منور ظریف کو ’’بنارسی ٹھگ‘‘ نے بام عروج پر پہنچا دیا

کلچرل رپورٹر  جمعـء 14 جون 2013
2 فروری 1940ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے، 29 اپریل 1976 کو انتقال کرگئے۔  فوٹو: فائل

2 فروری 1940ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے، 29 اپریل 1976 کو انتقال کرگئے۔ فوٹو: فائل

لاہور: برصغیر پاک وہندکی فلمی تاریخ میں بڑے بڑے مزاحیہ اداکار پیدا ہوئے جنہوں نے مختلف ادوار میں فلم بینوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں لیکن جس فنکار کو لافانی شہرت حاصل ہوئی وہ نام شہنشاہ ظرافت منورظریف کا ہے جس نے صرف پندرہ برس کے فلمی کیرئیر میں تقریبا 300 سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔

وہ ہرسال کم اکیس فلموں میں جلوہ گر ہوتے رہے جو ان کی بے پناہ مقبولیت اور مصروفیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 1961ء میں پنجابی فلم ’’ڈنڈیاں‘‘ سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرنیوالے محمد منور کو یہ چیلنج درپیش تھا کہ انھوں نے بڑے بھائی ظریف کے نام اور ورثے کو آگے بڑھانا تھا۔ اس وقت سنیئر مزاحیہ اداکاروں میں اگر نذر،آصف جاہ ، اے شاہ اور سلطان کھوسٹ تھے تو جونیئر اداکاروں میں رنگیلا، لہری ، نرالا ، زلفی ، خلیفہ نذیراور دلجیت مرزا جیسے بڑے باصلاحیت فنکار موجود تھے ۔عام طور پر چھوٹے موٹے رول ہی ملتے تھے لیکن 1964ء فلم ’’ہتھ جوڑی‘‘ میں ’’رنگیلا‘‘ کے ساتھ اس کے مزاحیہ اداکار کے طور پر مرکزی کردار نے بریک تھرو کا کام کیا تھا۔جگت بازی اور بذلہ سنجی ، حاضر دماغی اور برجستگی (یاٹائمنگ) ، پھرتی اور تیز طراری الغرض مزاحیہ اداکاری جملہ اصناف میں منور ظریف اپنی مثال آپ تھے۔

1972ء تک منور ظریف چوٹی کے مزاحیہ اداکار کے طور پر فلموں میں نظر آتے رہے لیکن 1973ء ان کے فلمی کیرئیر کا بڑا یادگار سال ثابت ہوا جب پہلے وہ اردو فلم ’’پردے میں رہنے دو‘‘ میں رنگیلا کے ساتھ سائیڈ ہیرو تھے۔ اس فلم کی زبردست کامیابی کے بعد اسی انداز کی ایک اردو فلم ’’رنگیلا اور منورظریف‘‘ بنائی گئی جو باکس آفس پر ایک اور کامیاب ترین فلم تھی ۔ رنگیلا کے بعد منور ظریف پاکستان کے دوسرے ایسے فنکار تھے جن کے نام پر کوئی فلم بنائی گئی ۔بطور ہیرو اور ٹائیٹل رول میں منور ظریف کی پہلی پنجابی فلم ’’اج دا مہینوال‘‘ بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی جس میں ان کی ہیروئن عالیہ تھی جو ایک ناکام فلم تھی جب کہ اسی سال ’’بنارسی ٹھگ‘‘ نے انھیں بام عروج پر پہنچا دیا۔ اس سال کے اختتام سے پہلے ہی اس کی ہیرو اور ٹائٹل کرداروں میں دو مزید پنجابی فلمیں ’’خوشیا‘‘ اور ’’جیرا بلیڈ‘‘ ریلیز ہوئیں جن میں سے ’’خوشیا‘‘ ایک بھارتی فلم کی کاپی تھی لیکن منور ظریف کی زندگی سے انتہائی مشابہ تھی ۔ فلم ’’نوکر ووہٹی دا‘‘ 1974ء اس کے فلمی کیرئیر کی سب سے بڑی فلم تھی ۔

اس نے 70 کے قریب اردو فلموں میں کام کیا تھا اور کردارنگاری کے لحاظ سے فلم ’’زینت ‘‘ 1975ء کی سب سے بڑی اور یادگار فلم تھی ۔ فلم ’’جانو کپتی‘‘ 1975ء میں منور نے رقص میں آسیہ سے مقابلہ بھی کیا تھا ۔ منور ظریف ہی پاکستان کے واحد اداکار ہیں کہ جس نے ایک مرد ہو کر کسی فلم کا نسوانی ٹائٹل رول بھی کیا تھا۔ گیت پکچرائز کرانے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا وہ موسیقی کی ٹھیک ٹھاک شد بد رکھتے تھے اور ایک بہترین طبلہ نواز بھی تھے ۔منور ظریف پر روبینہ بدر ، افشاں ، ناہید اختر اور مہناز کے گیت بھی فلمائے گئے جوان کی کامیاب نسوانی کرداروں کی وجہ سے تھے ۔

منورظریف کی پیدائش 2 فروری 1940ء کو ہوئی اور ان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا ۔ان کا انتقال 29اپریل 1976ء کو لاہور میں ہوا ، اس طرح اس نے صرف 36 سالہ عمر پائی تھی ۔ اپنی زندگی میں تو فلم سازوں کے لیے سونے کی چڑیا تھے ہی مگر ان کی موت کے بعد بہت سی ایسی فلموں نے بھی زبردست بزنس کیا جو پہلے رن میں ناکام ہوگئی تھیں۔ منور ظریف کے بیٹے فیصل منور ظریف 90ء کے عشرے میں دو فلموں ’’پتر منور ظریف دا‘‘ اور ’’پتر جیڑے بلیڈ دا‘‘ میں ہیرو آیا تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ منور ظریف کی رنگیلا ، علی اعجاز، ننھا، خلیفہ نذیر اور مسعود رانا سے دوستی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔