امداد سے شروع ہونے والا سلسلہ قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تک کیسے پہنچا؟

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 21 اکتوبر 2018
پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی امریکی قیادت میں سیاسی نو آبادیات کو اقتصادی نوآبادیات میں بدنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ فوٹو: فائل

پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی امریکی قیادت میں سیاسی نو آبادیات کو اقتصادی نوآبادیات میں بدنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ فوٹو: فائل

1918ء میں جب پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو دنیا میں سیاسی اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے تین بڑی اور نمایاں تبدیلیاں ہو چکی تھیں، ایک تو برطانیہ کی جگہ امریکہ سپر پاور بن چکا تھا ، دوسرے نمبر پر روس میں زار بادشاہت ختم ہو چکی تھی اوردنیا نے پہلی مرتبہ کیمونزم ’’اشتراکی نظام ‘‘ دیکھا تھا ، تیسری تبدیلی یہ تھی کہ ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ ’’خلافت عثمانیہ‘‘ ختم ہو چکی تھی اور پھر دوسری جنگ عظیم تک ترکی، سعودی عرب اور افغانستان صرف تین اسلامی مملکتیں آزاد اور خود مختار تصور کی جاتی تھیں۔

حقیقت پسند برطانیہ نے یہ جان لیا تھا کہ وہ اب زیادہ دیر دنیا کے 24 فیصد رقبے اور25 فیصد آبادی پر اس طرح اپنا کنٹرول بر قرار نہیں رکھ سکتا۔ اس وقت دنیا کی آبادی ایک ارب اور تقریباً تیس کروڑ تھی، یوں دنیا بھر میں برطانوی نوآبادیات کی کل آبادی 38 سے 40 کروڑ تھی اور برطانیہ کی اپنی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی اور جب دوسری جنگ عظیم 1939 میں شروع ہو کر 1945 میں ختم ہو ئی تو دنیا کی آبادی ڈھائی ارب کے قریب تھی اور برطانیہ کی کل آبادی پانچ کروڑ تیس لاکھ تھی، اس وقت برطانوی ہندوستان کی کل آبادی 40 کروڑ اور بشمول ہندوستان پوری برطانوی نوآبادیات کی آبادی ستر سے اسی کروڑ تھی۔

ان نو آبادیات میں آزادی کی تحریکیں زوروں پر تھیں، ڈائنامائٹ، دستی بم ، ہلکی مشین گنیں اور اس طرح کے ہتھیار اِن کو میسر تھے۔ یوں پہلی جنگ عظیم ہی میں یہ طے کرلیا گیا تھا کہ اب سیاسی نو آبادیاتی نظام کو اقتصادی نوآبادیاتی نظام سے بدل دیا جائے اور اس وقت سپر پاور چونکہ امر یکہ بن چکا تھا اس لیے نو آبادیاتی اور سرمایہ دارانہ نظام کی حامی قوتوں نے امریکہ کی سربراہی میں اقتصادی نوآبادیاتی نظام کا عالمی نقشہ بنایا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے لیگ آف نیشنز ’’اقوام عالم‘‘ کا ادارہ بنایا گیا تھا جو اس وقت امریکہ اور دوسری قوتوں کی وجہ سے کا میاب نہ ہو سکا کہ اس وقت نئے اقتصادی نو آبایاتی نظام کی منصوبہ بندی پوری طرح مکمل نہیں ہوئی تھی۔

1930-32 دنیا میں عظیم عالمی کسا د بازای رونما ہوئی جس سے بیک وقت پوری دنیا شدت کے ساتھ متاثر ہوئی یہ عالمی اقتصادی نظام پر جنگ عظیم اول کی تین بڑی اور بنیادی تبدیلیوں کے وہ اثرات تھے جن کے لیے سر مایہ دارانہ معیشت کے ماہرین پہلے سے پیش بندی اور منصوبہ بندی نہیں کر سکے تھے اور یہی وہ خلا یا موقع تھا کہ جس کو غنیمت جان کر ہٹلر نے جرمنی کو اور اسٹالن نے سابق سوویت یونین کے ساتھ اشتراکی نظام کو مضبو ط کر لیا تھا۔ جنگ عظیم اول سے دوسری جنگ عظیم سے پہلے تک 1913-21 وڈرو ولسن، امر یکہ کے صدر رہے ان کے بعد 1921-23 وارن ہارڈینگ 1923-29 کالون کولیج 1929-33 ہربٹ ہاور اس کے بعد 1933 تا 1945ء فرینک ڈی روزویلٹ امریکہ کے صدور رہے، اسی دوران 1916-23ء ڈیووڈ ڈیووڈلوئڈ جارج 1922-23بونالو 1923-24 اسٹینلے بالڈون اور کچھ دن رمزے میکڈونل برطانیہ کے وزیر اعظم رہے۔

اس کے بعد 1935-37ء پھر اسٹینلے، چیمبرلین 1937-40 وزیر اعظم رہے اور پھر چرچل 1940-45 وزیراعظم رہے یعنی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر روز ویلٹ دوسری جنگ عظیم کو نہیں روک سکے، لیکن یہ ہوا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا سے سیاسی نوآبادیاتی نظام رخصت ہونے لگا، مگر دنیا تباہ ہو چکی تھی، ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ہو ئے۔ امریکہ پہلی جنگ عظیم کی طرح دوسری جنگ عظیم میں بھی آخر میں داخل ہوا، اس کی سر زمین ’’ پرل ہاربر‘‘ پر جاپان کی فضائیہ نے ایک حملہ کیا تھا،اس جنگ سے دوسال قبل ہی امریکہ میں اتحادیوں نے کسی عالمی کساد بازی اور مالی اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ ’’آئی ایم ایف‘‘ کا ادارہ تشکیل د یا، اُس وقت پور ی دنیا کے سر مایہ دار سرمائے کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے پہلی جنگ عظیم کی طرح سر مایہ امریکہ لے جا چکے تھے۔

یوں آئی ایم ایف کو اب دنیا بھر کے ملکوں کی معیشتوں کو عالمی اقتصادی نظام سے ہم آہنگ اور متوازن رکھنے کے لیے نگرانی کے فرائض سونپے گئے اور اس میں اُس وقت یہ مثبت اصول رکھا گیا کہ اگر کسی رکن ملک کی معیشت بحران کا شکار ہوتی ہے اور اُس پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے سالانہ شرح پیداوار، فی کس سالانہ آمدنی میں کمی آتی ہے، افراط زر کی شرح میں عالمی معیار سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے، تجارت میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور ملک دیوالیہ ہونا شروع ہوتا ہے تو آئی ایم ایف کا ادارہ زرِضمانت کے طور پر رعایتی شرح سود پر قرضے دے گا، مگر ساتھ ہی ایسے ملک میں مالیاتی، معاشی اور اقتصادی بے ضابطگیوں، بے اصولیوں اور معاشی پالیسی سازی اور منصوبہ بندی پر اس طرح نظر رکھے گا یا کنٹرول رکھے گا کہ جو قرضے دئیے گئے ہیں اُن کا استعمال بھی اُن کے مطابق درست ہو اور اُن قرضوں کی واپسی بھی یقینی ہو۔

اگست 1945ء میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے شہروں ناگا ساکی اور ہیروشما پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا، اس جنگ کے بعد دنیا کو کسی تیسری جنگ عظیم سے محفوظ رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل دیا گیا جس کے بنیادی خطوط ماہرین نے جنگ کے خاتمے سے دو برس پہلے ہی طے کر لیئے تھے۔

اس کی تشکیل میں ان ماہرین کے سامنے اس سے قبل اقوام عالم ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کی ناکامی کی وجوہات کے ساتھ ساتھ سیاسی نوآبادیاتی نظام کی جگہ نئے اقتصادی نو آبادیاتی نظام میں پرانے سیاسی نو آبادیاتی عالمی نقشے کے مطابق بڑی قوتوں کے اِن ملکوں پر آزادی کے بعد معاشی اقتصادی تسلط کے لیے پانچ قوتوں کو ضما نت دی گئی۔ اقوام متحدہ کا ادارہ جو اپنے چارٹر کے اعتبار سے دنیا بھر میں جمہوریت کے فروغ کے لیے حوصلہ افزائی کا سب سے اہم اور بڑا ادارہ ہے اور اس کی جنرل اسمبلی میں اس کے تمام 193 آزاد ملکوں کو برابری کے لحاظ سے ووٹ کا حق ہے، وہاں یہی اقوام متحدہ کا ادارہ سب سے غیر جمہوری ہے، جنرل اسمبلی کی اکثریت کے کسی بھی فیصلے کو اس کی سکیورٹی کونسل کے پا نچ ممبر بڑے طاقتور ملکوں میں سے کوئی ایک اپنا ویٹو کا حق استعمال کر کے مسترد کردیتا ہے۔

عالمی ماہرین اسی سکیورٹی کو نسل کو یہ کریڈٹ دیتے ہیں کہ اسی کی وجہ سے دنیا گذشتہ 73 برسوںسے اب تک کسی ممکنہ تیسری جنگ عظیم سے محفوظ ہے، منطقی لحاظ سے شائد یہ درست بھی ہے کیونکہ اس سکیو رٹی کونسل میں پوری دنیا کے ممالک کے متفقہ فیصلے کو ایک طاقتور ملک کا ویٹو کا اختیار مسترد کر دیتا ہے اور اس ویٹو پاور کو سب تسلیم کر لیتے ہیں تاکہ عالمی سطح کی قوتوں میں تنازعہ جنگ کی حد تک نہ پہنچے۔ اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد عالمی بنک اور خصوصاً امریکہ کی جانب سے قدرے حقیقت پسندانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا مگر اس میں بھی اس کا اپنا مفاد پوشید ہ تھا، جنگ کے بعد جاپان کے فاتح جنرل میکارتھر کی تجاویز پر جاپان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کے بجائے مغربی یورپی ممالک کی طرح اس کی بھی تیز رفتار تعمیر نو کے مراحل شروع ہوئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد پانچ سات برسوں ہی میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک اور امر یکی امداد سے مغربی یورپی ممالک اور جاپان مستحکم ہو گئے۔ یہ اس لیے بھی کیا گیا تھا کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اس وقت سابق سوویت یونین کی سرپرستی میں جس تیزرفتاری سے اشتراکی نظام دنیا میں پھیل رہا تھا اس کے لیے جنگ سے تباہ شدہ مغربی یورپی ممالک اور جاپان کی صورتحال بہت موزوں تھی۔

اب جہاں تک تعلق اُن ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کا تھا جو نوآبادیاتی قوتوں سے سیاسی طور پر آزادی حاصل کر رہے تھے اِن کے لیے پرانے شکاریوں نے نیا جال بُن لیا تھا، یہ اقتصادی نو آبادیاتی نظام کا خوبصورت جال تھا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے قابض نو آبادیاتی قوتوں کو ان کے شیڈول کے مطابق غلام ملکوں کو آزادکر دینے کی مدت کا اختیار دیا ہوا تھا اور بعض ملکوں میں تو وہاں کی نوآبادیاتی دور کی مقامی حکومتوں سے معاہدے بھی کئے ہو ئے تھے۔ یوں 1946-47 سے دنیا میں نو آبادیاتی غلام ملکوں کو مرحلہ وار سیاسی آزادیاں دینے کا آغاز ہوا اور ستر کی دہائی تک عرب امارت سمیت بہت سے ممالک آزاد ہو ئے، جب کہ ہانگ کانگ کو 1990 کی دہائی میں معاہدے کے مطابق چین کے حوالے کیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ غلام ملکوں کے عوام جدید تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں مغربی ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے تھے، یوں برطانیہ ، فرانس ، ہالینڈ، پرتگال ، اسپین، اٹلی اور پھر بہت سے مقامات پر دوسری جنگ عظیم میں بڑے فاتح کے اعتبار سے امریکہ جب یہاں سے رخصت ہوئے تھے تو انھوں نے یہاں سیاسی نوآبادیاتی نظام کی جگہ چار طریقوں سے ان ملکوں پر اپنا اقتصادی کنٹرول رکھا۔

1 ۔کسی ملک سے رخصت ہونے سے قبل سرحد کی تقسیم اس طرح کی کہ ہمسائے ممالک سے تنازعات پیدا کر دیئے گئے۔
2 ۔ جاتے وقت ہی ان نو آزاد ملکوں کو قرضوں میں جکڑ لیا گیا اور بعد میں ان پر مزید قرضے ڈالتے گئے۔
3 ۔ جن ملکوں میں معدنی ذخائر تھے یا ان کی بندر گاہیں اہم تھیں وہا ں سرمایہ کار ی کے نام پر کمپنیوں نے اپنی اپنی سابق نوآبادیات کے لحاظ سے اجارہ داری قائم رکھی، مثلاً مصر کی نہر سوئز جس کو بعد میں جرات سے صدر کرنل جمال ناصر نے فرانس اور برطانیہ سے جنگ کرکے قومی ملکیت میں لے لیا مگر جہاں تک تعلق تیل کی تلاش، تیل نکالنے اور اس کی تجارت کے معاہدے تھے ان میں سے بیشتر پر اب تک انہی مغربی ملکوںکا تسلط قائم ہے۔
4 ۔ مقامی لیڈر شپ کو کرپٹ کیا اور کرپشن سے حاصل کیے جانے والے لیڈروں کے کالے دھن کو اپنے ملکوں میں تحفظ دیا اور یہ سب سے خطرناک صورت تھی جس نے پوری دنیا کو کسی نہ کسی انداز سے نقصان پہنچایا۔

جہاں تک تعلق پاکستان کا ہے تو یہاں ان چارطریقوں میں سے زیادہ تر تین پر عمل در آمد ہوا۔ سرحدی تناعات: جب تین جون 1947 ء کو لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے اعلان آزادیِ ہند کیا تو اس وقت بنگال اور پنجاب میں مجموعی طور پر اور قدرے اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر بنگال کے مغربی حصے میں ہندو اکثریت میں تھے اور پنجاب میں مشرقی حصے میں سکھ اور ہندو،آزادیِ ہند کا قانون جب برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بنایا گیا تو ان دونوں بڑی آبادی والے صوبوں کی تقسیم کے لیے ریڈ کلف ایوارڈ تشکیل دیا گیا اور ریڈ کلف نے مشرقی پنجاب کی مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تحصیلیں گورداسپو، فیروزپور اور زیرہ کو بھارت کے حوالے کرکے پانی کی تقسیم اور کشمیر کے لیے بھارت کو راستہ فراہم کردیا، یوں پاکستان اور بھارت کو آزادی کے وقت ہی دو بنیادی مسائل کے تحت ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا گیا اور ان دونوں ملکوں کے درمیان پہلی جنگ ہی آزادی کے ایک سال بعد ہو گئی۔

یہی صورتحال مشرق وسطی میں اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان ہوئی ۔ باقی دو طریقوں کو بھی اسی وقت استعمال کیا گیا یعنی ملکی معیشت پر قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ اور لیڈر شپ کی کرپشن، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی لیڈر شپ اکتوبر1951 سے پہلے کرپٹ نہیں تھی مگر پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب ملک میں اقتدار پر بیورکریسی نے قبضہ کر لیا تو کرپشن عام ہونے لگی، جہاں تک تعلق قرضوں کا تھا تو اس کے لیے بھارت نے منفی کردار ادا کیا، تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ملک کی زمین کی تقسیم کے ساتھ اس کے اثاثوں، فوجی سازوسامان اور سنٹرل بنک آف انڈیا کے محفوظ سرمائے جس کی مالیت اس وقت چار ارب روپے تھی اس میں سے ایک ارب روپے پاکستان کا حصہ تھا، مگر بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس سرمایہ کی منتقلی میں نہ صرف بہت دیر کی بلکہ گاندھی جی کی تاکید کو نظرانداز کرتے ہو ئے بے ایمانی کی اور صرف 20 کروڑ روپے دئیے اور ساتھ ہی ہندوستان کے واجب الادا قرضوں کا ایک حصہ بھی پا کستان پر ڈال دیاکہتے ہیں کہ اس وقت قائد اعظم کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ امریکہ سے قرض لیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا، لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستان کا صرف پہلا قومی بجٹ مالی سال 1948-49 تھوڑے سے خسارے کا بجٹ تھا، اس کے بعد مسلسل کئی قومی بجٹ خسارے کی بجائے بچت کے بجٹ تھے۔

یوں اگر شروع میں پاکستان کی اس مضبوط مالی پو زیشن کو برقرار رکھا جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ملک اسی وقت سے مالیاتی اور اقتصادی طور پر بھی آزاد اور خود مختار ہوتا۔ مگر جب لیاقت علی خان نے اپنی شہادت سے ایک سال قبل امریکہ کا دورہ کیا تواس وقت سے امریکی امداد کا سلسلہ شروع تھا بہت سے شعبوں میں امداد پہلے دس بارہ برسوںمیں مفت تھی جس میں امدادی طور پر دی جانے والی گندم بھی شامل تھی، مگر پھر آسان شرح سود اور واپسی پر قرضے شروع ہو گئے۔

صدر جنرل ایوب خان کے دور حکومت تک نہ صرف 1952ء میں سوئی بلوچستان میںدریافت ہونے والی قدرتی گیس کے معاہد ے ہو چکے تھے بلکہ 1961-62 میں سندھ طاس معاہدے کے تحت چھ دریائوں میں سے تین مشرقی دریائوں کے پانیوں پر بھارت کے حق کو تسلیم کر تے ہوئے ورلڈ بنک کی مالی معاونت سے منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کے معاہدے بھی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ہوئے تھے، لیکن اس وقت تک بھی کرپشن کی سطح اور حد خطر ناک نہیں ہوئی تھی اور اُوپر کی سطح پر کرپشن کو قواعدوضوابط کے بہتر نظام نے کنٹرول میں رکھا تھا۔ اس کی ایک وجہ اخلاقی ، تہذیبی اقدارکی سماج میں پاسداری بھی تھی۔

اس دوران 5 مئی 1960ء کو پشاور کے قریب بڈ بیر میں امریکی ہوائی اڈے سے پرواز کرنے والے U2 جاسوی طیارے کو روس نے مار گرایا اور سابق سوویت یونین کے وزیر اعظم خروشیف نے شدید برہمی کا اظہار بھی کیا۔ پاکستان اُس وقت سیٹو اور سینٹو معاہدوں کا رُکن بھی تھا اس سے پاکستان پر شدید تنقید تو ہوئی مگر فوری طور پر پاکستان کو اقتصادی اور مالیاتی طور پر کو ئی نقصان نہیں پہنچا۔ پاکستان پر آزادی کے بعد قرضوں کا کوئی قابل ذکر بوجھ نہیں تھا اور آج کے پاکستان کی کل آبادی 1951ء کی مردم شماری کے مطابق 3 کروڑ 40 لاکھ تھی، ایک امریکی ڈالر کی قیمت 1954 تک تین روپے تھی،1961ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی کل آبادی 9 کروڑ 30 لاکھ ہو گئی جس میں مغربی پاکستان کی آبادی4 کروڑ 28 لاکھ تھی، اس دوران پاکستان کے تعلقات امریکہ اور برطانیہ سے بہت اچھے تھے، 1945-53 امریکہ میں ہیر ی ایس ٹرومین،1953-61 میں آئزن ہاور صدر رہے جب کہ برطانیہ میں1945-51ء ایٹلی اور 1951-55میں دوبارہ چرچل،1955-57 سر انتھو نی ایڈن، 1957-63میں ہارولڈ میک میلن وزیر اعظم رہے۔اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر 1955 تک 121 ملین ڈالر کے قرضے لیئے گئے۔

1960 تک یہ رقم 365 ملین ڈ الر تک پہنچ گئی۔ اس دوران پاکستان نے سرد جنگ میں سابق سوویت یونین کے خلاف اور امریکہ و برطانیہ کے حق میں اہم کردار ادا کیا۔اس دور میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بطور جمہوری ملک اُس وقت عالمی سطح پر شہرت کے ساتھ اہمیت بھی اختیا ر کر لی۔ جہاں تک پاکستان کی آزادانہ خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو اُس وقت بھی پاکستان نے کو شش کی کہ سوویت یونین اور چین سے اس کے بھی تعلقات بہتر ہوں مگر ہندوستان نے پہلے ہی سے سیکولر نظریہ کے تحت بھارت کا آئین تشکیل دے کر چین اور روس سے بہتر تعلقات قائم کر لیے تھے اور پاکستان چونکہ د و قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اس لیے نظریاتی طور پر ان دونوں ملکوں سے تعلقات بھارت کے پروپیگنڈے کی وجہ سے بھارت کے مقابلے میں زیادہ بہتر نہیں تھے اور پاکستان کے لیے اور کو ئی راستہ نہیں تھا کہ وہ امریکہ سے اس لیے تعلقات قائم کر ے کہ اسے بھارت سے خطرات لاحق تھے۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ لیا قت علی خان کے بعد ہم امریکی تعلقات کے لحاظ سے سابق سوویت یونین اور چین سے اپنے تعلقات کو متوازن نہ کر سکے لیکن ساٹھ کی دہا ئی کے آغاز پر جب پہلے سوویت یونین اور چین اور پھر 1962 میں چین اور بھارت تعلقات خراب ہوئے تو پاکستان کو علاقے میں بھارت کے مقابلے میں اپنے ہمسائے میں چین جیسے بڑے اور اہم ملک سے تعلقات کو بہتر اور مضبوط کرنے کا مو قع ملا اور خصوصاً ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب خان کے دور میں پاک چین تعلقات کی مضبو طی میںاہم کردار ادا کیا۔ اگر آج سی پیک یعنی پاک چین راہد اری اہم ہے تو اُس وقت شاہراہِ قراقرم اہم تھی کہ پاک فوج نے یہاں ہمالیہ کے درے میں دنیا کے بلند مقام پر نہایت دشوار گذار علاقے میں یہ شاہراہ تعمیر کی تھی۔ یہ پاکستان میں بڑے اور اہم منصوبوں کی تعمیر کا تاریخی دور تھا، جب ایک جانب منگلا اور تربیلا ڈیمز تعمیر ہو رہے تھے تو دوسری طرف اس عظیم شاہراہ کی تعمیر تھی۔

اس دوران 1965ء کی پاک بھارت جنگ ایک اہم اور بڑا واقعہ تھا۔ اس جنگ میں اگرچہ پاکستان کو سبقت حاصل رہی مگر پاک امریکہ تعلقا ت کو سرکاری سطح پر کم اور عوامی سطح پر بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان اور بھارت پر ہتھیارو ں کی سپلائی پر پابندی عائد کردی، بھارت تو سوویت یونین سے بھی اسلحہ لیتا تھا جب کہ پاکستان کا سارا دارومدار صرف امریکہ پر تھا اس لئے بھارت کے مقابلے میں امریکی اسلحہ کی بندش کا کہیں زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا اور یہی وجہ تھی کہ صدر ایوب خان کو معاہدہ تاشقند کرنا پڑا۔ 1961-63 میں امریکہ میں جان ایف کینیڈی، 1963-69جانسن اور 1969-74میں رچرڈ نیکسن صدر رہے ۔

جب کہ برطانیہ میں 1963-64 میں سر ایلک ڈیگلس ہیوم، 1964-70میں ہارولڈویلسن وزیر اعظم رہے۔ 1965ء سے پاکستان بحران کا شکار ہونے لگا۔ امریکی امداد گرانٹ یعنی نا قابلِ واپسی جو، گندم اور دیگر غذائی اجناس کی صورت میں ملتی تھی اس میں بہت زیادہ کمی آئی، مہنگائی میں اضافہ ہونے لگا۔ بھٹو کے استعفیٰ کے بعد سیاسی بحران بڑھنے لگا۔ 1969 میں جب صدر ایوب خان رخصت ہوئے اور جنرل یحٰی خان صدر ہوئے تو پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 2.7 ارب ڈالر ہو گیا۔ 1970ء میں ملک میں پہلے عام انتخابات کرائے گئے۔ دسمبر1971 میں ملک دولخت ہو گیا۔ اس دوران ملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور مشرقی پا کستا ن کے بنگلہ دیش بن جا نے پر اُس کے حصے کا قرض بھی پاکستان پر آن پڑا اور بیرونی قرضے کا حجم 3 ارب ڈالر ہو گیا۔ اس دوران صدر نکسن اور صدر یحیٰ خان اور پاکستانی چینی وزارت خارجہ کی باہمی رضا مندی سے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا خفیہ دور کیا جو سابق سوویت یونین اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے فوراً بعد میں ہوا تھا۔ مگر یہ دورہ خفیہ نہ رہ سکا اس لیے بھارت اور روس میں جنگ 1971 سے پہلے دفاعی معاہد ہ ہو گیا جس کا پاکستان کو دوران جنگ بہت نقصان ہوا۔

1972 میں ملک میں مردم شماری ہو ئی جس کے مطابق کل آبادی 6 کروڑ 53 لاکھ ہو گئی جب کہ 1970 میں ڈالر کی قیمت 5 روپے اور 1972میں 10 روپے ہو گئی مگر یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ پاکستان کی تجارت پہلے پچاس کی دہائی میں کوریا کی جنگ میں سرپلس ہوئی اور پھر 1972ء میں روپے کی قیمت میں زیادہ کمی کی وجہ سے ہو ئی۔ 1972 تا 1977 پاکستان میں ترقی کا حقیقی دور رہا اور صدر ایوب خان کے بعد ملک میں اسٹیل ملز سمیت بڑے ترقیاتی اور پیداواری یونٹ لگائے گئے لیکن ان کے ثمرات ابھی شروع ہی ہوئے تھے کہ پہلے ملک میں سیاسی بحران نمودار ہوا اور پھر افغانستان میں سابق سوویت یونین کی فوجی جارحیت سے صورتحال علاقائی اور عالمی سطحوں پر بدلنے لگی اور 1946-47 سے شروع ہونے والی سرد جنگ شدت اختیار کرتے ہوئے اپنے حتمی انجام کی جانب تیزی سے بڑھنے لگی۔1977 میں جب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 6.3 ارب ڈالر ہوگیا تھا، 1981ء میں آبادی 8 کروڑ37 لاکھ ہوگئی۔ اس کے بعد اگست 1988تک صدر جنرل ضیا الحق کی حکومت رہی جس میں 1985ء سے 1988ء تک وزیراعظم محمد خان جونیجو رہے۔

اس دور میں 1974-77 میں جیرالڈ فورڈ، 1977-81 میں جمی کارٹراور 1981-89 میں رونالڈ ریگن امریکہ کے صدر رہے جب کہ برطانیہ میں 1970-74میں ایڈ ورڈ ہیتھ، 1674-76 میں ہارورڈ ویلسر، 1976-79 میں جیمس کالاگ ہر اور 1979-90 میں مارگریٹ تھیچر وزراء اعظم رہے۔ ستر کی دہائی میں 1973 کی عرب اسرئیل جنگ کے بعد تیل کے عالمی بحران کے ساتھ یورپ اور امریکہ اپنی عالمی سیاسی اقتصادی منصوبہ بندیوں اور حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرتے رہے، بھٹو دور حکومت میں 35 لاکھ پاکستانیوں کے بیرون ملک جانے اور وہاں سے کما کر زرمبادلہ بھیجنے کی وجہ سے پاکستا ن میں نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے بلکہ مستحکم بھی ہوئے جبکہ 1977-88 میں ملک پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ کر 12.913 ارب ڈالر ہو گیا۔ 1988 میں ڈالر کی قیمت 20 روپے ہو گئی۔

1988 سے1999ء تک دو، دو مرتبہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں رہیں۔ 1998ء میں مردم شماری کرائی گئی اور آبادی 13کروڑ 23 لاکھ ہوگئی۔اس دوران 1989-93 میں جارج ایچ ڈبلیو بش، 1993 تا 2001 میں ویلم کلنٹن امریکہ کے صدور رہے اور برطانیہ میں 1990-97ء میں جان جیمس، 1997 تا2007 میں ٹونی بلیئر وزیر اعظم رہے۔ پاکستان برطانیہ کی نو آبادی رہا تھاجب کہ افغا نستان، روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان حائلی ریاست ’’بفر اسٹیٹ ‘‘ تھا۔ اس کے بفر اسٹیٹ بننے کے دوران تین اینگلو افغان جنگیں 1839-42، اس کے بعد 1878 اور آخری برطانوی افغان جنگ 1919 میں ہوئی۔

1878ء کے بعد انگریزوں نے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلو چستان میں ریلو ے لائنیں بچھائیں جو اس زمانے میں بھی خسارے میں تھیں اور ان کا خسارہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی ریلوے کمپنیاں اپنے نفع کے کچھ حصے سے پور ا کر تی تھیں۔ یوں 1945 میں جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ میں اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں اس محاذ پر امریکہ اور برطانیہ کے مفادات کو زک پہنچ رہی تھی، اس لیے یہاں افغان مجاہدین کی بھر پور مدد کی گئی اور گرانٹ کی صورت میں پاکستا ن کے نقصان کے ازالے کی بھی کوشش کی گئی مگر یہ یہاں زیادہ تر رقوم فوجی اسلحہ اور ہتھیاروں پر خرچ ہوئیں جس میں اسٹنگر میزائل جیسے مہنگے ہتھیار بھی شامل تھے، اور جہاں تک پاکستان کے نقصان کے ازالے کی بات ہے تو یہ اُس وقت بھی اصل نقصا ن کے مقابلے میں رقم بہت کم تھی۔ امریکی حکومت نے یہاں اُس وقت بھی بہت سی رقوم براہ راست خرچ کیں۔

اس تمام تر صورتحال کا سماجی، سیاسی ، اقتصادی نقصان بھی پاکستان کو ہوا جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ 1988 میں ڈالر 20 روپے کا تھا جو1997 میں 40 روپے کا ہو گیا اور2001 میں ڈالر کی قیمت 60 روپے ہو گئی۔ اسی طرح بیرونی قرضوں کے مجموعی حجم میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، 1988 میں بیرونی قرضے12.913ارب ڈالر تھے جو 1990 میں بڑھ کر22.28 ارب ڈالر،1991میں 24.8 ار ب ڈالر، 1993میں 27.6 ارب ڈالر، 1994 میں31.1 ارب ڈالر، 1995 میں32.7 ارب ڈالر، 1996 میں 34.7 ارب ڈالر، 1997 میں 35.8 ارب ڈالر، 1998 میں 35.8 ارب ڈالر، 1999میں36.5 ارب ڈالر ہو گئے۔ اِس دوران مئی 1998 میں پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کئے اور اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کردیا اور دو سال تک اقتصادی اصلاحا ت کی ا جازت کے بعد ملک میں عام انتخابات کروائے گئے۔

پرویزمشرف کے آنے کے بعد ایک جانب ابتدائی دنوں میں ان کے وزیر خزانہ شوکت عزیر جو بعد میں وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے 2000 تا 2002 انہوں نے اخراجات پر کنٹرول کیا۔ اس دوران 9 ستمبر2001 کے واقعہ نے پہلے ہماری معیشت کو دھچکا لگایا مگر فوراً بعد میں امریکہ کے مفادات کی وجہ سے امریکی امداد اور دہشت گردی کے خلافت معاونت اور پاکستان کی سر زمین کے استعمال کے نقصانات کے ازالے کے لیے کلوژن سپورٹ فنڈ کی مد میں بھی فنڈز آنے لگے جس کو حالیہ دنوں میں امریکہ نے پاکستان پر دبائو ڈالتے ہو ئے روک دیا اور اب پھر سے نرمی کا عندیہ دیا ہے۔ یوں پرویز مشرف کے زمانے میں خصوصاً عام انتخابات 2002 کے بعد سے صدر پرویز مشرف کی رخصتی 2008 تک ملک پر بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 40.5 ارب ڈالر تھا، 2008 میں ڈالر کی قیمت 80 روپے ہو گئی، 2001 سے2009 تک بش سینئر کے بیٹے جارج ڈبلیو بش امریکہ کے صدر ہوئے، جنہوں نے پہلے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجیں اتاریں اور بعد میں مشرق وسطی میں بھی کاروائی شروع کر دی۔

ان کے بعد 2009-17 میں باراک اوبامہ امریکہ کے صدر رہے اور پھر 2017 سے تا حال ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں اور برطانیہ میں 2007-10 میں گورڈن برائون کے بعد ڈیوڈ کیمرون اور اب دوسال سے تھریسا مے وزیر اعظم ہیں۔ 2013 میں ہمارے ہاں ڈالر 100 روپے کا تھا۔ 2017 میں مردم شماری کرائی گئی جس میں پاکستان کی آبادی20 کروڑ 77 لاکھ ہو گئی۔ 2017 تک ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر 104 روپے رکھا گیا۔ 2018 جون میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے برطانیہ میں بظاہر علاج کی وجہ سے مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ مقرر کیا، حالانکہ اُس وقت اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکومت مالی سال 2017-18 کا بجٹ پیش نہ کرے کہ اخلاقی طور پر اُسے اس کا جمہوری حق حاصل نہیں، مگر مسلم لیگ ن کی حکومت کے وزیر اعظم شاہد خان عباسی کی کا بینہ نے فیصلہ کیا کہ وہ تین مہینے کا مختصر بجٹ پیش کرنے کی بجائے آئندہ مالی سالی کا پورا بجٹ پیش کرے گی، یوںملک کی پارلیما نی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی منتخب حکومت نے اپنی پانچ سالہ حکومت میں چھ بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ قائم کیا، اس بجٹ کے بعد ڈالر کی قیمت 140تک پہنچی اور اب ڈالر 130 روپے کا ہے۔

27 ستمبر 2018 کو پاکستان تحر یک انصاف کی حکومت کے چالیس دن پورے ہونے پر وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان اور وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے مشترکہ کانفرنس میں ملک کی اقتصادی مالیاتی صورتحال بیان کی۔ عمر ایوب خان جو سابق صدر جنرل ایوب خان کے پوتے اور سابق وزیر خارجہ گوہر ایو ب خان کے بیٹے ہیں اور 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ انہوں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ انہوں نے بجٹ مالی سال 2018-19 کے بارے میں انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ سینکڑوں اربوں روپے کے اعداد و شمار کو بجٹ دستاویز میں چھپایا گیا اور ایسے اقدامات کئے گئے جو پی ٹی آئی کی حالیہ حکومت کے لیے ٹائم بم یا بارودی سرنگ ثابت ہو رہے ہیں اور ان کی پوری تفصیلا ت سے آگاہ کیا،2013, کے آخر تک قرضے 66 ارب ڈالر تک پہنچے، ان میں سے پی پی پی حکومت نے کچھ واپسی بھی کی مگر 2013 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری سال جون 2018 تک بیرونی قرضے 95 ارب ڈالر کی حد کو عبور کرگئے، اور اندرونی، گردشی قرضے،29 ہزار ارب روپے بتائے جا رہے ہیں۔

یوں پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی شدید معاشی، اقتصادی اور مالیاتی بحران کی زد میں ہے اور یہ صورتحال ملک کو اُس وقت لاحق ہے جب پوری دنیا میں سیاسی فیصلوں پر عملدر آمد کے لیے بڑی قوتیں ایک جانب ترقی پذیر ملکوں پر اقتصادی مالیاتی معاشی دبائو میں اٖضافہ کر رہی ہیں تو دوسری جانب امریکہ اور چین کے درمیان اب تقریباً تین سو ارب ڈالر سے زیادہ تجارتی مال پر ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں اضافہ کر کے ایک تجارتی جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ روس پر اور اس کے خلاف ہتھیارواسلحہ کی فروخت خصوصاً روس کے جدید میزائلوں کی فروخت پر بھی امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ ایران اور روس سے تجارت اور کاروباری معاہدو ں کی بھی امریکہ مخالفت کر رہا ہے اور اس طرح اب امریکہ کا دبائو بھارت پر بھی پڑنے لگا ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کو نہ صرف اپنے قرضے واپس کرنے ہیں بلکہ تیزرفتاری سے اپنے پیداواری شعبوں کو مستحکم کر کے پیدوار اور روزگار میںاضافہ کرناہے، تجارتی توازن کو اپنے حق میں کرنا ہے، یہ تمام امور جتنے اہم ہیں اُتنے ہی مشکل بلکہ مشکل ترین ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اصل قرضوں کی واپسی تو اپنی جگہ ان پر واجب الادا سود ہی تقریباً نو ارب ڈالر تک پہنچ رہا ہے۔ 27 ستمبر ہی کو خاتونِ اول محتر مہ بشریٰ بی بی نے ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ عمران خان کے پاس کو ئی جادو نہیں کہ اتنے مسائل چند دنوں میں حل ہو جائیں لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ مسائل وہ اپنے دور حکومت میں حل کر دیں گے۔ ہمیں بھی وزیر اعظم سے یہی امید ہے لیکن حقائق کی روشی میں دیکھیں تواس کی دو تین صورتیں ہی نظر آتی ہیں، اچانک ہمارے ملک میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو جائیں یا امریکہ کسی طرح پھر کہیں اس طرح پھنس جائے کہ پاکستان کے قرضوں کی معافی بھی ہو جائے اور امریکہ اور مغربی یورپ کی طرف سے ناقابلِ واپسی یعنی اربوں ڈالر اور یورو کے دروازے کھل جائیں اور تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت ملک میں ہر صورت واپس لائی جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ حالیہ قانون کے تحت اس دولت کو واپس لانے میں طویل عرصہ درکار ہے۔ یوں یا تو اس کے لیے نئے اور سخت قوانین فوراً بنائے جا سکتے ہیں مگر وہ اس لیے ممکن نہیں کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے اہم لیڈروں کے خلا ف زیادہ تر مقدمات ہیں اور پی ٹی آئی اور اس کی حلیف جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ میں اتنی اکثریت نہیں کہ وہ ان دونوں جماعتوں کی شراکت کے بغیر قانون سازی کر سکیں پھر یہ بھی ہے کہ چند کالی بھیڑیں اِن میں بھی مو جود ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ عمران ان کی قربانی پر راضی ہیں، یوں ایک ہلکی سی امید یہ ہو سکتی ہے کہ جہاں تک حالیہ قوانین کا تعلق ہے تو اُن کے تحت اس وقت بیرون ملک سے پاکستان کی لو ٹی ہوئی دولت اس طرح واپس لائی جا سکتی ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کا قبلہ مکمل طور پر درست ہو جائے اور وہ ممالک جہاں یہ دولت موجود ہے اُ ن کو تعاون کے لیے آمادہ کر لیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سو دنوں کی مدت میںعمران خان اس حوالے سے کتنی حوصلہ افزا پیش رفت کرتے ہیں۔

27 ستمبر ہی کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری میں شائد خواجہ آصف کی روح حلول کرگئی تھی اور اُنہوں نے نہایت جذباتی انداز میںگذ شتہ حکومتو ں پر کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات عائد کرتے ہوئے غیر پارلیمانی زبان استعمال کی جس پر اپوزیشن نے واک آئوٹ کیا اور پھر فواد چوہدری کی جانب سے ایوان سے معافی مانگنے پر اپوزیشن واپس ایوان میں آئی۔ یوں اسمبلی کے ہنگاموں سے اب عام آدمی کو کوئی مطلب نہیں اور اگر مطلب ہے تو واقعی اُس تین سو ارب ڈالر سے زیادہ لو ٹی ہو ئی قومی دولت سے ہے جس کی 30% واپسی سے ہی قوم کے مقدر بدل جا ئیں گے، اب اللہ تعالیٰ کی مدد سے عمران کیسے قوم کی تقدیر بدلتے ہیں یہ دیکھنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔