خدارا! کمپنیاں ایسے موبائل فون بنائیں۔۔۔

محمد عثمان جامعی  اتوار 21 اکتوبر 2018
ہم پاکستان میں کسی ایسے قانون کے نفاذ کے حق میں نہیں، جس کے بعد بات موبائل فون سے پولیس موبائل تک جاپہنچے۔ فوٹو: فائل

ہم پاکستان میں کسی ایسے قانون کے نفاذ کے حق میں نہیں، جس کے بعد بات موبائل فون سے پولیس موبائل تک جاپہنچے۔ فوٹو: فائل

پاکستانی شوہروں کو اگر یہ خبر ملی ہوگی تو انھوں نے خوش ہو ہو کر پڑھی اور سُنی ہوگی کہ متحدہ عرب امارات میں ایک خاتون کو اس لیے جیل بھیج دیا گیا کہ انھوں نے اپنے شوہر کا موبائل بلااجازت دیکھا اور اس کا سارا ڈیٹا کاپی کرلیا تھا۔ وہ تین ماہ جیل میں گزاریں گی۔

ان کے شوہر نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ جب وہ نیند میں ہوتا ہے تو اس کی بیوی اجازت کے بغیر اس کا فون کھول کر نہ صرف تصاویر اور پیغامات پڑھتی ہے بل کہ اس نے کئی بار پورا ڈیٹا اپنے فون پر منتقل بھی کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے قانون کے تحت بلااجازت دوسرے فریق کا فون دیکھنے کی شدید ممانعت ہے۔

بیویوں کو کچھ ایسے ’’پیدائشی حقوق‘‘ حاصل ہوتے ہیں جو آئین سے نکاح نامے تک کہیں تحریر نہیں ہوتے، جیسے شوہر پر شک کرنے کا حق، اس کی جیب سے موبائل تک مکمل تلاشی کا حق، بات بے بات ناراض ہونے کا حق، اور ان سب حقوق کے استعمال پر حق بہ جانب ہونے کا حق۔ ہمارے ملک میں تو بیویاں شوہر کے سونے کا انتظار بھی نہیں کرتیں بل کہ دھڑلے سے ’’ساڈا حق ایتھے رکھ‘‘ کہہ کر موبائل طلب کرلیتی ہیں۔

ایسے میں شوہروں کو خود سے زیادہ اپنے موبائل کی ’’صفائی‘‘ کا خیال رکھنا پڑتا ہے، ’’کنٹیکٹس‘‘ کی فہرست میں کیسی کیسی گُل رخوں اور ماہ وشوں کے نام دلاور خان، بابو پان والا، سلطان بھائی۔۔۔سے تبدیل کرنا پڑتے ہیں، محبت بھرے ایس ایم ایس دل تھام کر انگلی کی ایک جُنبش سے مٹانا پڑتے ہیں، کیسی کیسی دِل رُبا تصویریں ’’ڈیلیٹ‘‘ کے آپشن کی نذر کرنا پڑتی ہیں۔ پھر بھی کچھ مٹنے سے رہ جائے تو بیوی بیوہ ہونے پر مُصر ہوجاتی ہے۔

ہم پاکستان میں کسی ایسے قانون کے نفاذ کے حق میں نہیں، جس کے بعد بات موبائل فون سے پولیس موبائل تک جاپہنچے اور بیگمات کو میکے سے زیادہ جیل میں رہنا پڑے، البتہ موبائل کمپنیوں سے ہم گزارش کریں گے کہ خدارا ایسے موبائل سیٹ بنائیں جن میں ان کے مالک کے علاوہ کسی اور کے دیکھنے پر ’’مہہ جبیں‘‘،’’نازنین‘‘ اور ’’پروین‘‘ کا نام کنور اقبال راجپوت، اللہ دتا جَٹ یا گبر سنگھ ہوجائے، تصویر میں گورے مکھڑے پر تلوار نما پونچھیں اور داڑھی اُگ آئے اور ایس ایم ایس میں ’’جانو کیسے ہو؟‘‘ کے الفاظ ’’بھائی جان کیسے ہیں؟‘‘ کے فقرے سے بدل جائیں، تاکہ موبائل رکھنے والے اور اس پر نظر رکھنے والیاں دونوں قرار پائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔