مسئلہ کشمیر اور دانشور، ادیب و شاعر

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 20 اکتوبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ویسے تو ساری دنیا کے 7 ارب انسان سرمایہ دارانہ استحصالی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں لیکن دنیا کے مختلف ملکوں میں رہنے والے انسانوں کے مسائل مختلف ہیں، لہٰذا ہم دنیا بھر کے ملکوں کے متضاد مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کرسکتے، لیکن جنوبی ایشیا کا مسئلہ چونکہ واضح بھی ہے اور قابل حل بھی ہے لہٰذا اس کا احاطہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

ہندوستان اور پاکستان صدیوں سے ایک ملک کی شکل میں موجود رہے اور اس ملک میں رہنے والے عوام مذہبی تفاوت کے باوجود مل جل کر رہے، لہٰذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد وہ کون سے عوامل تھے جو ان صدیوں تک ساتھ رہنے والے ملکوں کے درمیان سخت ترین کشیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

ہر ملک میں منفی سوچ کے حامل لوگ بھی رہتے ہیں اور مثبت سورج کے حامل لوگ بھی رہتے ہیں، ان لوگوں میں دانشور بھی شامل ہیں، مفکر بھی شامل ہیں، فلسفی بھی شامل ہیں، ادیب بھی شامل ہیں، شاعر بھی ،فنکار بھی۔ یہ لوگ اگر آفاقی وژن رکھتے ہیں تو ملکوں اور معاشروں کی بہتری اور یکجہتی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

جن ملکوں میں آفاقی وژن رکھنے والے متحد اور طاقتور ہوتے ہیں ان ملکوں کے عوام میں امن اور یکجہتی کی فضا بھی مضبوط ہوتی ہے اور وہ قومی مسائل میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل بھی رہتے ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب 1947 میں دو ملک بن گئے تو ملک کے دانشور اور مفکر ادیب اور شاعر بے بس کردیے گئے، مذہبی انتہاپسند ٹولے آزاد ہوگئے اور ان طبقوں نے عوام کے ذہنوں میں ایسا زہر گھول دیا کہ جب یہ زہر باہر آیا تو 22 لاکھ بے گناہ انسانوں کو، جن میں مرد، خواتین، بچے، بوڑھے سب شامل تھے، کو کھا گیا۔

یہ کوئی جانبداری یا طرفداری کی بات نہیں کہ پاکستان میں مذہبی انتہاپسند اور مذہبی انتہا پسندی جڑیں نہیں پکڑ سکی، اگرچہ کوششیں کی گئیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں ترقی پسند قوتیں مضبوط تھیں اور عوام میں جڑیں رکھتی تھیں۔ اس کے برخلاف ہندوستان میں مذہبی انتہاپسند مضبوط بھی تھے اور منظم بھی تھے، جس کا نتیجہ شدید قتل و غارت کی شکل میں نکلا اور دونوں ملک فرقہ وارانہ فسادات کی نذر ہوگئے۔

ہندو انتہاپسندی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ متحدہ بھارت میں ایک ہزار سال تک مسلمان بادشاہوں کی حکومت رہی، حالانکہ اس دور میں مجموعی طور پر امن کی طاقتیں مضبوط رہیں، لیکن 1947 میں آزادی کے حصول کے بعد ہندو انتہاپسند طاقتوں نے یہ پروپیگنڈا بھرپور طریقے سے کیا کہ ہندوستان پر ایک ہزار سالہ مسلم حکومتیں ہندوستان کی 88 فیصد ہندو اکثریت پر مسلط رہیں اور یہ بہت بڑا ظلم ہے جس کا بدلہ لیا جانا چاہیے۔

اس رجحان نے 1947 کے فرقہ وارانہ فسادات کو خوب ہوا دی، عوام اس پروپیگنڈے میں اندھے ہوگئے اور مسلمانوں کی یہ کمزوری رہی کہ وہ پدرم سلطان بود کے نشے میں سرشار رہے، لیکن 1947 کے قتل عام کی وجہ سے دونوں قوموں میں جو نفرت پیدا ہوئی اس کو کم کرنے میں اور مذہبی یکجہتی پیدا کرنے میں ترقی پسند طاقتوں خصوصاً ادیبوں اور شاعروں نے بنیادی کردار ادا کیا۔

تقسیم کے بعد ترقی پسند طاقتیں بھی تقسیم ہوگئیں اور اسی تقسیم نے ترقی پسند طاقتوں کو کمزور کردیا۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان ایک بڑا تضاد بن گیا، اس تضاد کے نتیجے میں تین جنگیں ہوئیں اور 70 ہزار کشمیری اس تضاد کی نذر ہوگئے۔ مسئلہ کشمیر کی نوعیت ایسی ہے کہ پاکستانی حکومتیں اس تضاد میں برابر کی فریق نہ رہیں، اس تضاد یا مسئلے کا سارا ملبہ ہندوستانی حکومتوں پر ہی گرتا رہا۔ یہ مسئلہ جب اقوام متحدہ میں گیا تو اقوام متحدہ نے اس کا حل رائے شماری بتایا۔

ہندوستان کی حکومتوں کو یقین تھا کہ اگر کشمیر میں رائے شماری کرائی گئی تو عوام پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے، یہی خوف ہندوستان کی پہلی حکومت سے آج تک کی حکومتوں کے ذہنوں پر حاوی رہا اور کشمیر دونوں ملکوں کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا۔

اس تضاد، اس کشیدگی اور مستقل نفرتوں اور خون خرابے کو روکنے میں دونوں ملکوں کے سفارتکار کچھ نہیں کرسکتے، بلکہ آج ہو یا کل اس مسئلے کے حل میں ترقی پسند طاقتیں ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان میں ترقی پسند طاقتیں مضبوط ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ طاقتیں جنوبی ایشیا کے عوام کی غربت اور معاشی بدحالی کو ختم کرانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہی ہیں۔ ترقی پسند طاقتوں کا وژن آفاقی ہوتا ہے اور ہندو اور مسلمان کے ساتھ انسان کو انسان بھی سمجھتی ہیں اور جس دن ہندوستان کی ترقی پسند طاقتیں اس مسئلے کو حل کرنے میں کردار ادا کرنے کے قابل ہوئیں، یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ سفارتی کوششوں سے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔

مسئلہ کشمیر کی وجہ سے اور بہت سارے نقصانات تو ہو رہے ہیں لیکن دونوں ملک دفاع پر جو اربوں روپے سالانہ خرچ کر رہے ہیں، وہ بچ جائیں گے، جس سے عوام کی غربت دور کرنے میں مدد ملے گی، اگر یہ مسئلہ پرامن طریقے سے حل ہوگیا، تو برصغیر و جنوبی ایشیا سے غربت میں بہت کمی آئے گی، اس حوالے سے دانشوروں مفکروں ادیبوں شاعروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس خطرناک مسئلے کو حل کرنے میں کردار ادا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔