ہائے! ہماری بد قسمتی

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 21 اکتوبر 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

ہمیں 1947 سے لے کرآج تک جو بھی لیڈر نصیب ہوئے چندکو چھوڑکر ان کی اکثریت کرپٹ ، جھوٹی، دھوکا دینے میں نمبر1، جعلساز، فراڈ کرنے میں یکتا ، لوٹ مارکی دلدادہ ، عیش وعشرت اور شان وشوکت کی شوقین تھی جنہیں صرف اور صرف باتیں اور دعوے کرنے میں مہارت حاصل تھی ۔ وعدوں کا تو ذکر ہی نہ کریں تو بہتر ہے کیونکہ اس کے ذکر ہی سے رونا آجاتا ہے، آج ملک میں بائیس کروڑ عوام ان ہی کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں ، انھوں نے ایسے ایسے زخم لگائے ہیں کہ جن سے خون آنا ابھی تک بند نہیں ہورہا ہے۔

ملک کے سارے اداروں میں جو خاک اڑتی پھر رہی ہے، اس کے پیچھے وہ ہی کھڑے مسکرا رہے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ سب کے سب تا حیات حکمرانی کے خواب دیکھتے رہے ہیں اور اپنے اس خواب کو سچا کرنے کے لیے انھوں نے اپنی طرف سے کوئی بھی کسر نہیں چھوڑی یہ تو ہمارے ہی نصیب اچھے تھے کہ ان کے یہ خواب ان کے لیے ڈرائونا خواب بن کے رہ گئے، ورنہ انھوں نے تو اپنی طرف سے پوری کوششیں کی تھیں کہ ہم پر تاحیات مسلط ہو جائیں ۔ لیڈر شپ کے حوالے سے دنیا بھر میں بے شمارکتابیں شائع ہوچکی ہیں، یہ کتابیں مقبول اور معروف لیڈروں کی زندگیوں پر ہیں لیکن ’’ لنکن بطور لیڈر‘‘ اشاعت (1922) ایسی تمام کتابوں سے مختلف ہے اور اس کا انداز بھی دیگرکتابوں سے منفرد ہے۔

مصنف فلپس ایک سیمینار میں تھا تب اس نے حقیقی طور پر محسوس کیا کہ ابراہم لنکن وہ واحد لیڈر تھا جس نے اپنے آئیڈیازکو اپنی حقیقی زندگی میں استعمال کیا، تب فلپس نے ابراہم لنکن پر سیکڑوں کتابیں اور آرٹیکلرز پڑھے تو اس نے دریافت کیا کہ ابراہم لنکن کے آئیڈیاز بالکل نرالے اور انوکھے تھے۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ ابراہم لنکن کی لیڈرشپ پر بہت کم لکھاگیا ہے۔ فلپس نے ابراہم لنکن کو ایک حقیقی لیڈر اورکامیاب ترین صدر تسلیم کیا ہے ۔اس لیے ہر لیڈرکو چاہیے کہ وہ لنکن کی زندگی کا مطالعہ کرے تاکہ لیڈرشپ کی حقیقت کو سمجھ لے۔ فلپس نے لنکن کی صدارت کے اہم نکات یوں بیان کیے ہیں۔

(1) متحرک لیڈر ۔امریکا کی تاریخ میں وہ بہترین صدر تسلیم کیا جاتا ہے لنکن ہر اس شخص سے ذاتی طور پر ملتا جواس سے ملنا چاہتا ۔ وہ فوجی جرنیلوں سے مل کر اس کے جوانوں کے متعلق گفتگوکرتا وہ ہر طرح کی معلومات خود حاصل کرتا ۔ جب وہ ضروری سمجھتا تو خود محاذ پر جا کر فوجوں کی نگرانی کرتا وہ پڑھے لکھے لوگوں کا بہت مداح تھا ۔ وہ عام کسانوں اور مزدوروں سے بھی فراخ دلی کے ساتھ ملتا ۔ وہ ہرکسی کی بات بہت غور سے سنتا، اس طرح عوام کا اعتماد اس پر بہت زیادہ بڑھ گیا تھا ۔

2 ۔ انسانی فطرت کاعالم :۔ وہ ہرکسی کی غلطی آسانی سے معاف کردیتا تھا، اس میں کسی قسم کا غرور اور تکبر نہ تھا اس میں جذبہ رحم بہت زیادہ تھا۔اس کا کہنا تھا کہ شہدکی مکھیاں جتنا زیادہ پر سکون ہوںگی اسی قدر شہد زیادہ اکٹھا کریں گی اور یہ ہی حال انسانوں کا ہے انسانوں کو جس قدر زیادہ محفوظ اور خوش رکھا جائے اس کی کارکردگی اسی قدر زیادہ ہوگی ۔لنکن نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی کمزوریوں کے متعلق لوگ کیا کہتے ہیں وہ بے خوف ہوکرکام کرتا تھا

3 ۔ دیانتدار لیڈر : لنکن کا عرف ’’ دیانتدار ‘‘ ایب (Abe) تھا لنکن کی دیانتداری اور شہرت کی وجہ سے اس کی قائدانہ صلاحیتیں زیادہ مضبوط تھیں کیونکہ عوام اپنے لیڈروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ دیانتدار ہوں اور جوکچھ کریں صحیح اور درست کریں ۔ لنکن کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی کو الزام نہیں دیتا تھا بلکہ اپنی غلطیوں کوکھلے دل سے تسلیم کرتا تھا ۔اس نے اپنی تقریر میں یادگار الفاظ میں کہا تھا ’’کسی کے ساتھ بغض نہ رکھو بلکہ ہرکسی کی مدد کی جائے ۔ جان دانا میکر آنجہانی نے ایک دفعہ اعتراف کیاکہ ’’ مجھے تیس برس پہلے یہ بات معلوم ہوئی تھی کہ کسی کو سرزش کرنا بے وقوفی ہے ، مجھے اپنی کمزوریوں پر غالب آنے میں کافی زحمت اٹھانی پڑی ہے، میں اس امر پرکبھی چین بجیں نہیں ہوا کہ خدانے ذہانت کو مساوی طور پر تقسیم کرنا مناسب نہیں سمجھا۔‘‘

یاد رہے عیب جوئی خطرناک ہے۔ انسانی فطرت عملاً کچھ اسی قسم کی واقع ہوئی ہے کہ غلط کار سوائے اپنے اور سب کو الزام دیتا رہتا ہے ہم سب اس معاملے میں یکساں ہیں روز ویلٹ کہتا تھا کہ جب وہ صدر تھا اور اسے کوئی مشکل مرحلہ پیش آجاتا تو وہ اپنی آرام کرسی پر تکیہ لگا کر بیٹھ جاتا اور لنکن کی قد آور تصویرکی طرف دیکھا کرتا تھا جو اس کی میزکے اوپر وائٹ ہائوس میںآویزاں تھی اور اپنے دل سے یہ سوال کیا کرتا تھا اگر اس وقت میری جگہ لنکن ہوتا تو اس موقعے پرکیاکرتا ؟ وہ کسی طرح اس مسئلے کو حل کرتا ؟کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ ہمارے لیڈروں کو جب کبھی کوئی مشکل مرحلہ در پیش آتا ہے تو وہ کس کی تصویرکی طرف دیکھتے ہیں کیا قائد اعظم کی تصویر کی طرف یا پھر غلام محمد کی طرف ۔ آپ نے بالکل صحیح سوچا ہے وہ سب غلام محمد کی تصویرکی طرف دیکھ کر اس کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ یہ ہی ملک اور قوم کے حالات پیدا ہونگے جو ہوئے ہیں۔

آئیں! ہم مرحلہ وار اپنے لیڈروں کی اکثریت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

(1) متحرک لیڈر : ہمارے لیڈروں کی اکثریت منتخب ہونے کے بعد یا پہلے اپنے چند ساتھیوں کے علاوہ دوسروں سے ملنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔اس لیے وہ کسی سے نہیں ملتے، انہیں پڑھے لکھے لوگوں سے سخت چڑ ہے۔ اس لیے وہ انہیں اپنے پاس پھٹکنے ہی نہیں دیتے ہیں وہ صرف جاہل اور عقل کے دشمنوں کو اپنے گرد جمع رکھنا پسند کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کو بھی جو ان کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ کرنے کی مہارت رکھتے ہیں اور جو ان کی ہر وقت خوشامد اور چمچہ گیری میں مصروف رہتے ہیں۔

(2) انسانی فطرت کاعالم : وہ کسی کی غلطیوں کوکبھی معاف نہیں کرتے ہیں، ان میں غرور اور تکبرکتنا ہے نہ ہی پوچھیں توبہتر ہے وہ ہرکسی سے محاذ آرائی کے شوقین نمبر ون ہیں ۔ الزام تراشی ، دھوکہ ، فریب ، جعلسازی، جھوٹ ،کرپشن ، لوٹ مار جیسی خوبیاں خون کے ساتھ ان کی رگوں میں گھومتی پھرتی ہیں ، وہ اپنے علاوہ کسی اورکو برداشت کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ہیں ۔ سازشیں ان کی فطرت بن چکی ہیں عام لوگوں کو وہ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ہیں۔

(3) دیانت دار لیڈر : دیانت دار اور ایمانداری سے انہیں گھن آتی ہے، ان سب کا عرف معلوم کرنا ہو تو ملک کے بیس کروڑ عوام میں سے کسی سے بھی پوچھ لیں۔اپنے علاوہ ملک کے ہر ادارے کوکمزور کرنا، ان کا پسندیدہ عمل ہے انہیں صرف اور صرف دولت کے انباروں ، محلات ، ہیرے جواہرات کے ڈھیروں سے محبت ہے ، اگر ان کا بس چلے تو وہ تاریخ میں سے لنکن اور ان جیسے لیڈروں کا ذکر اور فکر اورعمل کو نیست و نابود کردیں لیکن ہائے ان کی بدقسمتی کہ وہ یہ کرنے پرکوئی قدرت نہیں رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔