ہتھیاروں سے کھیلتا دنیا کا مستقبل

فرحین شیخ  اتوار 21 اکتوبر 2018
مختلف ممالک میں ’’چائلڈ سولجر‘‘ ہتھیار اٹھانے سے جنسی استیصال تک استعمال ہورہے ہیں۔ فوٹو: فائل

مختلف ممالک میں ’’چائلڈ سولجر‘‘ ہتھیار اٹھانے سے جنسی استیصال تک استعمال ہورہے ہیں۔ فوٹو: فائل

یہ قصہ اس وقت کا نہیں جب گھڑ سوار، دیوہیکل پہاڑوں کو لرزاتے، زمین کا سینہ پھاڑتے، خوب صورت ندیوں کا حُسن گہناتے اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کرتے ہوئے آتے اور آواز اٹھانے والوں کے گلے میں پٹا ڈال کر ساتھ ہنکا لے جاتے۔

یہ قصہ اس وقت کا بھی نہیں جب بادشاہوں کے درباروں سے وقت سہم کر گزرتا، تہذیب اپنی آبرو کھوتی اور امن و سکون اپنے بے دریغ استیصال پر نوحہ گر ہوتے۔ یہ تو کہانی ہے ہمارے مشینی اور سائنسی دور کی جس نے بظاہر تو سب کچھ بدل ڈالا لیکن نہ بدل سکا تو حیوانیت اور طاقت کے اظہار کا صدیوں پرانا طریقہ۔ انسان نے سیاروں پر کمند ڈالی، سیاروں پر قدم جمائے، موذی امراض کو شکست فاش دی، جو چاہا وہ حاصل کرلیا، لیکن افسوس بربریت میں وہ پہلے سے بھی زیادہ پستی میں اتر گیا۔ ترقی کی انتہاؤں کو چھوکر بھی دنیا کے شانے غموں سے بوجھل ہیں۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ ترقی کی دوڑ میں سرپٹ دوڑنے کے بعد بھی دنیا کو چائلڈ سولجر جیسے بھیانک تصور کا کسیلا ذائقہ چکھنا پڑ جائے گا۔ جی ہاں! دنیا بھر کے جنگی خطوں میں آج بھی ہزاروں بچے جبری فوج میں بھرتی کیے جارہے ہیں اور اتنے بڑے ظلم پر سب آنکھیں موندے اس کڑوی حقیقت سے نظریں چرانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

نئی صدی کا چبھتا ہوا سچ تو یہ ہے کہ کئی ممالک کی مسلح افواج اور گروہوں کا چالیس فی صد چائلڈ سولجرز پر مشتمل ہے جو ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان، انڈیا، کانگو، عراق، تھائی لینڈ، شام اور یمن سمیت دنیا کے چودہ ممالک میں بچوں کی فوج اور متحارب گروہوں میں بھرتی معمول کی بات ہے۔ تنازعات میں الجھے خطوں کے بچے جو بنیادی سہولیات سے کوسوں دور محرومیوں کے سائے تلے پروان چڑھ رہے ہیں ان کو معمولی معمولی معاوضوں کے عوض بڑی بڑی جنگوں کا ایندھن بنایا جا رہا ہے۔ اور کہیں کہیں تو معاوضے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی بلکہ ہجرت کر کے پناہ کی تلاش میں آنے والے بچوں کو جبری فوجی بنا کر محاذوں پر روانہ کردیا جاتا ہے اور دنیا کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان بچوں نے رضاکارانہ فوج میں شمولیت اختیار کی ہے۔ تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے مطابق فوج میں بھرتی ہونے کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال مقرر ہے، لیکن جنگی خطوں میں نو سے چودہ سال کی عمروں کے چاند بھی گہنائے جارہے ہیں اور دنیا کے کرتا دھرتا چپ کی چادر میں پاؤں پسارے خود کو بے خبر ظاہر کرنے کی خوب اداکاری کر رہے ہیں۔

دنیا نے آج تک کتنے ہی رنگ اوڑھے اور کتنے ہی چولے بدلے، لیکن فرعونیت ہر دور میں ثابت قدم ٹھہری۔ ماضی کے فرعونوں نے بچوں کو زندہ ابالا، نیزوں میں پرویا اور بھٹیوں میں بھونا تو آج کے فرعونوں نے ان معصوموں کو بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا۔ دشمن کے سامنے صف بستہ ان بچوں کو تو دشمنی کا مفہوم تک معلوم نہیں۔ اکثر یہ بچے جاسوسی کرتے ہوئے مخالف گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور بدترین تشدد سہتے یا پھر مار دیے جاتے ہیں۔ اور اکثر یہ صرف فوجیوں کی جنسی آسودگی کے لیے فوج میں بھرتی کیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے صرف بچے ہی نہیں بلکہ بچیاں بھی استعمال کی جارہی ہیں جو محاذوں پر ان فوجیوں کے بچے بھی پیدا کرتی ہیں اور ان بچوں کو کمر پر باندھے باندھے دیگر خدمات بھی سر انجام دیتی ہیں۔ اکثر ان بچوں کو فوجی کارروائیوں میں سب سے آگے رکھا جاتا ہے اور اسے men checkingکا نام دیا جاتا ہے کہ اگر کہیں کوئی بارود نصب ہو یا اچانک حملہ ہوجائے تو اس کی زد میں یہ بچے آجائیں اور باقی فوجی محفوظ رہیں۔ انسانی حقوق کی اس قدر شدید خلاف ورزی پر گو کہ ا قوام متحدہ اور ہیومن رائٹ واچ نے کافی آواز بلند کی لیکن وہ نقار خانے میں طوطی کی صدا سے زیادہ کچھ ثابت نہ ہوئی اور آج حال یہ ہے کہ گذشتہ سالوں کے مقابلے میں چائلڈ سولجرز کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

چائلڈ سولجر بنانے جیسے بڑے جرم میں کون کون سے ممالک ملوث ہیں اور ان بچوں کو کن کن جنگوں میں جھونکا جارہا ہے؟ اس کا فرداً فرداً جائزہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ہیومن رائٹ واچ کی رپورٹوں کے مطابق ایران میں اٖفغان مہاجر بچوں کو جبری فوج میں بھرتی کر کے شامی جنگ کا حصہ بنایا جارہا ہے اور ان بچوں کی عمریں چودہ سال یا اس سے بھی کم ہیں۔ انہوں نے جب شام میں مارے جانے والے ایرانی سپاہیوں کی قبروں کا دورہ کیا تو کتبوں پر نصب فوجیوں کی تصاویر چیخ چیخ کر ان کی عمریں بتا رہی تھیں۔ ایرانی حکومت کے ترجمان اگر چہ یہی کہتے رہے کہ مرنے والے فوجی اٹھارہ سال اور اس سے زائد عمر کے ہیں لیکن ان کو جنم دینے والی مائیں حکومت کی غلط بیانی کا پردہ فاش کر تے ہوئے بلکنے لگیں کہ ان کے لعل تو ابھی اس قابل ہی نہ تھے کہ زمانے کے سرد و گرم دیکھتے، آخر ان کو جنگی شعلوں کی نذر کیوں کردیا گیا؟

ہیومن رائٹ واچ کی مشرق وسطی کی ڈائریکٹر سارا لی وٹسن نے اس رپورٹ کے بعد ایرانی حکومت سے اپیل کی کہ وہ افغان مہاجرین کی بحالی کی ذمہ دار ہے لہذا فوری طور پر بچوں کو شام کے محاذ سے واپس بلا کر ان کے حقوق کی پاس داری کی جائے۔ لیکن کیسے حقوق اور کہاں کی پاس داری؟ یہ بے گھر مہاجر بچے تو آسان شکار ہیں اور ان کو استعمال کر نے والے گھاگ شکاری۔

2015 کے اعدادوشمار کے مطابق ایران میں 2.5 ملین افغان مہاجرین موجود ہیں۔ ان مہاجرین کی اکثریت کو لڑنے کے لیے فاطمیون ڈویژن میں شامل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ فاطمیون ڈویژن اس وقت چودہ ہزار سے زیادہ سپاہیوں پر مشتمل ہے جن میں بیشتر افغان مہاجرین ہیں۔ اس میں شامل افغان فوجیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے تربیتی کیمپوں میں ایسے بچے بھی دیکھے جن کی عمریں چودہ سے سترہ سال کے درمیان ہیں اور انہیں شامی جنگ میں حصہ لینے اور لڑنے کی تربیت دی جارہی ہے۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے فاطمیون ڈویژن میں شامل ہونے والے افغانوں پر کوئی دباؤ نہیں، انہوں نے اپنی مرضی سے اس راستے کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب بے کسوں اور مجبوروں کے لیے زندہ رہنے کا کوئی دوسرا راستہ ہی نہ چھوڑا جائے تو وہ اپنی بقا کا واحد راستہ ہی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں چاہے اس کا انجام اپنی موت ہو یا کُل عالم کی تباہی۔ ایران میں افغان مہاجرین کی بدترین حالت اور بے دخلی کا خوف دو بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بچے ہوں یا بڑے سب نے جنگجو بننا قبول کر لیا ہے۔

افریقا وہ بدترین خطہ ہے جہاں چائلڈ سولجر کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پہلی وجہ یہاں کی بدترین اقتصادی حالت ہے، جس کی وجہ سے بچے اسکولوں اور دیگر بنیادی سہولیات سے دور بے کاری اور آوارہ گردی میں وقت گزار کر زندگی کی ہنسی اُڑاتے ہیں اور دوسرا یہاں پنپتے سیکڑوں تنازعات اور موجود لاتعداد متحارب گروہ۔ فارغ اور آوارہ بچے معمولی معمولی معاوضوں کے عوض ان گروہوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔ یوں افریقا میں کہیں بچے بھوک، افلاس اور گولیوں سے مر رہے ہیں تو کہیں مشین گنیں ہاتھوں میں اٹھا ئے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ صرف کانگو کے صوبے کاسائی ہی میں دس ہزار سے زیادہ چائلڈ سولجرز موجود ہیں جو کسی نہ کسی گروہ سے وابستہ ہیں۔ کانگو کے ان فوجی بچوں کا بچپن گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی نذر ہو چکا ہے۔ ان کے ننھے ذہن چھلنی ہوچکے ہیں اور ہر وقت حملے کے خوف نے ان کی میٹھی نیند کو ابدی نیند سلا دیا ہے۔

بچوں کو رحم دلی اور نرمی کے جذبے سے یکسر خالی کرنے کے لیے انہیں اکثر اپنے قریبی دوستوں، پڑوسیوں یہاں تک کہ سگے بہن بھائیوں کے قتل کا ہدف بھی دیا جاتا ہے۔ بارود کی بو اندر بسائے جوان ہونے والے یہ بچے آنے والے وقت میں دنیا کے لیے ایک بڑی بربادی کے اعلان کے سوا اور کیا ثابت ہوں گے؟ وقت جن انسانی اقدار کا متقاضی ہے ان حسیات کا اگر بچپن ہی میں طایسی دنیا میں قدم دھر کر کرنا بھی کیا تھا جہاں ان کے پاس نہ کھانے کو روٹی تھی نہ پینے کو صاف پانی۔ کانگو میں اس وقت بھی چھوٹے چھوٹے بچے فوجی خدمات انجام دے کر اپنے گھر والوں کے پیٹ کا دوزخ بھر رہے ہیں۔ ہاں ! یہ الگ بات ہے کہ اس دوزخ کو بھرنے کے لیے انہیں باقی دنیا میں جہنم دہکانا پڑ رہا ہے۔ یہ صورت حال شاید کبھی تبدیل نہ ہوسکے گی کیوں کہ بھوک ، افلاس اور بارود کی اس تکون میں ہی عالمی طاقتوں کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔

اس حوالے سے شام کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں بلکہ شام تو وہ واحد جنگی خطہ ہے جہاں ایک بچے کی معمولی لغزش ایک بڑی جنگ کا باعث بنی۔ جی ہاں! معاویہ ہی وہ کم عمر لڑکا تھا جس کا ایک بے ضرر فعل عہدِحاضر کی سب سے بڑی جنگ کی وجہ بن گیا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بشار حکومت کے خلاف ایک نعرہ دیوار پر لکھتے وقت اس کو اس تباہی کا کب اندازہ تھا جو وارد ہونے کے لیے بس کسی بہانے کی متلاشی تھی اور وہ بہانہ معاویہ نے اسے تھما دیا۔ حکومت مخالف نعرہ لکھنے کے جرم میں اسے گرفتار کرلیا گیا، جس پر ہونے والا احتجاج پھیلتے پھیلتے ایک بہت بڑی جنگ مین تبدیل ہوگیا۔

اب معاویہ بچہ نہیں بلکہ ایک نوجوان ہے جو شامی فوج کے خلاف صف اول کے دستوں میں لڑرہا ہے۔ لیکن دنیا کے اکثر ممالک اپنی جنگ لڑنے کے لیے بچوں کو جبری فوج میں بھرتی کرکے شام کی سرزمین کو خون میں نہلانے کے لیے اتار رہے ہیں۔ 2016 میں نو سو چائلڈ سولجر شام بھیجے گئے اور اب یہ تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ زیادہ تر بچوں کو یہاں خود کش حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ رواں سال ایک ہزار فوجی بچے شام کی جنگ میں جاں بحق ہو گئے اور بے شمار داعش کے ہاتھوں یرغمال بنالیے گئے۔ یہاں بھی حکام کا وہی گھسا پٹا دعویٰ ہے کہ ان بچوں نے رضاکارانہ طور پر فوج میں شمولیت اختیار کی۔

یمن بھی دورِجدید کا وہ بدقسمت خطہ ہے جہاں کی فضا بچوں کے لیے ذرا سازگار نہیں۔ حوثی فوج نے بچوں کی جبری بھرتی کا عمل تیز تر کر رکھا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت حوثی فوج میں گیارہ سال کی عمر کے لگ بھگ نو سو کے قریب بچے کام کر رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر جنگی کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں اور باقی کھانا پکانے، سامان کی حفاظت اور پیغام رسانی کے کاموں پر مامور ہیں۔ سی این این کے مطابق یمن میں دس سے بارہ سال کی عمر کے بچے جدید اسلحہ انتہائی مہارت سے استعمال کر تے ہیں۔ یہاں رہا ہونے والے ایک فوجی بچے نے انٹرویو میں بتایا کہ بم ہمارے آس پاس آکر گرتے تھے، جن کے خوف سے ہم سب بچے ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگتے تھے۔

ماؤں کی گرم آغوش سے محروم کر کے ان بچوں کو جنگی شعلوں کے حوالے کردینے سے بڑی حیوانیت اور کیا ہوسکتی ہے۔ یمن کے فوجی بچے مردہ فوجیوں کی لاشیں گھسیٹ کے لانے اور انہیں دفنانے کا خوف ناک کام بھی انجام دینے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ یہ بچے بھی عام بچوں کی طرح روتے اور چیختے ہیں لیکن ان کی آوازیں طیاروں کی گڑگڑاہٹ میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ ان کے آنسو گولہ بارود کے دھویں میں جذب ہوجاتے ہیں۔ یہ کسی بھی طرف مدد کو ہاتھ بڑھاتے ہیں تو بدلے میں مزید ہتھیار پاتے ہیں۔ اس وقت یمن میں چھے ہزار فوجی بچے محاذ پر تعینات ہیں جہاں یہ خوف سے آنکھیں بھینچے اور سانسیں روکے کبھی پیدا کرنے والے کو تو کبھی جنم دینے والوں کو پکارتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق حوثی فوجی اس وعدے پر بچوں کو فوج میں لیتے ہیں کہ ان کی محاذ پر موت کی صورت میں والدین کو ماہانہ اَسّی سے ایک سو بیس ڈالر تک پینشن ادا کی جائے گی۔ عرب دنیا کے سب سے غریب ملک یمن کے بے بس والدین یہ اذیت ناک سودا قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ جن بچوں کے 1600اسکول بم باری میں تباہ ہو چکے ہوں ان کا اگلا پڑاؤ میدانِ جنگ کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟

انسانی حقوق پر علی الاعلان ڈاکا ڈالنے والے ممالک اور گروہوں کی فہرست ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ انسانیت سوز واقعات پر مشتمل یہ کہانیاں جبر کا باب بند ہونے سے پہلے ختم ہو بھی کیسے سکتی ہیں۔ سینٹرل افریکن ریپبلک میں اس وقت دس ہزار، بوکوحرام کی فوج میں دو ہزار، جنوبی سوڈان میں انیس ہزار اور میانمار میں تین ہزار بچے جبری فوجی مشقت پر مجبور ہیں۔

بچپن انسانی زندگی کا وہ واحد دور ہوتا ہے جس میں ہر کوئی واپس جانا چاہتا ہے۔ خوشیاں، محبت اور بے فکری کی نعمت جس بھرپور طریقے سے بچپن میں ملتی ہے وہ پھر کبھی نہیں ملتی۔ لیکن افسوس دنیا بھر کے چائلڈ سولجرز تو اس خوشی سے بھی محروم رہ گئے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی بڑا ہو کر اپنے بچپن کو یاد کرنے کی ہمت نہ کرسکے گا۔ وہ بچپن میں جس میں قلم کی جگہ ہتھیار اور ماں باپ کی گھنی چھاؤں کی جگہ میدان جنگ کی ہیبت ملی ہو، آخر وہاں جانا بھی کون چاہے گا؟ چہرے پر بھوک اور ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے ان بچوں کے لیے صرف قوانین بنانا اور ان کو منظور کروانا ہی اہم نہیں بلکہ سختی سے نافذ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

عصرِحاضر کی سب سے بڑی جنگ کا باعث ایک بچہ بنا

شام کی جنگ ایک پوری دہائی سر کرنے کے قریب ہے۔ جب لوگوں سے اس بارے میں سوال کیا جاتا ہے کہ اس بدترین جنگ کے آغاز کی وجہ کیا تھی؟ تو ان کا سادہ سا جواب ہوتا ہے کہ یقیناً شام کی حکومت مخالف تنظیمیں ہی ذمہ دار ہیں جن کو کچلنے کے لیے حکومت نے آپریشن کیا جو جلد ہی بڑی خانہ جنگی میں بدل گیا۔ لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ 2011 میں شام میں داعش اور النصرہ نام کی کسی تنظیم کا وجود تک نہ تھا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ لاکھوں لوگوں کو نگلنے والی اس جنگ کے شعلے چند بچوں کی ایک بے ضرر سی شرارت سے بلند ہوئے۔ چودہ سالہ معاویہ اور اس کے تین دوستوں کا ایک مذاق بڑی تباہی کا موجب بن گیا۔

16فروری 2011 کو شامی صوبے دارا کے ایک اسکول البنین میں بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ معاویہ اور اس کے دوستوں کو شرارت سوجھی اور انہوں نے پرنسپل آفس میں کھڑکی کی بیرونی دیوار پر ایک نعرہ لکھ دیا It’s your turn, Doctor Bashar Al-Asad ۔ بات مذاق ہی مذاق میں آئی گئی ہوگئی اور بچے تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ لیکن بچوں کی یہ معمولی سی خطا بشار کے جاسوسوں سے نہ چھپ سکی۔ اس نعرے کا مطلب بچوں کے لیے کچھ نہیں مگر بشار حکومت کے لیے بہت کچھ تھا۔ چند ہی دنوں میں یہ بچے گھروں سے اٹھالیے گئے۔ 23 بچوں کی حراست کے بعد پورے صوبے میں شروع ہونے والے پُرامن احتجاج اور مظاہرے حکومتی غلط اقدامات کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے قیامت خیز جنگ میں بدل گئے۔ ان بچوں میں سے معاویہ اور اس کے کئی ساتھی اس وقت شامی جنگ کا حصہ ہیں۔

چائلڈ سولجر ز۔ چند حقائق

٭اقوام متحدہ کے رکن 197 میں سے109ممالک بچوں کی فوج میں بھرتی کے قانونStraight -18  پر عمل کرتے ہیں، جس کی رو سے بچوں کی فوج میں شمولیت کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال طے کی گئی ہے۔

٭46 ممالک میں اس وقت بھی اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی فوج میں شمولیت کا قانون موجود ہے جن میں برطانیہ بھی شامل ہے۔

٭ سن 2016 سے اب تک دنیا میں اٹھنے والے تنازعات میں سے اٹھارہ تنازعات ایسے ہیں جن میں کم عمر بچے ریاستی فوج یا متحارب گروہوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

٭85 ممالک میں چائلڈ سولجر بنانا سنگین جرم شمار کیا جاتا ہے۔

٭27 ممالک میں نام نہاد فوجی اسکول موجود ہیں جنہیں ریاست کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہاں پندرہ سال یا اس سے بھی کم عمر بچوں کو داخلہ دیا جاتا ہے، جن کے لیے لازمی ہے کہ وہ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہوں۔

٭ سن 2000 میں بننے والے چائلڈ سولجر پروٹوکول OPAC پر167 ممالک نے دستخط کیے ہیں۔ تیس ممالک نے اب تک نہ اس کی تصدیق کی اور نہ اس معاہدے پر دستخط کیے جن میں جنوبی سوڈان اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔

چائلڈ سولجر پروٹوکول کیا ہے؟

بچوں کو فوج میں بھرتی کرنے یا جنگجو بنانے کے خلاف سن 2000 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے تشکیل کردہ ایک تنظیم ”چلڈرن اینڈ آرمڈ کانفلیکٹ  ”نے ایک معاہدہ پیش کیا جس کی رو سے:

1۔ کسی ریاست کے لیے جائز نہیں کہ وہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو فوج میں بھرتی کرے۔

2۔ ریاستیں متحارب گروہوں میں بچوں کی بھرتی کے خلاف ہر ممکن اقدامات کریں گی۔

3۔ اٹھارہ سال سے کم عمر بچے جو پہلے سے فوج یا مسلح گروہوں کا حصہ ہیں، تمام ریاستیں ان کو آزاد کروائیں گی اور ان کی جسمانی اور نفسیاتی بحالی پر توجہ مرکوز کریں گی، تاکہ وہ بچے دوبارہ معاشرے میں ضم ہو سکیں۔

4۔ مسلح افواج کے علاوہ ریاست کے اندر کوئی مسلح گروہ کسی بھی صورت میں نہیں ہونا چاہیے، تاکہ کم عمر بچوں کے استیصال کی بیخ کنی کی جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔