نئی پالیسی کے نفاذ سے سی فوڈ ایکسپورٹ میں 75 فیصد کمی کا خطرہ

کاشف حسین  ہفتہ 20 اکتوبر 2018
پالیسی سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کی حکومت کے آخری مہینے میں منظور ہوئی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پالیسی سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کی حکومت کے آخری مہینے میں منظور ہوئی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

 کراچی: اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر راتوں رات گہرے پانی میں ماہی گیری کی نئی پالیسی کے نفاذ سے پاکستان کی سی فوڈ ایکسپورٹ میں 75فیصد کمی کا خطرہ کھڑا ہوگیا ہے۔

سی فوڈ ایکسپورٹرز آج (ہفتے کو) وزیر خزانہ اسد عمر کی فیڈریشن ہاؤس آمد کے موقع پر پالیسی کے فشنگ اور سی فوڈ ایکسپورٹ پر گہرے اثرات سے آگاہ کریں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ گہرے پانی میں ماہی گیری کے لیے نئی پالیسی کے تحت پاکستانی ماہی گیروں کے 20ناٹیکل مائلز سے باہر جانے پر پابندی ہوگی۔ پاکستان کے 80فیصد ماہی گیر اسی علاقے سے مچھلی اور جھینگا پکڑتے ہیں جس میں سے 40فیصد مچھلیاں اور جھینگے بیرون ملک ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں۔

نئی پالیسی کے نفاذ کے بعد سے ماہی گیروں نے گہرے سمندر کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے اورنتیجے میں سی فوڈ کی ایکسپورٹ میں 90فیصد تک کمی کا سامنا ہے۔

پاکستان فشریز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اخلاق عابدی کے مطابق گزشتہ سال 40کروڑ ڈالر کی سمندری خوراک برآمد کی گئی تھی۔ پالیسی پر عمل درآمد کی ذمے داری میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے سپردکی گئی ہے جس نے پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والی ایککشتی قبضے میں لے کر قانونی کارروائی شروع کردی ہے اور بوٹ کے ساتھ پکڑی گئی مچھلی اور جھینگے بھی قبضے میں لے لیے ہیں۔

مناسب درجہ حرارت نہ ملنے کی وجہ سے مچھلی اور جھینگے ضایع ہونے کاخدشہ ہے۔ ماہی گیروں کی اکثریت ناخواندہ اور قوانین سے لاعلم ہے۔ نئی پالیسی کے تحت پاکستانی سمندری حدود کو3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

20سے 35ناٹیکل مائلز کی حدود کو زون تھری کا نام دیا گیا ہے جس کے لیے پاکستانی ماہی گیروں کو بھی غیرملکی ٹرالرز کی طرح لائسنس لینا ہوگا تاہم لائسنس کے لیے رجسٹریشن کرانے کی مدت بھی ختم ہوچکی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں گہرے پانی میں ماہی گیری کے لیے 15000کے لگ بھگ ٹرالرز رجسٹرڈ ہیں تاہم ان میں سے صرف 4000ٹرالرز فعال ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔