چینی معاشرہ ہر زاویئے سے نظم و ضبط میں ڈھلا ہوا ہے

 اتوار 21 اکتوبر 2018
چینی لوگ وزٹنگ کارڈز کے بجائے ای- چیٹ آئی ڈی کا تبادلہ کرتے ہیں‘ ایک پاکستانی کے چین میں گزرے شب و روز کا احوال۔ فوٹو: فائل

چینی لوگ وزٹنگ کارڈز کے بجائے ای- چیٹ آئی ڈی کا تبادلہ کرتے ہیں‘ ایک پاکستانی کے چین میں گزرے شب و روز کا احوال۔ فوٹو: فائل

محمد کریم احمد ریڈیو پاکستان سے بطور سینئر پروگرام پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ انگریزی ادب اور ابلاغ عامہ کے مضامین میں ماسٹر ڈگری رکھنے والے محمد کریم احمد2003ء میں ریڈیو پاکستان سے بطور پروگرام پروڈیوسر وابستہ ہوئے۔

پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اسی دوران یکم اگست2015ء سے 31جولائی 2018ء تک تین برس کے لیے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل بیجنگ کی اردو سروس سے بطور غیرملکی ماہر وابستگی رہی۔ انہوں نے اپنی اس سلسلہ وار تحریر میں چین میں چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کے ساتھ اپنی تین سالہ وابستگی کے دوران گزرنے شب و روز کا احوال قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے اپنی اس تحریر کے ذریعے چینی قوم اور ریاستی اداروں کی ایک خصوصیات کا بطور خاص ذکر کیا ہے جن کی بدولت چین آج دنیا کے چند ایک طاقتور ترین ممالک میں شامل ہوچکا ہے اور تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔ یہ سلسلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں ہمارے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔


٭٭٭
CRIیعنی چائنا ریڈیو انٹرنیشنل چین کی آزادی سے تقریباً آٹھ برس قبل 3دسمبر1941ء کو ریڈیو پیکنگ کے نام سے قائم کیا گیا تھا جو بعد میں ریڈیو بیجنگ ہوگیا۔ سی آر آئی کے تحت بیجنگ نیوز اوربیجنگ انٹرنیشنل کے نام سے اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں سی آر آئی کے 6علاقائی بیورو ہیں جن کے تحت بیرون ملک 32نیوز بیوروز کام کررہے ہیں۔ سی آر آئی دنیا کی 65زبانوں میں روزانہ 2700گھنٹے پر مشتمل پروگرام نشر کرتا ہے۔

چین میں انقلاب کے لیے سرگرم چینی کمیونسٹ پارٹی نے پہلی مرتبہ ریڈیو کا استعمال 1941ء میں صوبہ Shaanxiشانگزی کے علاقے یاننYanan میں کیا۔ یہ نشریات روس سے منگوائے جانے والے ایک ٹرانسمیٹر کے ذریعے کی گئیں۔ یہیں سے 30دسمبر 1940ء کو ژن ہوا چائینز ریڈیو (XNCR) کی نشریات کا آغاز ہوا۔ 1945ء میں نشریات کے دائرہ کار کو مزید وسعت ملی۔ 1947ء میں جب چین میں خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی تو تائی ہانگ پہاڑی سلسلے کی ایک غار سے ریڈیو کی نشریات جاری رکھی گئیں۔ 1949ء میں جب انقلاب کی کامیاب تکمیل کے بعد چین کی آزادی کا اعلان کیا گیا تو ریڈیو اسٹیشن بھی دارالحکومت پیکنگ (بیجنگ) منتقل کردیا گیا۔

10اپریل 1950ء کو اس کا نام بدل کر ریڈیو پیکنگ رکھ دیا گیا اور 1983ء کو یہ نام ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوکر ریڈیو بیجنگ ہوگیا۔ یکم جنوری 1993ء کو یہ نام ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوا اور اب اسے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل قرار دے دیا گیا۔مقامی بیجنگ ریڈیو براڈکاسٹنگ سے الگ شناخت کو واضح کرنے کے لیے 2011ء میں چائنا انٹرنیشنل براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک کی باقاعدہ تشکیل عمل میں آئی گئی جو بین الاقوامی نشریات کے تمام امور کو مربوط کرتا ہے۔

(پہلی قسط)
زندگی ایک سفر ہے جس میں مختلف مراحل اور نشیب و فراز آتے ہیں۔شاہراہِ حیات پر چلتے ہوئے کئی طرح کے تجربات اور مشاہدات ہماری زندگی کا حصہ بنتے ہیں جو زادِ راہ کی صورت ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ زندگی کے اسی اتار چڑھاو میں جہاں انسان زندگی کے حقائق کی نت نئی جہتوں سے آشنا ہوتا ہے وہیں اُس کی پیشہ وارانہ مصروفیات بھی ایک استاد کی طرح اسے نت نئی منزلوں اور مقامات سے اُسے آشنا کراتی ہیں۔ میرے لئے بھی میرے پیشہ ورانہ فرائض ہمیشہ اچھوتے تجربات کا باعث بنتے رہے ہیں۔ زندگی کے اس سفر میں میرا نیا پڑاو چین تھا اور یوں مشاہدات اور تجربات کے ایک حیرت انگیز سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔

جولائی کے اواخر کی ایک صبح ہمارا طیارہ چین کے دارالحکومت بیجینگ کی فضاوں میں داخل ہوا تو جہاز کی کھڑکی سے باہر کے مناظر بہت دلکش تھے۔ اونچے پہاڑ ،چہار سو پھیلا سبزہ اور جا بہ جا بلند و بالا عمارتیں جہاز کی کھڑکی سے بیجینگ کا پہلا تعارف تھا۔ جہاز سے اُتر کر امیگریشن کی راہ لی۔ وسیع و عریض اور جدید سہولیات سے آراستہ ائیر پورٹ کے مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے چین کی ترقی واضح نظر آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی قوم کے اجتماعی رویوں اور مزاج کا جائزہ لینے کے لیے سینما گھر، بس اڈے اور عوامی مقامات بہترین انتخاب ہیں۔ تو اسی اصول کی پیروی کرتے ہوئے جائزہ لینا شروع کیا۔ ائر پورٹ پر مختلف سروسز کی فراہمی کے لیے تعینات عملہ چاق و چوبند ، پُراعتماد اور خوش اخلاق تھا۔ ہوائی اڈے کے اندر چینی اور انگلش زبانوں میں لگے مختلف کمرشل اشتہارات اور سائن بورڈز ایک ترتیب اور آہنگ کے ساتھ آراستہ تھے۔ صفائی قابلِ دید او ر قابلِ رشک تھی۔ ایک طویل کوریڈور سے گزر کر امیگریشن کاونٹر ہے۔

وہاں پہنچے تو دیکھا کہ مختلف ممالک سے آنے والے تمام چینی و غیر چینی مسافر ایک لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتطار کر رہے ہیں۔ امیگریشن اہلکار کسی غیر ضروری شغل یا کسی ساتھی اہلکار سے خوش گپیوں میں مصروف ہوئے بغیر اپنا فرض نبھا رہے تھے۔ چینی قوم کا اپنے کام سے کام رکھنے کا یہ پہلا مشاہدہ اپنے قیام کے تین برسوں میں ہمیشہ دیکھنے کو ملا۔ امیگریشن کے مراحل سے گزرتے ہوئے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو آس پاس موجود جدید ترین سہولیات اورچینی شہریوں کے زیرِ استعمال جدید ترین سمارٹ فونز اور ان کی باڈی لینگوئج ان کی ترقی کا خاموش اور واضح اظہار تھی۔ امیگریشن سے فراغت پائی اور باہر نکلے تو دبلے پتلے طویل قامت پھنگ شون جن کا اُردو نام فراز ہے چین میں ہمارے میزبان ادارے کے نمائندہ کی حیثیت میں استقبال کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے پُر اخلاص مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ ان کو دیکھ کر ہمارے ہاں پائی جانے والی ایک غلط فہمی دور ہوئی کہ چینی شہری صرف چھوٹے قد کے ہی ہوتے ہیں۔ فرازصاحب کو اردو بولتے سن کر خوشگوار حیرت ہوئی اوروطن سے دور کسی غیر ملکی سے اپنی زبان میں گفتگو کر کے بیحد خوشی محسوس ہوئی۔

رسمی علیک سلیک کے بعد ائیر پورٹ سے باہر نکلے تو حیرتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہمارے استقبال کو تھا۔ ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو چینی قوم کے نظم و ضبط کا پہلا نظارہ ہوا۔ وہاں مسافروں کو لینے اور چھوڑنے کے لیے نئے ماڈلز کی بڑی، چھوٹی گاڑیاں اور بسیں نظرآئیں۔ تمام کی تمام گاڑیاں ایک ترتیب اور باری سے آتی تھیں اور متعلقہ افرا د کو لے کر یا چھوڑ کر روانہ ہو جاتی تھیں۔ کوئی ہارن کا شور ، بلاوجہ اوور ٹیکنگ یا تیزرفتاری کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔وہاں موجود ٹیکسیاں بھی نئے ماڈلز کی تھیں اور ان کے ڈرائیورز مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کیے بغیر اپنی باری پر آگے بڑھتے ، مسافروں کو بٹھاتے اور چل پڑتے۔ سو فراز صاحب نے بھی کسی ٹیکسی والے سے معاملات طے کیے اور ہم چل پڑے۔

اگرچہ تھکاوٹ کافی تھی مگر نئی جگہ دیکھنے کی خواہش بھی تھی تو بیٹھتے ہی فراز صاحب سے ٹیکسی کے میکانکی انداز میں آ نے اور مسافر کے خاموشی سے بیٹھ جانے کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ تمام ٹیکسیوں میں میٹرز نصب ہیں اور تمام ڈرائیورز مقامی سطح پر متعلقہ ادارے سے رجسڑڈ ہیں اس لیے لوگ بلاکسی ڈر اور خدشے کے ٹیکسی میں بیٹھِتے ہیں۔ کرائے کا تعین مسافر کی منزل کے حساب سے ہوتا ہے۔فی کلومیڑ کرائے کا تعین طے شدہ ہے اور ہر کوئی اس کو جانتا بھی ہے، منزلِ مقصود پر پہنچیں تو ٹیکسی ڈرائیور آپ کو چارجز کی کمپیوٹرائزڈ رسید دے گا۔ یہ سن کر دل سے دعا نکلی کہ کاش وطنِ عزیز میں بھی ایسا ہی سسٹم آ جائے۔ پہلے سوال کے جواب کے بعد خاموشی چھا گئِی اور میں ارد گرد کے نظاروں سے لطف اندو ز ہونے لگا۔ موٹروے کی مانند وسیع و عریض سڑک ، حد نگاہ تک اطراف میں سر سبز پہاڑ، کثیر المنزلہ عمارات ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھے، اپنی اپنی لین کی پاسداری کرتی، اورٹیکنگ کے وقت انڈیکیڑز کا استعمال کرتی اور بغیر ہارن کے شور کے رواں دواں ٹریفک چینی قوم کے نظم و ضبط کا واضح ثبوت تھی۔

مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی ٹیکسی چائنا ریڈیو انٹر نیشنل کے سامنے پہنچ کر رُک گئی۔ یہی ہماری منزلِ تھی۔ ٹیکسی سے اترے ، سامان اتارا اور چائنا ریڈیو انٹر نیشنل سے ہی منسلک غیر ملکی ماہرین کی رہائش کے لیے مختص ایک اعلی درجے کے ہوٹل میں اپنی آمد کا اندراج کرواتے ہوئے ضروری دستاویزی کاروائی مکمل کی۔ ہوٹل کے استقبالیے پر ہی ریڈیو پاکستان کے ہمارے سینئر ساتھی عبدا لمجید بلوچ اور رئیس سلیم سے ملاقات ہوئی تو کسی غیر ملکی سرزمین پر ہونے کا احساس ہی نہ رہا۔ دیگر تمام امور اور معاملات ان کی رہنمائی اور مدد سے باآسانی طے پا گئے۔

ریڈیو کی بطور ایک قومی ادارہ اہمیت اور قدر وقیمت کا احساس چائنا ریڈیو انٹر نیشنل جا کر باآسانی ہو جاتا ہے۔ ترقی کے سفر کی جانب گامزن اور عصرِ حاضر میں ستر ملین سے زائد شہریوں کو غربت سے نکالنے والا چین، دنیا کی سب سے بڑی انسانی آنکھ فاسٹ ٹیلی سکوپ کا حامل چین، فائیو جی انٹرنیٹ سروس کی تجرباتی ابتدا کرنے والااور دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنانے والا، فاسٹ ٹرینز اور اپنا سیٹلائٹ لانچ کرنے والا چین ، ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبے شروع کرنیوالا چین جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل ہونے کے باوجود آج بھی ریڈیو کی افادیت کا قائل ہے اور یہ میڈیم اُن کی فارن پالیسی کی ترویج کا ایک اہم حصہ ہے۔

بیجنگ کے ضلع شی جنگ شن کی مرکزی شاہراہ پر چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی پندرہ منزلہ بلند و بالا عمارت کو کتاب کے صفحے کی مانند ڈیزائن کیا گیا ہے اوریہ بیجنگ میں دور سے ہی آپ کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔ سی آر آئی چین سے باہر اطلاعات و نشریات کی دنیا میں چین کا ایک موثر و معتبر تعارف اور حوالہ ہے۔

ائرپورٹ سے شروع ہونے والا حیرتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ابھی جاری تھا۔ چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی عمارت میں داخل ہوئے تو حیرتوں کے نئے در وا ہو ئے اور جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہوتے عملے اور لوگوں کو دیکھا۔چائنا ریڈیو انٹرنیشنل میں داخلے کے لیے استعمال ہونے والا مرکزی دروازہ مشرقی گیٹ کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں سے داخل ہوں تو شناختی دستاویزات چیک کروانے کے بعد دروازہ خود کار انداز میں کُھلتا ہے۔ گیٹ پر تعینات سیکورٹی عملہ انتہائی فرض شناس اور مستعد ہے۔ کسی بھی ملازم کو ’خواہ وہ چینی ہو یا غیر چینی‘ دفتر کی جانب سے جاری کردہ مخصوص کارڈ کے بغیر داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ یہاں قیام کے دوران ہم نے ایک دو بار مشاہدہ کیا کہ کوئی چینی ساتھی اپنا دفتری کارڈ ساتھ لانا بھول گیا تو اس کو داخل نہیں ہونے دیا گیا اور اس کو باضابطہ اجازت کے بعد ہی داخلے کی اجازت ملی۔ یہ چینی قوم کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہونے کا ایک اورعملی مظاہرہ تھا جہاں پر قانون شخصیت سے مقدم ہے۔

سی آر آئی کے مرکزی گیٹ اور عمارت کے داخلی دروازے کے درمیان کھلی اور وسیع جگہ ہے۔ داخلی دروازے پر ایک مرتبہ پھر شناخت کا عمل جِدید آلات سے کیا جا تا ہے۔ ِیہاں پر دروازے کے ساتھ ہی دائیں بائیں دو سینسرز لگے ہوئے ہیں۔ جب ملازمین یہاں سے گزرتے ہیں تو وہ اپنا سروس کارڈ اِن سینسرز کے سامنے کرتے ہیں تو سینسرز سے منسلک سکرین پر ملازم کی تصویر نمودار ہو جاتی ہے۔ اگر تصویر نمودار نہ ہو تو وہاں موجود سیکورٹی عملہ بذاتِ خود کارڈ چیک کر کے اندر جانے دیتا ہے۔عمارت میں داخل ہوں تو چینی حکومت کی اس ادارے کے لیے ترجیح اور سر پرستی کا اظہار واضح صورت میں ہوتا ہے۔

عمارت کے داخلی دروازے اور پھر اندرونی راہداری کے درمیان کی جگہ بھی کھلی ہے جہاں بائیں ہاتھ دیوار پر چینی اور ا نگلش میں چائنا ریڈیو انٹرنیشنل لکھا ہوا ہے۔ یہی جگہ سی آر آئی کادورہ کرنیوالے تمام غیر ملکی وفود اور ملاقاتیوں کی پسندیدہ جگہ ہے جہاں وہ اپنی تصاویر کھینچتے اور دورے کو یاد گار بناتے ہیں۔ آگے بڑھے تو اندرونی راہداری کے دونوں جانب جدید ترین لفٹس نصب تھیں جو کہ عمارت کے پندرہ فلورز تک ملازمین کو برق رفتاری سے منتقل کرتی ہیں۔ اندر داخل ہوئے اور عمارت کے بارہویں فلور جا پہنچے۔ عمارت کا بارہواں فلور جنوبی ایشیائی زبانوں کے لیے مختص ہے۔جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو، تامل ہندی، بنگلہ، نیپالی اور سنہالی شامل ہیں۔ اس فلور پر جنوبی ایشیائی چہرے وطن سے دوری کا احساس قدرے کم کر دیتے ہیں۔ ہندی، بنگلہ اور نیپالی سروس کے لوگ اردو سمجھ اور بول بھی لیتے ہیں۔ اول الذکر سے ملتے ہوئے بات چیت کی حد تک تو قطعاً اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ ہر فلور پر لفٹس والی راہداری کے اطراف میں مختلف سروسز کے دفاتر موجود ہیں۔ اسی فلور پر اردو سروس کا دفتر ہے۔

دفتر کو دیکھ کر حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ میرے ذہن میں ریڈیو پاکستان کی عمارت میں موجود پروڈیوسرز کے کمروں کا نقشہ تھا جبکہ یہاں پر تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ پاکستان میں موجود کمرشل بینکس کی طرح کیبن بنے ہوئے تھے اور ہر ملازم کے بیٹھنے کے لیے ایک جدید فولڈنگ کرسی اور کمپیوٹر۔ ہر ملازم کا کل دفتری اثاثہ ۔ اس کے علاوہ دو دیوار گیر الماریاں جس میں کیبن بنے ہوئے تھے جہاں چینی ساتھی اپنی اپنی اشیاء رکھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اشیائے خوردونوش رکھنے کے لئے ایک عدد فریج بھی موجود تھا۔

اردو سروس کا دفتر باہر سے گزرتی مرکزی شاہراہ کی جانب ہے۔ کھڑکی سے پار دیکھیں تو نیچے سڑک پر رواں دواں ٹریفک، دور دور تک نظر آتے سرسبز پہاڑ اور بلند عمارتیں ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے پہلے فلور کی یاد دلاتی ہیں جہاں سے فیصل مسجد کے پہلو میں موجود مارگلہ ہلز اور ریڈیو کے پڑوس میں واقع مختلف سرکاری عمارات اور شاہراہ ِ دستور پر رواں ٹریفک دو مختلف ممالک، دارالحکومتوں اور نشریاتی اداروں میں مماثلت کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اس منظر کی حد تک تو مماثلت ٹھیک ہے مگر دونوں اداروں کے کام کے طریقہ کار اور دستیاب سرکاری سہولیات کے تقابل کا دور دور تک موازنہ اور مقابلہ نہیں۔ سی آر آئی کے ہر فلور پر مختلف زبانوں کے دفاتر کے علاوہ ڈائریکٹر ز آفس ، میٹنگ روم ، ایڈمن اور انتظامی معاملات کے دفاتر بھی ہیں ۔ ہر فلور پر موجود انتظامی ڈھانچے سے آگاہی ہوئی تو پھر اردو سیکشن کے ساتھیوں سے تعارف کا مرحلہ شروع ہوا۔

یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پاکستانی ناموں کے حامل تمام چینی ساتھی اردو لکھنا، پڑھنا اور بولنا خوب جانتے ہیں اور ان کاچینی لہجے میں اردو بولنے کا انداز بہت ہی دل موہ لینے والا ہے۔ اردو سروس کے کم و بیش تمام چینی ساتھی پاکستان میں یا تو پڑھ چکے تھے یا پھر اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے یا کسی صحافتی وفد کے ہمراہ پاکستان کادورہ کرچکے ہیں۔ اردو سروس کے سینیئر ساتھی لیو شیاو ہوئی اور محترمہ ای فینگ جن کا پاکستانی نام طاہرہ ہے وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں دو سال تک اردو پڑھتے رہے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ لیو شیاو ہوئی چین کی معروف و قدیم جامعہ پیکنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے فارغ التحصیل ہیں۔( اس یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ چین کی پہلی جامعہ ہے جہاں اردو کا شعبہ1954 میں قائم کیا گیا) وہ بیجنگ کے مقامی ہیں اورشہر کی ترقی کے عینی شاہد بھی۔ یوں سمجھیں وہ چینی معاشرے، کلچر ، سماجی روایات، تاریخ و ادب کے چلتے پھرتے انسائیکلو پیڈیا ہیں۔

لیو شیاو کا ذکر چھڑا ہے تو بتاتا چلوں کہ وہ اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھنے والے باذوق شخص ہیں۔ وہ پاکستان اور اردو زبا ن سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ بڑی خاموشی سے چین میں اردو کی ترویج کے لیے کام کررہے ہیں۔ وہ چین کی مقبول و معروف اپلیکیشن “وی چیٹ” پر ایک گرو پ بنا کر اردو شاعری کا چینی زبان میں ترجمہ کر کے اس پر شیئر کرتے ہیں۔ چین میں کسی شہری کا وی چیٹ پر اکاونٹ نہ ہونا محال ہے۔ وہاں پر تو کسی بھی سماجی تقریب میں ملاقات کے موقع پر وزیٹنگ کارڈز کے تبادلے کی بجائے وی چیٹ کو شیئر کیا جاتا ہے۔ اس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیو شیاو اکثر لاہور اور پاکستان میں اپنے گزرے ہوئے وقت کا ذکر کرتے اور اپنی یادوں کو تازہ کرتے رہتے۔ انہیں لاہور کے کھانوں کا ذائقہ ابھی تک یاد ہے۔اور وہ آج بھی چین میں موجود پاکستانی ہوٹلوں پرباقاعدگی سے جاتے ہیں۔ لکشمی چوک، انار کلی، مال روڈ، یادگارِ پاکستان، ریلوے سٹیشن ، ناصر باغ ، نہر،جامعہ پنجاب اور دیگر مشہور مقامات کا انہیں بخوبی علم ہے اور وہ وقتاً فوقتاً ان کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ اتنا گہرا ہے کہ وہ لاہور میں معاشرتی سطح پر بولے جانے والے کچھ ” غیر پارلیمانی الفاظ” کا بھی بھر پور علم رکھتے ہیں اور ان کا برمحل استعمال بھی جانتے ہیں۔

لیو شیاو کے ساتھ ساتھ اردو سروس کی آپریشنل سربراہ ای فینگ (میڈم طاہرہ ) بھی اردو زبان میں مہارتِ تامہ رکھتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ پاکستان کے سیاسی نشیب و فراز سے بخوبی واقف اور اس حوالے سے مکمل اور جامع معلومات رکھتی ہیں۔ بول چال والی اردو اور قواعد کے تابع اردو میں فرق یہاں آ کر محسوس ہوا۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اردو بطور طریقہ تدریس کب کی ختم ہو چکی ۔مگر ملک سے دور اردو کی بطور زبان کی ا ہمیت کو جان اور دیکھ کربہت خوشی ہوتی ہے۔

بارہویں فلور سے واپسی ہوئی توعمارت میں موجودایک اور حیرت کدہ میرا منتظر تھا۔چینی اور پاکستانی ساتھی عمارت میں موجودکیفیٹیریا کی طرف لے گئے تا کہ کچھ اہتمامِ خور و نوش ہو جائے اور ساتھ ہی اس اہم مقام سے شناسائی بھی ہوجائے۔ کیفے ٹیریا کیا تھا وہ تو پہلی نظر میں ہی کسی ذوقِ جمالیات کے حامل شخص کی ذہنی اختراع دکھائی دیا۔ کیفے ٹیریاز کی پاکستان میں روایتی ترتیب و ڈیزائن سے ہٹ کر ایک منفرد اور پُرکشش انداز تھا۔ جب ہم داخل ہوئے تو وہاں لوگ بیٹھے ہوئے تھے ، باتیں بھی کر رہے تھے ، خوش گپیاں بھی جاری تھیں۔

قہقہے بھی بلند ہو رہے تھے مگر اس تمام منظر نامے میں یہ محسوس ہوا کہ شاید کیفے ٹیریا کے مسحور کن ماحول کا اثر تھا کہ سب انسانی آوازوں کا مجموعی شور اتنا دھیما اورمدہم تھا کہ سماعت پر گراں نہیں گزرتا تھا۔ کیفے ٹیریا میں کشتی نما میز، لکڑی کے گول میز اور ارد گرد کرسیاں، ایک طرف الماری میں ترتیب سے پڑی کتابیں ، ایک کونے میں کسی جھیل اور جھِیل میں رواں دواں کشتی کا رومان پرور منظر کہ بندہ خود کو اس جگہ محسوس کرے اور ِ من چاہے خیالات میں کھو جائے ،سی آر آئی کے مختلف فنکشز اور نشریاتی سفر کی داستان بیان کرتی نفاست اور ترتیب سے لگی تصاویر سے آراستہ دیواریں اور کیفے ٹیریا ز کے بیروں کو چہار سو سے پکارتی آوازوں کے روایتی شور سے یکسر بے نیاز یہ مقام پہلی نظر میں بہت ہی خوبصورت اور بھلا لگا۔ یہاں پر صرف مشروبات، جوسز اور بیکری آئٹمز دستیاب تھے ۔ کیفے ٹیریا سے باہر نکلے تو اوپر کے فلور کی جانب رخ کیا تو مجھے یوں لگا کہ شاید میں کسی عجائب گھر میں کھڑا ہوں۔ وہاں ارد گرد ریڈیو چائنا میں استعمال ہونے والے متروک ریکاڈنگ آلات، ٹائپ رائٹرز، مائیکرو فونز ، دنیا بھر سے سی آر آئی کی مختلف سروسز کے نام لکھے گئے سامعین کے خطوط ایک گلوب نما ڈھانچے میں محفو ظ پڑے ہوئے تھے۔ اس جگہ سب سے اہم و تاریخی چیز چین کے بانی رہنما ماوزے تنگ کی وہ تصویر ہے جس میں وہ چین کی آزادی کا اعلان کر رہے ہیں اور جس مائیکرو فون کے ذریعے انہوں نے اعلان کیا وہ بھی وہاں رکھا ہوا ہے۔

سی آر آئی کی عمارت میں موجود اس عجائب گھر نما جگہ کی موجودگی یہاں کا دورہ کرنے والے تمام غیر ملکی وفود کو بالواسطہ چین کی نشریاتی تاریخ کے سفر سے آگاہ کرتی ہے۔سی آر آئی کی وسیع و عریض عمارت کی دلکشی اپنی جگہ مگر میں اس ادارے کی چین میں اہمیت کو جان کر رشک میں مبتلا ہو گیا۔ کیونکہ چین میں ریڈیو کی بطور ادارہ ترقی و ترویج ریاستی وحکومتی ترجیحات میں نمایاں مقام کی حامل ہے۔ چین بیرونی ممالک میں اپنے نکتہ نظر اور پالیسوں کی تشہیر اور ابلاغ کے لیے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کا بھر پور انداز میں استعمال کرتا ہے اور یہ ان کے بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ کے فروغ کا ایک اہم جزو ہے۔ چائنا ریڈیو انٹر نیشنل میں کیا جانے والا زیادہ تر نشریاتی کام چین سے باہر متعلقہ ممالک اور ریجنزکے لئے کیا جاتا ہے۔چین میں ہونے والی تمام ترا ہم ملکی و بین الاقوامی تقریبات ، پالیسی ساز اجلاسوں اور بیرونی وفود کے دوروں کی میڈیا کوریج کے لیے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کو ترجیحی اہمیت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں چین کی تہذیب و تمدن اور ترقی کو اجاگر کرتے موضوعات چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی ادارتی پالیسی کا اہم و مستقل حصہ ہیں۔

چائنا ریڈیو انٹر نیشنل حقیقی معنوں میں ایک عالمی نشریاتی ادارہ ہے جہاں اردو سمیت دنیا بھر کی کم وبیش چھیاسٹھ زبانوں میں نشریات پیش کی جاتی ہیں۔ ان چھیاسٹھ زبانوں میں سے ہر زبان کے کم ازکم چا ر غیر ملکی ماہرین اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرا نجام دیتے ہیں۔ ان غیر ملکی ماہرین کا ماہانہ مشاہرہ ان کے چینی ساتھیوں کے مقابلے میں تین سے چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ان غیر ملکی ماہرین کو رعایتی نرخوں پر تمام ضروری سہولیات سے آراستہ اعلی درجے کی رہائش کی فراہمی اور طبی اخراجات کی ادائیگی بھی چینی حکومت ہی کرتی ہے۔ معمول کی ذمہ داریوں کے علاوہ مختلف شہروں میں ہونے والی تقریبات ،کانفرنسز، ورکشاپس اور دیگر صحافتی نوعیت کی تقریبات میں ان غیر ملکی ماہرین کی شرکت اور چین کے مختلف شہروں کے دورے جنہیں بزنس ٹرپ کا نام دیا جاتا ہے یہ سب سی آر آئی کی پالیسی کا حصہ ہیں جن کے تما م تر اخراجات چائنا ریڈیو انٹر نیشنل ہی برداشت کرتا ہے۔

چائنا ریڈیو انٹر نیشنل میں کام کرنے والے چینی شہریوں کو باقاعدگی سے بیرونی ممالک میں پیشہ ورانہ تربیت کے حصول اور صحافتی دوروں پر بھجوایا جاتا ہے جس کے اخراجات بھی چینی حکومت ہی ادا کرتی ہے۔ واضح رہے کہ چائنا ریڈیو انٹر نیشنل اپنے تمام تر آپریشنل اور انتظامی اخراجات کے لیے حکومتی امداد و گرانٹ پر ہی انحصار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی سرپرستی ا ور مالی اعانت سے سی آر آئی کی توسیع کا سلسلہ جاری ہے اور یہ چینی حکومت کی دوراندیشی ہے کہ اس نے مستقبل میں اس ادارے کے پھیلاو ، کردار اور یہاں ہونے والے کام کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ عمارت سے متصل ہی ایک نئی کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کر دی ہے جو کہ جلد ہی پرانی عمارت کے ساتھ آپریشنل ہو جائے گی یوں یہ دونوں عمارتیں مستقبل میں ریاستی ریڈیو کے نشریاتی مقاصد کے لیے استعمال ہوں گی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں سی آر آئی کی اردو سروس کے زیرِ انتطام چلنے والے چین کے ایف ایم 98دوستی چینل کے بھی تمام تر اخراجات حکومتِ چین ہی ادا کرتی ہے۔

چائنا ریڈیو انٹرنیشنل اپنے ملازمین کو پیشہ ورانہ فرائض کی احسن طریقے سے ادائیگی کے لیے ہر ممکن سہولیات فراہم کرتا ہے۔ تیز ترین سپیڈ کے ساتھ انٹر نیٹ ،ریکارڈنگ اور ایڈٹنگ کے لئے جدید ترین کمپیوٹر اوریجنل سافٹ ویئرز کے ساتھ دستیاب ہیں۔ پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت دنیا کے کسی بھی ملک میں فون کرنے کی سہولت ادارے کی جانب سے مہیا ہے۔اس کے علاوہ ملازمین کے لیے ایک جم بھی موجود ہے۔ یہ جم صبح آٹھ بجے سے لیکر رات دس بجے تک کُھلا ر ہتا ہے۔ اس میں ملازمین اپنی سہولت کے مطابق آ کر ورزش کر سکتے ہیں۔ جم کے ساتھ ساتھ ٹیبل ٹینس کھیلنے کے لیے الگ سے سہولیات بھی موجود ہیں۔سی آر آئی میں ملازمین کے لیے تیراکی کی سہولت بھی موجود ہے۔ دفتر سے باقاعدہ ٹکٹس ملتے ہیں ان ٹکٹس کو سی آر آئی کی حدود میں ہی واقع ایک سوئمنگ پول پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح وقتاً فوقتاً مختلف میوزیکل کنسرٹس اور موویز کے مفت ٹکٹس بھی ملازمین کو ملتے رہتے ہیں۔کھیلوں کی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کیا جاتاہے۔

کبھی دوستانہ رسہ کشی تو کبھی بیڈ منٹن اور بعض اوقات مخصوص مدت کے لیے روزانہ واک کرنے کی صورت میں ملازمین کو تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ ملازمین کے لیے سہولیات کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ سی آرآئی میں دو عدد اے ٹی ایمز بھی نصب ہیں جہاں سے ہر نوعیت کی فنانشنل ٹرانزکشنز کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ سالانہ تین ہزار یوان ہرسی آر آئی ملازم کو اس کی ماہانہ تنخواہ کے علاوہ فراہم کئے جاتے ہیں جو کہ ان کے سروس کارڈ میں منتقل ہوتے ہیں۔ جس سے وہ سی آر آئی کینٹین سے انتہائی رعاِیتی نرخوں پر ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا کھا سکتے ہیں، جبکہ کیفے ٹیریا پر بھی اس کارڈ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ کینٹین ہمارے ہاں کی روایتی کینٹینز کی مانند نہیں بلکہ اس کا تینوں وقت کا مینیو پنج ستارہ ہوٹلوں کی طرح بوفے کی مانند ہوتا ہے۔

ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے مختلف انواع کی ڈشز اور پکوان دستیاب ہوتے ہیں۔ ہر فرد اپنی مرضی سے کھا پی سکتا ہے۔ کھانے کے علاوہ ملازمین اپنی پسند کے مطابق ضروری گھریلو اشیاء مثلاً انڈے، آئل ، دودھ، بیکری آئٹمز اور دیگر اشیاء بھی وہاں موجود ایک دکان سے اس کارڈ کی مدد سے خرید سکتے ہیں۔ سی آرآئی کی ایک اور عمدہ روایت دوپہر کے وقت قیلولہ کرنا ہوتا ہے۔ وہاں دن کے ساڑھے گیارہ بجے سے لیکر دوپہر دو بجے تک کھانے اور آرام کا وقفہ ہوتا ہے۔ اس دوران کوئی کام نہیں ہوتا۔دفتر کی لائٹس کو بجھا دیا جاتا ہے۔ جولوگ آرام کرنا چاہیں تو وہ دفتر ہی میں فولڈنگ چارپائی بچھا کر سو تے ہیں۔ اس کے علاوہ ملازمین ٹیبل پر سر رکھ کر بھی سو جاتے ہیں۔اس دوران دفتر میں مکمل خاموشی کا راج ہوتا ہے۔ نائٹ شفٹ والے ایک بجَے دفتر آتے ہیں تو وہ بھی دو بجے تک خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں۔

دو بجتے ہی تمام لائٹس آن ہو جاتی ہیں اور دفتری زندگی لوٹ آتی ہے۔ سی آرآئی کے مرکزی استقبالیہ دفتر کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سے چائنا پوسٹ کا دفتر ہے جہاں سے ڈاک چین کے مختلف شہروں کو بھیجی جا سکتی ہے۔ مختلف تقریبات کی کوریج پر جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔

سی آر آئی میں کام کرتے ہوئے دنیا بھر کے مختلف ریجن اور ممالک سے آئے ہوئے صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یورپ ، افریقہ، لاطینی امریکہ، عرب ممالک ، جنوبی ایشیا ، جنوب مشرقی ایشیا ، مشرقِ وسطی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے اور رہنے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ سی آر آئی میں منعقد ہونے والی مختلف ثقافتی نوعیت کی تقریبات میں شرکت کا اپنا ہی ایک حسن اورمزہ ہے۔ مذکورہ تقاریب میں غیر ملکی ماہر مرد و خواتین تو اپنے روایتی لباس پہن کر آتے ہیں مگر متعلقہ سروس کے چینی ساتھی بھی اسی ملک کا لباس پہن کر شریک ہوتے ہیں جس سے تقریب کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

ذرا تصور کریں کہ دبلے پتلے چینی مردو زن اگر پاکستانی شلوار قمیض پہنیں تو کیسالگے گا؟ ایسا ہی منظر دنیا کے دیگر خطوں کی ثقافتی نمائندگی کرنے کے وقت ہوتا ہے۔سی آر آئی میں کام کرتے ہوئے اور چین میں رہتے ہوئے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ چین میں مردوزن میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ وہاں یہ ایک عمومی معاشرتی سوچ ہے کہ جو کام ایک مرد کر سکتا ہے وہی کام ا یک عورت بھی بخوبی سر انجام دے سکتی ہے۔ یوں چینی مردو خواتین شانہ بشانہ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

راقم الحروف تین سال تک بطور فارن ایکسپرٹ چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس سے وابستہ رہا۔ سی آر آئی کی اردو سروس گزشتہ پچاس برس سے زائد عرصے سے اپنی نشریات پیش کررہی ہے۔یوں سفارتی دوستی کے ساتھ ساتھ نشریاتی دوستی کا سفر بھی جاری و ساری ہے۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔