٹے بھائی کو دے دیا گیا تھا۔ تاہم آنگ سانگ اُو نے فیصلے کو جانبدرانہ قرار دیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔