سپریم کورٹ کے فیصلے سے سندھ میں ہزاروں سرکاری افسران متاثر ہونگے

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 14 جون 2013
براہ راست بھرتی کیے جانیوالے 15اسسٹنٹ کمشنرز اور 150افسران کو فارغ کرنے کے طریقہ کار کا بھی جائزہ  فوٹو: فائل

براہ راست بھرتی کیے جانیوالے 15اسسٹنٹ کمشنرز اور 150افسران کو فارغ کرنے کے طریقہ کار کا بھی جائزہ فوٹو: فائل

کراچی: سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سرکاری افسران کی آؤٹ آف ٹرن ترقیوں ، انضمام اور براہ راست بھرتیوں کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے سندھ حکومت کے ارباب اختیار سخت اضطرابی کیفیت کا شکار ہیں۔

اس فیصلے پر مکمل طور پر عملدرآمد سے سندھ حکومت کا انتظامی ڈھانچہ مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گا اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا تدارک کرنا سندھ حکومت کی انتظامیہ کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا اس صورتحال کے پیش نظر سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام نے آئینی و قانونی  ماہرین سے مشاورت شروع کردی ہے کہ  اس فیصلے پر من وعن عملدرآمد کردیا جائے یا پھر اس فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کی جائے اس سلسلے میں چیف سیکریٹری سندھ چوہدری اعجاز نے پیر کی صبح اپنے دفتر میں ایک جائزہ اجلاس بھی طلب کیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عملدرآمد کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جا رہا ہے تاہم بعض معاملات میں نامور وکلاء سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے جبکہ سندھ حکومت فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے پر بھی غور کر رہی ہے ۔

فیصلے کے تحت 94 ء سے 2013 تک افسران کو مختلف محکموں میں انضمام کا سلسلہ جاری رہا لیکن اس دوران مختلف خود مختار اور نیم خود مختار ادارے بند کردیے گئے جن کے ہزاروں  ملازمین کو سندھ کے مختلف محکموں میں ضم کیا گیا  مختلف محکموں میں اضافی افسران کو سرپلس کرے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن بھیج دیا گیا تھا جنھیں بعدازاں مختلف محکموں میں ضم کیا گیا تھا ۔ ذرائع کے  مطابق چیف سیکریٹری سندھ اعجاز چوہدری نے اس ضمن میں ایک اجلاس پیر کو اپنے دفتر میں طلب کیا ہے جس میں محکمہ قانون ، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ، ریگولیشن کے محکموں اور دیگر متعلقہ حکام کو مدعو کیا گیا ہے جس میں سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کے طریق کار ، سندھ حکومت کی جانب سے اپیل کرنے اور سپریم کورٹ سے کلیریفکیشن حاصل کرنے کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا ۔

سپریم کورٹ کے حکم پر مکمل عملدرآمد کی صورت میں ہزاروں افسران کا انضمام ختم کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے سندھ حکومت میں شدید بحران کا خدشہ پیدا ہوگا۔ جبکہ براہ راست بھرتی ہونے والے 15 اسسٹنٹ کمشنرز اور آؤٹ آف ٹرن ترقیاں پانے والے ڈیڑہ سو افسران کو فارغ کرنے کے طریقہء کار کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ ادھر سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ پولیس میں آئوٹ آف ٹرن پرموشنز کو کالعدم دینے کے فیصلے کے بعد افسران خصوصاًً کراچی پولیس کے انتہائی بااثر اور طاقتور افسران کی خود ساختہ حکمرانی کو شدید دھچکا لگا ہے، تقریبا 15سالوں سے خود کو سندھ پولیس کیلیے ناگزیر سمجھنے والے سورمائوں کے چہروں پر پریشانی اور اضطراب واضح دکھائی دے رہا ہے۔

دوسری جانب آئوٹ آف ٹرن پرموشن کی نتیجے سالہاسال سے ترقیوں سے محروم افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ سول سرونٹس ترمیمی ایکٹس کو کالعدم قرار دینے کے بعد سندھ پولیس میں ڈی ایس پی، ایس پی اورڈی آئی جی کے عہدوں پر کام کرنے والے 83 افسران انتہائی پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں، مذکورہ افسران اپنے قریبی افراد کو یہ کہہ کر مطمئن کررہے ہیں کہ ابھی معاملہ ختم نہیں ہوا ہے اس سلسلے میں نظر ثانی کی درخواست کے ذریعے تمام مسئلہ حل ہوجائے گا جبکہ سالہا سال سے ترقیوں سے محروم افسران اس فیصلے سے انتہائی خوش دکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک مرتبہ پھر سندھ پولیس میں میرٹ کا نفاذ ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔