شہباز شریف؛ گرفتاری کے بعد جرم کی تلاش

مزمل سہروردی  ہفتہ 20 اکتوبر 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

قائد حزب اختلاف میاںمحمد شہباز شریف کی گرفتاری نے ملک میں بہت سے سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی جانب سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ سب سے پہلے نیب کے دائرہ اختیار اور جمہوری نظام میں اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کے عہدے کی اہمیت پر سوالات پیدا ہوئے ہیںکہ نیب کا دائرہ اختیار کیا ہے اور کسی بھی شخص پر لگائے گئے الزامات کے بعد اسے گرفتار کرنے اور تفتیش کرنے کا طریقہ کار کیا ہے۔

فلسفہ مفاہمت اور فلسفہ مزاحمت کی افادیت پر سوالات بھی اہم ہو گئے ہیں۔ نیب کی جانب سے دوسرے ریمانڈ پر یہ تاثر بھی مضبوط ہو گیا ہے کہ شہباز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ گرفتاری کے بعد ثبوت کی تلاش کی جا رہی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ پہلے کسی جرم کا ثبوت تلاش کیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد اس کے مرتکب فرد کو گرفتار کر کے تفتیش کی جاتی ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔

کیا یہ سوال اہم نہیں ہے کہ میاں محمد شہباز شریف کی گرفتاری کے حوالہ سے احتیاط سے کام لیا جانا چاہیے تھا بلکہ کسی بھی شخص کی گرفتاری سے پہلے بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ اس کے بعد اس پر اعتراضات پیدا نہ ہوں۔کوئی عمل خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو لیکن اگر اسے غلط انداز میں سرانجام دیا جائے تو اس سے وہ عمل اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔سیاسی گرفتاریاں ایک مخالف رائے عامہ ہموار کر رہی ہیں۔ عام آدمی سمجھنا چاہتا ہے کہ گرفتاری کا معیار کیا ہے۔

کیا ثبوت ملنے کے بعد گرفتاری کی جاتی ہے یا ثبوت ڈھونڈنے کے لیے گرفتاری کی جاتی ہے۔ کچھ معاملات میں ایسا تاثر بن رہا ہے کہ گرفتاری کو زیر التوا رکھا جا رہا ہے جب کہ کچھ معاملات میں گرفتاری کی جلدی دکھائی جا رہی ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔

ابھی تک میاں محمد شہباز شریف کی گرفتاری کی منطق ان کے چاہنے والوں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کسی کو سمجھ نہیں آئی ہے۔ یہ بات بھی ابہام کا شکار ہے کہ ان پر الزام کیا ہے۔ اگر آشیانہ کا الزام ہے تو یقیناً یہ ایک کمزور کیس ہے۔ اس ضمن میں احد چیمہ اور دیگر افسران کے خلاف ایک ریفرنس دائر ہو چکا ہے جس میں شہباز شریف کا ذکر نہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کا دوسرا ریمانڈ نہیں لینا چاہیے تھا۔ یہ ریمانڈ پر ریمانڈ کا کلچر کسی بھی ادارے کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔ پہلے ہی دس دن کا ریمانڈ بہت زیادہ تھا لیکن اس کے بعد مزید چودہ دن کے ریمانڈ نے معاملات کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ نیب دس دن بعد ریفرنس دائر کر دیتا۔ اس سے وہ تمام قیاس آرائیاں ختم ہو جاتیں کہ گرفتاری کے سیاسی محرکات ہیں۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ گرفتاری کے بعد جرم کی تلاش ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی جرم مل جائے اور ریفرنس دائر کیا جا سکے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف نے اپنے خطاب میںکافی حد تک معاملہ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ان کی جانب سے نیب کی تفتیش پر اٹھائے جانے والے سوالات کی بھی تحقیقات ضروری ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ چیئرمین نیب از خود میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے قومی اسمبلی میں کی جانے والی باتوں پر تحقیقات کا اعلان کر دیں۔ تحویل میں لیے گئے لوگ مجرم نہیں ملزم ہیں۔ ابھی ان پر الزامات ہیں کوئی چیز ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اسی لیے جب سابق وائس چانسلر مجاہد کامران اور دیگر اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں تو پورے معاشرہ نے ایک ردعمل دیا۔ اس ردعمل پر ہی چیئرمین نیب کو ایکشن لینا پڑا اور انھوں نے اپنے افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی ہے۔

نیب کو تحقیق کرنی چاہیے کہ کیا تفتیشی افسر نے شہباز شریف کو خواجہ آصف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ شہباز شریف کو بغیر کسی ثبوت کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔ ملک میں بننے والے عمومی ماحول کو سامنے رکھا جانا چاہیے۔ احتساب ملک کے لیے ناگزیر ہے۔لیکن احتسابی عمل میں غلطیاں سارے عمل کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

نیب کے ساتھ حکومت کو بھی احتساب کے معاملے میں اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔الزام تراشی کی سیاست حکومت کو کوئی فائدہ نہیں نقصان ہی دے گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ شہباز شریف نے وزیر اعظم عمران خان پر ہتک عزت کا جو دعویٰ کیا ہوا ہے اس میں عمران خان پیش ہونے کا اعلان کر دیں۔ وہ تاخیری حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ ایک وزیر اعظم کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ نظام انصاف کے ساتھ تاخیری حربہ استعمال کرے۔ اس مقدمہ کی ترجیحی بنیادوں پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔اگر عمران خان اس مقدمہ کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تو انھیں چاہیے کہ اپنے الزامات واپس لے لیں تا کہ ملک میں الزام تراشی کا کلچر ختم ہو سکے۔

گو کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے قومی اسمبلی میں قانونی نکات بیان کیے ہیں جن کے تحت نیب کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تفتیشی طریقہ کار پر قومی اسمبلی کو ایک پارلیمانی کمیٹی بنانی چاہیے۔ اس ضمن میں کوئی مضائقہ نہیں اگر شہباز شریف کے ساتھ جس طرح تفتیش کی گئی ہے اس کی تحقیقات کر لی جائیں۔ ویسے بھی اساتذہ والے معاملے نے نیب کے تفتیشی طریقہ کار پر سوالیہ نشان پیدا کیے ہیں۔

جہاں تک آشیانہ کا تعلق ہے ۔ عام لوگ سوال کر رہے ہیں کہ جب سرکار کی زمین سرکار کے پاس ہے کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ منصوبہ کاغذوں سے آگے بڑھ ہی نہیں سکا تو قومی خزانہ کو نقصان پہنچنے کا سوال کیسے پیدا ہو گیا ہے۔ اسی تناظر میں یہ تاثر بن رہا ہے کہ چونکہ آشیانہ میں کچھ نہیں لہذا اب شہباز شریف کو کسی اور مقدمے میں پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی لیے شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ان کے غیر سیاسی بیٹے سلمان شہباز کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ اسی لیے یہ تاثر بن رہا ہے کہ جب کسی کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں تو ملزم کو بے گناہ لکھنے سے بچنے کے لیے آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ اب جب کہ شہباز شریف کے خلاف کچھ نہیں مل رہا تو کھیل کو اسی جانب لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں واضح کر دیا ہے کہ ان کے بیرون ملک کوئی اثاثے نہیں ہیں۔ ان کا سب کچھ پاکستان میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اس اعلان نے نیب کے لیے شاید آمدن سے زائد اثاثے کے مقدمات کی راہ میں بھی مشکلات حائل کر دی ہیں۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے وزیر موصوف نے شہباز شریف کے اس اعلان کو رد کرنے کے بجائے اس کی بالواسطہ توثیق ہی کر دی۔

پاکستان کی جمہوریت میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیہ ہیں۔ جمہوریت کی گاڑی ان دونوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ چیف الیکشن کمشنر ، چیئرمین نیب سمیت اہم آئینی تعیناتیوں کے لیے حکومت کو قائد حزب اختلاف کا تعاون درکار ہے۔ اسی کے ساتھ جمہوری نظام اپوزیشن کے بغیر چلنا نا ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قائد حزب اختلاف کو گرفتار اور پابند سلاسل کر کے ملک کا جمہوری نظام چلایا جا سکتا ہے۔

اگر یوسف رضا گیلانی راجہ پرویز اشرف بابر اعوان سمیت اہم سیاستدان گرفتاری کے بغیر ریفرنسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ تو میاں محمد شہباز شریف ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ پتہ نہیںمجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ میاں محمد شہباز شریف کی گرفتاری کسی بڑے اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ یہ حکومت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کی کوشش ہے۔ لیکن شاید ضمنی انتخابات کے نتائج نے یہ سب اسکرپٹ بھی ناکام کر دیا ہے۔ اس لیے میاں محمد شہباز شریف کی گرفتاری کے فیصلے پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے نظام کو بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کرنی ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔