شکستہ چھت نہ سہی، آسمان رہنے دے

شاہد سردار  اتوار 21 اکتوبر 2018

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے ۔ دنیا میں شاید ہی دوکروڑ نفوس پر مشتمل کوئی ایسا شہر ہوکہ جہاں شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی باوقار سہولت میسر نہ ہو ۔

پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی اور بین الاقوامی شہر قیام پاکستان سے لے کر اب تک ماس ٹرانزٹ منصوبے کی راہ تک رہا ہے، برسہا برس سے کراچی کے بے بس شہری بسوں کا انتظارکرتے ہوئے ہر آنے والی حکومت کے آگے یہ سوال رکھتے ہیں کہ یہاں بس کب آئے گی؟کراچی ماس ٹرانزٹ منصوبے کو بنے 42 برس سے زایدکا عرصہ گزر چکا ہے لیکن بد قسمتی سے یہ پروجیکٹ آج بھی صرف بوسیدہ یا نئی فائلوں میں دکھائی دیتا ہے۔

کراچی کے باسی آئے روز یہ دعوے سنتے ہیں کہ گرین بس آرہی ہے، ڈبل ڈیکر بس آرہی ہے۔ سرکلر ٹرین آرہی ہے۔ ستم ظریفی اس شہر اور اس شہرکے باسیوں کی دیکھیں کہ یہاں گائوں یا چھوٹے شہروں میں چلنے والے چنگ چی رکشے کراچی جیسے بڑے شہر کی سڑکوں پر چلادیے گئے اور جو پرائیویٹ بسیں تھیں وہ یا تو ختم کردی گئیں یا ان کی تعداد آٹے میں نمک جتنی رہ گئی ہے۔

کسی دور میں کراچی میں سرکلر ریلوے ، ٹرام اور کے ٹی سی بسیں موجود تھیں لیکن ان کے خاتمے کے بعد ہم ماس ٹرانزٹ کا کوئی متبادل نظام پیش نہیں کرسکے۔ ماس ٹرانزٹ سسٹم نہ ہونے کی واحد وجہ کرپشن اور عوام توجہی ہی کہی جاسکتی ہے ۔ ٹرانسپورٹرزکو نہ قرضے دیے جاتے ہیں اور نہ ہی انھیں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے لیے باقاعدہ ٹرمینلز قائم ہوئے، اس پر مستزاد یہ کہ گزرے دورکے وزیر ٹرانسپورٹ نے چنگ چی رکشوں کو شہر میں چلنے کی اجازت دے دی۔

شہریوں کی سہولت کے لیے پہلی ترجیح ماس ٹرانزٹ سسٹم ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے بجائے فلائی اوورزکو ترجیح دی گئی جس کی وجہ سے موٹر سائیکل اورکار سواروں کو تو فائدہ ہوا مگر مسافروں کے لیے نہیں ۔ ان عارضی منصوبوں کی وجہ سے آج پھر شہر میں ٹریفک جام معمول بن چکا ہے۔ خستہ حال منی بسوں اورکوچز نے پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر بے بس شہریوں کو کسی حد تک سہارا دے رکھا ہے۔

پاکستان میں پہلی بار 1970 میں کراچی ماس ٹرانزٹ پر ذوالفقار علی بھٹو نے کام شروع کیا تھا لیکن بد قسمتی سے سرد خانے میں ہی رکھا ۔ متعدد بار پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن باریاں لیتی رہی، ضیا الحق اور پرویز مشرف کا جبری طویل عرصہ بھی ایسے ہی گزر گیا لیکن بس کے نام پر عوام کا بس نہ چلا ۔گزشتہ سے پیوستہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بلاول نے 150 ارب روپے کا پیکیج کراچی میں ٹرانسپورٹ کی مد میں دینے کا اعلان کیا تھا ۔ اس میں 10 ارب کی جو بسیں چلائی وہ کامیابی سے چلیں اور بالآخر ان کا لاپتہ افراد کی طرح کوئی پتا نہ چلا۔کراچی میں یوں تو ہر دوسرے شخص کے پاس موٹر سائیکل بائیک ہے جس پر اس کی فیملی سفرکرتی ہے اور خود وہ ملازمت پر جاتا ہے لیکن ہر پہلا انسان بسوں ، ویگنوں اورکوچوں کی چھتوں، ان کے پائے دانوں پر لٹک کر سفرکرنے پر مجبور ہے۔

خواتین ، بزرگ بالخصوص نوجوان لڑکیاں اسکول، کالجز، ٹیوشن یا ملازمت کے لیے ان گاڑیوں کے لیے رُلتی، دھکے کھاتی دکھائی دیتی ہیں لیکن کسی دورکی حکومت ان کی اس بے بسی پر ترس کھانے کو کبھی آمادہ ہوتی نظر نہیں آئی ۔

واقعی کبھی کبھی وہ لوگ ہمیں بہت حیران کردیتے ہیں جنھیں ہم برسوں سے جانتے ہیں۔ آخر ووٹ مانگنے والے ووٹ دینے والوں کوکیا نہیں جانتے اور ووٹر بھی بخوبی ان سے واقف ہیں۔ دراصل پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ووٹ مانگنے کے لیے آنے والے ووٹنگ کے بعد اگلے پانچ برسوں کے لیے غائب ہوجاتے ہیں۔ اسلام آباد کے ایوانوں کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہماری موجودہ نئی حکومت کے وزیر ریلوے کی طرف سے کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے ایک نیا وعدہ سامنے آیا ہے، وزیر ریلوے نے کراچی کے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ کراچی سرکلر ریلوے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔

انھوں نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی نہ توکوئی تاریخ دی اور نہ ہی کوئی ایسی بات کہی جس سے ظاہر ہوتا کہ سرکلر ریلوے کی بحالی ان کی ترجیحات میں کہیں اوپر ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کئی عشروں سے تقریباً ہر حکومت کے دور میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے اعلانات کیے جاتے رہے ۔کئی مواقعے پر اس کی افتتاحی تقریبات تک ہوچکی لیکن شہر قائد کے لوگوں کا یہ حال ہوچکا کہ بسوں، ویگنوں کی بڑی تعداد غائب ہونے کے بعد 30 سے 50 سال پرانی جو چند خستہ حال بسیں سڑکوں پر گھنٹوں میں اپنا دیدارکراتی ہیں ان کے پیچھے دوڑ دوڑ کر تھک گئے ہیں۔

رکشہ، ٹیکسی ڈرائیوروں کے من چاہے، من مانے معاوضوں پر خواتین ، بزرگ اور دیگر افراد سفرکرتے چلے آرہے ہیں۔ شہر قائد میں ایک ہزار بسیں بھی اگر سڑکوں پر آجائیں تو بھی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ کیونکہ کروڑوں لوگوں کے لیے یہ سواری ناکافی تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیا بھرکی عوام کی سہولتیں کہاں سے کہاں پہنچ گئیں اور پاکستان کے عوام سے چین، سکھ، پانی، بجلی، اشیائے خورونوش، بس کو بھی ہمارے ارباب اختیار اپنی مٹھی میں لیتے چلے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے ممتاز راشد کا یہ شعر بڑا ہی حسبِ حال کہا جاسکتا ہے کہ:

شکستہ چھت نہ سہی آسمان رہنے دے

کڑا ہے وقت کوئی سائبان تو رہنے دے

ہماری نئی حکومت کے وزیراعظم تو نئے ہیں لیکن ان کی حکومت کے اکثر وزرا بہت پرانے ور تجربے کار ہیں کم ازکم انھیں کراچی کے عوام کے لیے سفری سہولیات کا احیا کرنا چاہیے اور اگر ان کی حکومت تبدیلی کا نعرہ لگاکر آئی ہے تو اسے ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کراچی شہر میں تبدیلی کا اہتمام و انتظام کرنا چاہیے۔ یہ جان کر یہ سوچ کرکہ چاہے وزیراعظم ہو یا اس کا کوئی زیر یا چاہے ہم میں سے کوئی بھی ہو زندگی کی کتاب میں اتنی غلطیاں نہیں کرنی چاہیے کہ پنسل سے پہلے ربڑ ختم ہو جائے اور توبہ سے پہلے زندگی تمام ہو جائے۔

ویسے بھی ہم زمین پر ہمیشہ کے لیے رہنے نہیں آئے لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے اور لوگوں کے کام آنا چاہیے، ہمارے ارباب اختیارکو اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کہ جو تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے انھیں تاریخ کے رحم وکرم پر سسکنے کے لیے چھوڑدیا جاتا ہے اور پھر وہ ان سزائوں کے منتظر رہتے ہیں جو عبرت نہ حاصل کرنے والوں کا مقدر بنتی ہیں ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ کراچی میں نہ صرف نئی بسیں بڑی تعداد میں لائی جائیں بلکہ سرکلر ریلوے کی بحالی کے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں اس سے پہلے جو سستی ٹرام سروس بند کی گئی اس کی بحالی کے علاوہ کئی بسوں کے ڈھانچوں پر مشتمل لائٹ ٹرین منصوبہ بھی روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔